Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 35
لِیُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
لِيُكَفِّرَ : تاکہ دور کردے اللّٰهُ : اللہ عَنْهُمْ : ان سے اَسْوَاَ : برائی الَّذِيْ : وہ جو عَمِلُوْا : انہوں نے کیے (اعمال) وَيَجْزِيَهُمْ : اور انہیں جزا دے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : بہترین (اعمال) الَّذِيْ : وہ جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
تاکہ خدا ان سے برائیوں کو جو انہوں نے کیں دور کردے اور نیک کاموں کا جو وہ کرتے رہے ان کو بدلہ دے
لیکفر اللہ عنھم اسوا الذی علموا ویجزیھم اجرھم باحسن الذی کانوا یعلمون تاکہ اللہ ان سے ان کے برے اعمال (کی سزا) کو دور کر دے (یعنی معاف کر دے اور قیامت کے دن چھپائے رکھے) اور ان کے نیک کاموں کے عوض ان کو ان کا ثواب عطا فرمائے۔ اَسْوَاَ (بہت برے) بطور مبالغہ ( کلام کو پرزور بنانے کیلئے) فرمایا ‘ کیونکہ جب سب سے برے اعمال کو اللہ معاف فرما دے گا تو کم درجہ کے برے اعمال کی معافی تو بہرحال ہو ہی جائے گی۔ یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ کبیرہ گناہ معاف ہوجائیں گے ‘ پس معتزلہ کا قول غلط ہے جو عفو کبائر کے قائل نہیں۔ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا کہنے سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ وہ ہر گناہ کو جو ان سے صادر ہو اجائے (خواہ وہ چھوٹا ہو) سب سے برا سمجھتے ہیں ‘ گویا تمام (چھوٹے بڑے) گناہ ان کی نظر میں بڑے ہی ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہَ اسْوَاَ سے مراد تفضیل اضافی نہیں بلکہ تفضیل ذاتی ہے (یعنی کسی دوسرے گناہ کے مقابلہ میں زیادہ برا ظاہر کرنا مراد نہیں ہے بلکہ فی نفسہٖ عمل کا بہت برا ہونا مراد ہے) ۔ اَجْرَھُمْ یعنی ان کے اعمال ثواب بِاَحْسَنِ الَّذِیْ الخ یعنی ان کے اچھے اعمال کا (خواہ وہ سب سے اچھے نہ ہوں) بدلہ اتنا عطا فرمائے گا جو سب سے بہتر عمل کا مقرر ہے ‘ کیونکہ ان کا ہر نیک عمل اخلاص کے ساتھ ہوتا ہے ‘ یا یوں کہا جائے کہ اَحْسَنَ (اسم تفضیل) سے یہاں بھی فضیلت مراد ہے (حسن اضافی مراد نہیں ہے) اسلئے مقاتل نے کہا کہ اللہ ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دے گا اور برے اعمال کا بدلہ نہیں دے گا۔
Top