Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 51
فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا١ؕ وَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ هٰۤؤُلَآءِ سَیُصِیْبُهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا١ۙ وَ مَا هُمْ بِمُعْجِزِیْنَ
فَاَصَابَهُمْ : پس انہیں پہنچیں سَيِّاٰتُ : برائیاں مَا كَسَبُوْا ۭ : جو انہوں نے کمائی وَالَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور جن لوگوں نے ظلم کیا مِنْ هٰٓؤُلَآءِ : ان میں سے سَيُصِيْبُهُمْ : جلد پہنچیں گی انہیں سَيِّاٰتُ : برائیاں مَا كَسَبُوْا ۙ : جو انہوں نے کمایا وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنے والے
ان پر ان کے اعمال کے وبال پڑ گئے۔ اور جو لوگ ان میں سے ظلم کرتے رہے ہیں ان پر ان کے عملوں کے وبال عنقریب پڑیں گے۔ اور وہ (خدا کو) عاجز نہیں کرسکتے
فاصابھم سیات ما کسبوا والذین ظلموا من ھولاء سیصیبھم سیات ما کسبوا وماھم بمعجزین ان کی تمام بداعمالیاں ان پر آپڑیں اور ان میں سے جو ظالم (یعنی کافر) ہیں ‘ ان کی بداعمالیاں بھی ان پر عنقریب آ پڑنے والی ہیں ‘ اور یہ (خدا تعالیٰ کو) ہرا نہیں سکتے۔ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مقاتل نے کہا : اس سے مراد قارون ہے ‘ قارون نے کہا تھا : اِنَّمَا اوتیتہ علٰی عِلْم عِنْدِی اور چونکہ اس کے ساتھی اس کے اس قول سے متفق تھے ‘ اس لئے سب کو اس قول کا قائل قرار دیا۔ فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ یعنی وہ خزانے جن کی کنجیاں ایک طاقتور گروہ اٹھایا کرتا تھا ‘ کچھ کام نہ آئے۔ سَیِّاٰتُ مَا کَسَبُوْا یعنی بداعمالیوں کی سزا۔ سیّآت کی سزا کو ‘ سّیآت صرف تقابل کی وجہ سے قرار دیا۔ مِنْ ھآؤُلَآء یعنی مکہ کے کافروں میں سے (یا اہل مکہ میں سے ‘ مترجم) ۔ سَیُصِیْبُھُمْ چناچہ کفار مکہ سات سال تک قحط میں مبتلا رہے ‘ پھر بدر میں ان کے بڑے بڑے مکھیا مارے گئے اور دوزخ میں داخل کئے گئے۔ صرف وہ لوگ محفوظ رہے جنہوں نے توبہ کرلی اور مسلمان ہوگئے۔ وَمَاھُمْ بِمُعْجِزِیْنَ اللہ تعالیٰ کو ہرا نہیں سکتے ‘ یعنی اللہ کی گرفت سے چھوٹ نہیں سکتے۔
Top