Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
(اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے (کفر و شرک کر کے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں ‘ تم اللہ کی رحمت سے نراس مت ہو۔ یقیناً اللہ (تمہارے) تمام (گذشتہ) گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلآی اَنْفُسِھِمْ یعنی کفر و معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو حد سے بڑھ کر مجرم بنا دیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کی روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا : اسراف سے مراد کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ہے۔ لاَ تَقْنَطُوْا یعنی اگر تم ایمان لے آئے اور توبہ کرلی تو اللہ کی مہربانی اور مغفرت سے ناامید نہ ہو۔ مغفرت کیلئے ایمان کی شرط باتفاق علماء ثابت ہے۔ اللہ نے اپنے کلام میں خود اس کی صراحت کردی ہے اور فرما دیا ہے : اِنَّ اللہ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ الخ آیت مندرجۂ بالا کی شان نزول کے بیان میں جو روایات آئی ہیں ‘ ان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جَمِیْعًا یعنی شرک سے توبہ کرلو گے اور اللہ کی وحدانیت کو مان لو گے تو اللہ گذشتہ چھوٹے بڑے سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ حضرت عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام پچھلے گناہوں کو ڈھا دیتا ہے (مسلم) ۔ آیت کی شان نزول خاص ہے ‘ ایک خاص واقعہ سبب نزول ہے۔ ان لوگوں کے حق میں آیت کا نزول ہوا تھا ‘ جنہوں نے مشرک ہونے کی حالت میں کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ‘ پھر شرک سے توبہ کی اور مسلمان ہوگئے ‘ لیکن آیت کے الفاظ عام ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بندہ ہو بشرطیکہ مؤمن ہوچکا ہو ‘ ایمان لا چکا ہو (ا اللہ نے عباد کی نسبت اپنی ذات کی جانب کی جس سے محاورۂ قرآنی کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ مؤمن بندے ہی مراد ہیں) اگر اس نے اسلام کے بعد بھی کبائر کا ارتکاب کیا ہو تو امید ہے اللہ معاف فرما دے گا۔ اس کو ناامید نہ ہونا چاہئے خواہ گناہوں سے توبہ نہ کی ہو ‘ کیونکہ اللہ نے دوسری آیت میں وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء فرما دیا ہے۔ پھر اگلی آیت ہے۔ انہ ھو الغفور الرحیم بلاشبہ وہ ہی ہے بڑا بخشنے والا ‘ نہایت مہربان۔ اس آیت میں غیر مشرک کی مغفرت عمومی (حسب مشیت) کئی وجوہ سے ثابت ہو رہی ہے : نمبر 1 الغفور مبالغہ کا صیغہ ہے۔ نمبر 2 الغفور الف لام کے ساتھ مفید حصر ہے۔ نمبر 3 الغفور کے بعد الرحیم کہہ کر وعدۂ رحمت کیا ہے۔ نمبر 4 عبادی لفظ عباد مؤمنوں کی عاجزی پر اور اپنی ذات کی نسبت کرنا اختصاص پر دلالت کر رہا ہے اور ان دونوں اوصاف کا تقاضا ہے کہ رحم کیا جائے اور عبادی سے کلام کا آغاز ہی عموم مغفرت پر دلالت کرتا ہے۔ نمبر 5 اسراف کو انفس عباد کے ساتھ خاص کیا۔ نمبر 6 مغفرت کا تو ذکر ہی کیا ہے ‘ رحمت سے بھی ناامید ہونے کی ممانعت فرما دی۔ نمبر 7 عموم مغفرت کی علت اِنَّ اللہ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا کو قرار دیا۔ نمبر 8 بجائے ضمیر کے لفظ اللہ کو صراحۃً ذکر کیا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ (بندوں کے گناہوں اور فرمانبرداروں سے) مستغنی ہے ‘ وہ بہرحال منعم ہے۔ نمبر 9 الذنوب کی تاکید جمیعًا کے لفظ سے کردی۔ متعدد احادیث بھی عمومی مغفرت کو بتارہی ہیں اور اتفاق امت بھی اسی پر ہے۔ مقاتل بن حبان نے بتوسط نافع حضرت ابن عمر کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت ابن عمر نے فرمایا : ہم گروہ صحابہ خیال کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری ہر نیکی ضرور قبول ہوگی۔ اس کے بعد جب آیت یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللہ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْ (اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کے فرمان پر چلو اور اپنے اعمال کو بیکار نہ کر دو ) نازل ہوئی تو ہم اپنے اعمال کو سوائے اس کے کہ کبیرہ گناہ کریں اور فواحش کا ارتکاب کریں اور کس طرح باطل کرسکتے ہیں ‘ یہ خیال کرنے کے بعد جب ہم کسی کو کوئی کبیرہ گناہ کرتے دیکھتے تو کہتے : یہ شخص تباہ ہوگیا۔ اس کے بعد یہ آیت (قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا) نازل ہوئی تو ہم اپنے دونوں قولوں سے رک گئے۔ اس کے بعد ہم کسی کو کوئی گناہ کرتے دیکھتے تو ہم کو اس کے متعلق (بربادئ اعمال کا) خوف ہوجاتا اور اگر کسی نے ارتکاب گناہ نہ کیا ہوتا تو ہم کو اس کے متعلق (قبول اعمال کی) امید ہوتی۔ روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود مسجد میں تشریف لے گئے ‘ وہاں ایک واعظ ‘ وعظ کہہ رہا تھا اور دوزخ کا اور دوزخ کے طوق و زنجیر کا ذکر کر رہا تھا۔ آ جا کر اس کے سر کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور کہا : اے وعظ کرنے والے ! لوگوں کو ناامید کیوں کر رہا ہے ؟ پھر آپ نے آیت قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا الخ پڑھی۔ حضرت اسماء بنت زید کا بیان ہے کہ میں نے خود سنا ‘ رسول اللہ ﷺ نے پڑھا تھا : قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلآی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہ اِنَّ اللہ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا وَّلاَ یُبَالِیْ (یعنی اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو ‘ اللہ سب گناہ معاف کر دے گا اور (کسی کے) گناہ کی پروا نہیں کرے گا۔ چونکہ راویہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ پڑھ رہے تھے ‘ اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وَلَا یُبَالِیْ کا لفظ آیت کے اندر داخل ہے) رواہ احمد والترمذی ‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے ‘ لیکن ..... شرح السنۃ میں پڑھنے کی بجائے فرمانے کا لفظ آیا (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت لفظ جمیعًا پر ختم ہوگئی اور ولا یبالی کا لفظ حضور ﷺ نے آیت کے بعد خود پڑھا ‘ یہ آیت کا جزء نہیں ہے) ۔ حضرت ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جو ننانوے آدمیوں کو قتل کرچکا تھا۔ پھر (توبہ کی غرض سے) ایک تارک الدنیا درویش کے پاس گیا اور اس سے (اپنی توبہ کے متعلق) مسئلہ دریافت کیا۔ درویش نے کہا : تیرے لئے کوئی توبہ (کی گنجائش) نہیں ہے۔ سائل نے یہ جواب سن کر اس درویش کو بھی قتل کردیا۔ اس کے بعد لوگوں سے دریافت کرتا پھرا کہ اب میں کس سے مسئلہ پوچھوں ؟ ایک شخص نے کہا : فلاں بستی میں جاؤ ‘ وہاں ایک بڑا عالم ہے ‘ اس سے دریافت کرو۔ حسب ہدایت یہ قاتل اس بستی کی طرف چل دیا۔ (راستہ میں) اس کو موت آپہنچی ‘ لیکن (مرتے مرتے) اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف کر اٹھا دیا ‘ یعنی بڑھا دیا (اور مرگیا) رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اس شخص کے متعلق اختلاف ہوگیا۔ اللہ نے ایک طرف (یعنی بستی کی طرف) والی زمین کو حکم دیا : تو قریب ہوجا اور دوسری طرف والی زمین کو حکم دیا (یعنی جہاں سے وہ شخص چلا تھا ‘ اس زمین کو حکم دیا) تو دور (یعنی لمبی) ہوجا۔ فرشتوں نے (حسب الحکم) دونوں طرف کی زمین کو ناپا اور موازنہ کیا تو بستی کی طرف والی زمین کو ایک بالشت کم پایا ‘ پس اس شخص کی مغفرت ہوگئی (متفق علیہ) ۔ مسلم بن حجاج نے بھی یہ حدیث بیان کی ہے ‘ اس روایت کے مطابق حدیث کے یہ الفاظ ہیں : اس قاتل کو ایک راہب کا پتہ بتایا گیا ‘ قاتل نے اس راہب سے جا کر کہا : میں نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا ہے ‘ کیا میری توبہ (قبول) ہوسکتی ہے ؟ راہب نے کہا : نہیں۔ اس شخص نے راہب کو بھی قتل کردیا ‘ اس طرح (100) سو کی تعداد پوری ہوگئی۔ پھر لوگوں سے دریافت کیا : (اب) اس زمین کے رہنے والوں میں سب سے بڑا کون ہے ؟ کسی نے ایک اور عالم کا پتہ بتادیا ‘ اس قاتل نے اس عالم سے جا کر کہا : میں نے (100) سو قتل کئے ہیں ‘ کیا میری توبہ (قبول) ہوسکتی ہے ؟ عالم نے جواب دیا : ہاں ! توبہ قبول ہونے میں کون رکاوٹ ہوسکتا ہے ؟ تم فلاں مقام پر جاؤ ‘ وہاں کچھ لوگ اللہ کی عبادت میں مشغول ملیں گے۔ تم بھی ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجاؤ اور اب لوٹ کر اپنی بستی کو نہ جانا ‘ وہ بری (یعنی گناہوں کی) سرزمین ہے۔ یہ بات سن کر یہ قاتل ‘ عالم کی بتائی ہوئی بستی کی طرف چل دیا ‘ آدھا راستہ طے کیا تھا کہ موت آپہنچی۔ اس کے متعلق رحمت اور زحمت کے فرشتوں میں اختلاف ہوگیا۔ ایک فرشتہ اپنی صورت بدل کر (ان کا اختلاف دور کرنے کیلئے) آگیا ‘ فرشتوں نے اس کو پنچ بنا لیا ‘ پنچ نے فیصلہ کیا کہ دونوں طرف کی زمین ناپ لو ‘ جس طرح کی زمین کم ہو ‘ اسی کے حکم میں اس شخص کو داخل کرو۔ فرشتوں نے زمین کی پیمائش کی تو اس طرف کی زمین کم پائی جہاں (عبادت کیلئے) جانے کا اس نے ارادہ کیا تھا ‘ چناچہ رحمت کے فرشتوں نے اس روح پر قبضہ کرلیا۔ بخاری اور مسلم نے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی تھا ‘ جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی۔ جب مرنے لگا تو اس نے گھر والوں کو وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد جلا ڈالنا ‘ پھر جلی ہوئی خاک کو آدھی سمندر میں اور آدھی خشکی میں اڑا دینا ‘ کیونکہ اگر خدا کا مجھ پر قابو چل گیا تو خدا کی قسم ! وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جو سارے جہان میں کسی کو نہیں دے گا۔ جب وہ شخص مرگیا اور گھر والے وصیت کے موافق عمل کرچکے تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا تو سمندر نے وہ خاک یکجا کردی جو اس میں اڑائی گئی تھی اور خشکی کو حکم دیا تو اس نے اپنے اندر کی ساری خاک جمع کردی۔ پھر اللہ نے اس شخص سے پوچھا : تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے جواب دیا : اے میرے رب ! تیرے ڈر سے ‘ تو خوب واقف ہے۔ اللہ نے اس کو بخش دیا۔ بغوی نے لکھا ہے : ضمضم بن جوش نے کہا : میں مدینہ کی مسجد میں داخل ہوا تو ایک بوڑھے آدمی نے (جس کو میں پہچانتا نہ تھا) مجھے پکار کر کہا : اے شخص ! کسی آدمی سے تو ہرگز یہ نہ کہنا کہ اللہ تیری مغفرت نہ کرے گا اور تجھے جنت میں داخل نہ کرے گا۔ میں نے کہا : آپ پر اللہ کی رحمت ہو ‘ آپ کون ہیں ؟ ان بزرگ نے کہا : میں ابوہریرہ ہوں۔ میں نے کہا : یہ لفظ تو ایسا ہے جو نفرت کے وقت ہر شخص کہتا ہے ‘ غصہ ہوتا ہے تو اپنے گھر والوں کو بھی کہتا ہے اور بیوی کو بھی اور خدمتی آدمیوں کو بھی۔ بزرگ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے جو باہم دوست تھے ‘ ایک عبادت میں بڑی محنت کرتا تھا اور دوسرا گناہ کرتا رہتا تھا۔ عابد اپنے گناہگار دوست سے کہتا تھا : اب اپنی ان حرکتوں سے باز آ جا۔ گناہگار جواب دیتا تھا : میں جانوں اور میرا رب ‘ تو مجھے یونہی رہنے دے۔ ایک روز عابد نے اپنے دوست کو کسی بڑے گناہ میں مبتلا پایا تو (حسب معمول) کہا : اب باز آ جا۔ اس نے جواب دیا : مجھے یونہی رہنے دے۔ کیا تجھے میرا نگران (محتسب) بنا کر بھیجا گیا ہے ؟ عابد نے کہا : خدا کی قسم ! اللہ تجھے کبھی معاف نہیں کرے گا اور نہ جنت میں کبھی تجھے داخل کرے گا۔ غرض اللہ کی طرف سے جب ملک الموت نے آکر دونوں کی روحیں قبض کرلیں اور دونوں اللہ کے پاس جمع ہوئے تو اللہ نے اس گناہگار کو حکم دیا : تو میری رحمت سے جنت میں چلا جا ‘ اور دوسرے سے فرمایا : کیا تو میرے بندوں سے میری رحمت کو روک سکتا ہے ؟ بندہ نے کہا : نہیں ‘ پروردگار ! (ایسا تو ممکن نہیں) اللہ نے فرمایا : اس کو دوزخ میں لے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! اس نے جو بات کہی تھی ‘ اسی نے دنیا و آخرت میں اس کو تباہ کیا۔ امام احمد نے بھی حضرت ابوہریرہ کی روایت سے یہ حدیث یوں ہی بیان کی ہے۔ حضرت ثوبان راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے نزدیک دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں اس آیت کے مقابلہ میں پسند نہیں (سب ہیچ ہیں) قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلآی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہ ِالخ رواہ احمد بسند حسن وابن جریر والطبرانی فی الاوسط والبیہقی فی شعب الایمان ‘ بیہقی کی روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اور جس نے شرک کیا ہو (کیا اللہ اس کو بھی معاف فرما دے گا ؟ ) حضور ﷺ نے کچھ دیر کیلئے سر جھکا لیا ‘ پھر تین بار فرمایا : مگر جس نے شرک کیا (یعنی شرک پر آخر وقت تک قائم رہا ‘ اس کی مغفرت نہ ہوگی) ۔ حضرت جندب راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا : ایک آدی نے کہا : خدا کی قسم ! اللہ فلاں شخص کی مغفرت نہیں فرمائے گا۔ اللہ نے فرمایا : یہ کون ہے جو میری قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ فلاں شخص کی میں مغفرت نہیں کروں گا ؟ میں نے اس شخص کو بخش دیا اور (اے کہنے والے ! ) تیرے اعمال کو اکارت کردیا۔ اوکما قال (علیہ السلام) رواہ مسلم ! حضرت ابن عباس نے آیت الاَّ اللّٰمَمْ کے متعلق بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ لمم (صغیرہ گناہ یا کبیرہ گناہ جن کو کرنے کے بعد ندامت ہوئی ہو) کو معاف کر دے گا ‘ سب (گناہوں) کو بخش دے گا۔ (اے اللہ ! ) تیرے کونسا بندہ ہے جس نے ارتکاب گناہ نہیں کیا ہے ؟ رواہ الترمذی ‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہا ہے۔ حضرت ابوذر کی روایت سے ایک طویل حدیث قدسی آئی ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (یعنی اللہ کا فرمان نقل کیا) میں جو چاہتا ہوں ‘ کرتا ہوں۔ میری نوازش کلام ہے اور میرا عذاب بھی کلام ہے۔ کسی چیز کے متعلق اگر میں اس (کو موجود کرنے) کا ارادہ کروں ‘ میرا امر بس یہ ہے کہ میں کُن (ہو جا) کہہ دوں ‘ فوراً وہ چیز ہوجاتی ہے ‘ رواہ احمد و ابن ماجہ والترمذی۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت کے اندر اللہ بعض نیک لوگوں کے درجات (ان کے اعمال سے زیادہ) اونچے کر دے گا۔ وہ عرض کریں گے : اے رب ! یہ درجات ہمارے لئے کہاں سے (کیسے) مل گئے ؟ اللہ فرمائے گا : تیرے لئے ‘ تیری اولاد کی دعاء مغفرت کرنے سے ‘ رواہ احمد۔ حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبر کے اندر مردہ ایسا ہوتا ہے ‘ جیسے کوئی ڈوبنے والا فریادی ہو (جو غرق ہونے سے بچنے کیلئے چلا رہا ہو) وہ انتظار کرتا ہے کہ باپ ‘ یا ماں ‘ یا بھائی ‘ یا کسی دست کی طرف سے دعاء مغفرت اس کو پہنچ جائے۔ یہ دعا اس کو دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیاری ہوتی ہے اور زمین کے رہنے ولوں کی دعا سے اہل قبور کو اللہ پہاڑوں جیسا ثواب عنایت کرتا ہے۔ زندوں کی جانب سے مردوں کو ہدیہ یہ ہے کہ ان کیلئے دعاء مغفرت کی جائے ‘ رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔ حضرت ابوذر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اپنے بندے کو ضرور بخش دے گا ‘ بشرطیکہ پردہ نہ پڑجائے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! پردہ کیا ؟ فرمایا : کسی شخص کا مشرک ہونے کی حالت پر مرجانا ‘ رواہ احمد والبیہقی فی کتاب البعث والنشور۔ یہ بھی حضرت ابوذر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ سے ایسی حالت میں ملے (یعنی ایسی حالت میں مرجائے) کہ دنیا میں کسی چیز کو اس کے برابر نہ قرار دیتا ہو تو خواہ پہاڑوں کے برابر بھی اس کے گناہ ہوں ‘ اللہ معاف فرما دے گا۔ رواہ البیہقی فی کتاب البعث والنشور۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی سو رحمتیں ہیں جن میں سے ایک رحمت اللہ نے جن و انس ‘ چوپایوں اور کیڑوں مکوڑوں کی تقسیم کی ہے ‘ اس نازل کردہ رحمت کی وجہ سے یہ آپس میں مہربانیاں اور رحم کرتے ہیں۔ وحشی جانور بھی اسی کی وجہ سے اپنے بچوں کو پیار کرتے ہیں۔ ننانوے رحمتیں اللہ نے اپنے لئے چھوڑ رکھی ہیں ‘ وہ رحمتیں قیامت کے دن اپنے بندوں پر مبذول فرمائے گا (متفق علیہ) ۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا : کچھ قیدی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کے پستان سے دودھ ٹپک رہا تھا اور وہ (ادھر ادھر) دوڑتی پھر رہی تھی۔ قیدیوں میں جو شیرخوا ربچہ اس کو ملتا ‘ وہ اس کو لے کر اپنے پیٹ سے چمٹا لیتی اور دودھ پلاتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو کبھی آگ میں پھینک سکتی ہے (جبکہ وہ دوسروں کے بچوں کو اتنا پیار کر رہی ہے) ہم نے عرض کیا : جب تک اس میں طاقت ہوگی ‘ وہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینکے گی۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : تو اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنی یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہے (متفق علیہ) ۔ حضرت ابو درداء راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر فرما رہے تھے : وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ یہ میں نے خود سنا تھا۔ میں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ ﷺ ! ) خواہ اس نے زنا کیا ہو یا چوری کی ہو ؟ حضور ﷺ نے دوبارہ یہی آیت پڑھ دی۔ میں نے دوبارہ کہا : خواہ اس نے زنا اور چوری کی ہو ؟ حضور ﷺ نے تیسری بار یہی آتی پڑھ دی۔ جب میں نے تیسری بار کہا ..... یا رسول اللہ ﷺ ! خواہ اس نے زنا اور چوری کی ہو ؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا : خواہ ابو درداء کی ناک مٹی میں رگڑ جائے (تب بھی زانی اور سارق کا داخلہ جنت میں ہوگا۔ ناک کا مٹی میں رگڑنا ایک محاورہ ہے ‘ یعنی چاہے ابو درداء کیسی ہی ناک زمین پر رگڑے اور کیسا ہی اس کی مرضی کے خلاف ہو ‘ تب بھی اللہ کا فیصلہ نہیں بدلے گا) رواہ احمد۔ حضرت عامر کا بیان ہے : ہم حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص چادر (یا کمبل) اوڑھے آیا ‘ کوئی چیز اس کے ہاتھ میں تھی جو چادر (کے کونے) میں لپٹی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا : میں درختوں کی ایک جھاڑی کی طرف سے گذرا ‘ اس کے اندر کسی پرندے کے چوزوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے ان کو پکڑ کر اپنی چادر میں رکھ لیا۔ اتنے میں ان کی ماں آگئی اور میرے سر کے آس پاس گھومنے لگی۔ میں نے چادر ہٹا کر بچوں کو اس کے سامنے کردیا تو فوراً وہ بچوں پر ٹوٹ پڑی ‘ میں نے سب کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا ‘ اب وہ سب میرے پاس موجود ہیں۔ حضور ﷺ نے حکم دیا : ان کو رکھ دو ۔ اس نے (چادر کھول کر) سب کو رکھ دیا ‘ مگر بچوں کی ماں بچوں سے چمٹی رہی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگوں کو تعجب ہو رہا ہے کہ ماں ان بچوں پر کیسی مہربان ہے (کہ بچوں کو چھوڑ کر ‘ اپنی جان بچا کر اڑ نہیں جاتی) قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جتنی ان بچوں کی ماں اپنے بچوں پر مہربان ہے ‘ اس سے زیادہ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ جا ‘ ان کو لے جا اور جہاں سے تو نے ان کو پکڑا ہے ‘ وہیں لے جا کر رکھ دے۔ حسب الحکم وہ شخص ان سب کو لے گیا ‘ رواہ ابو داؤد۔ حضرت عبد اللہ بن عمر کا بیان ہے کہ ہم کسی جہاد میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے۔ کچھ لوگوں کی طرف سے آپ کا گذر ہوا ‘ دریافت فرمایا : کون لوگ ہو ؟ انہوں نے عرض کیا : ہم مسلمان ہیں۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جو ہانڈی میں سالن پکا رہی تھی ‘ اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ جب کوئی شعلہ اٹھتا تھا تو وہ بچہ کو الگ کرلیتی تھی۔ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا : کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ کہنے لگی : آپ پر میرے ماں باپ قربان ! کیا اللہ ارحم الراحمین نہیں ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ کہنے لگی : کیا ماں جتنی اپنے بچہ پر مہربانی کرتی ہے ‘ اس سے زیادہ اللہ اپنے بندوں پر مہربان نہیں ہے ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ کہنے لگی : ماں اپنے بچہ کو آگ میں نہیں ڈالتی۔ یہ سن کر حضور اقدس ﷺ سرنگوں ہوگئے اور رونے لگے ‘ کچھ دیر کے بعد سر اٹھایا اور فرمایا : اللہ اپنے بندوں میں سے صرف اسی کو عذاب دے گا جو اس سے سرکشی اور سخت سرکشی کرنے والا ہو اور لَآ اِلٰہَ الاَّ اللہ کہنے سے انکار کر دے ‘ رواہ ابن ماجۃ۔ حضرت ابوذر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس بندہ نے لَآ اِلٰہَ الاَّ اللہ کہا (یعنی اقرار توحید کیا) پھر اسی حالت میں مرگیا ‘ وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ میں نے عرض کیا : خواہ اس نے زنا کیا ہو ‘ چوری کی ہو ؟ فرمایا : خواہ اس نے زنا کیا ہو ‘ چوری کی ہو۔ میں نے کہا : خواہ اس نے زنا کیا ہو ‘ چوری کی ہو ؟ فرمایا : خواہ اس نے زنا کیا ہو ‘ چوری کی ہو۔ میں نے پھر کہا : خواہ اس نے زنا کیا ہو ‘ چوری کی ہو ؟ فرمایا : خواہ اس نے زنا کیا ہو ‘ چوری کی ہو (وہ ضرور جنت میں جائے گا) اگرچہ ابوذر کتنی ہی ناک زمین پر رگڑے (متفق علیہ) ۔ اس موضوع کی بکثرت احادیث آئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مآل کار مؤمن جنت میں جائے گا ‘ اسلئے معتزلہ کا قول غلط ہے کہ مرتکب کبیرہ مسلمان اگر توبہ نہ کرے تو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ فرقۂ مرجۂ کا قول ہے کہ گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے ‘ اگر ایمان سالم ہے تو ان سے مؤمن کو (آخرت میں) کوئی ضرر نہیں پہنچے گا ‘ جس طرح کہ کفر کی حالت میں کوئی طاعت سود مند نہیں۔ احادیث مذکورہ سے فرقۂ مرجۂ استدلال کرتا ہے ‘ مگر ان کا یہ قول غلط ہے ‘ اس سے تو ان آیات و احادیث کا انکار لازم آتا ہے جن میں گناہوں کی ممانعت کی گئی اور چھوٹے بڑے گناہوں کو اللہ کی ناراضگی اور عذاب کا سبب بتایا گیا ہے ‘ اسلئے اہل سنت و جماعت ہی کا مسلک حق ہے کہ کفر کی موجودگی میں کوئی طاعت سود مند نہیں ‘ کیونکہ ایسی طاعت ‘ طاعت ہی نہیں ہے۔ طاعت تو وہی ہے جو خالص اللہ کیلئے ہو ‘ اگر خلوص نہیں تو طاعت ‘ معصیت ہے۔ ایمان اسی طرح طاعت کی شرط ہے جس طرح وضو نماز کیلئے ‘ البتہ معصیت کا ذاتی تقاضا عذاب ضرور ہے ‘ لیکن یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ‘ وہ چاہے تو معاصی کو معاف کر دے اور معاف کرنا نہ چاہے تو عذاب دے۔ معافی توبہ سے ہو ‘ یا رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے ‘ یا کسی ولی کی سفارش سے ‘ یا محض اللہ کی مہربانی اور رحمت سے ‘ اگر گناہگار مؤمن کو اللہ عذاب بھی دے گا تو وہ عذاب دوامی نہ ہوگا ‘ کیونکہ اللہ نے ہر نیکی کے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے : وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَاَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ ۔ اور ایمان سب سے بڑی نیکی ہے (ہر نیکی کا مدار ایمان پر ہے) اور اللہ کے وعدہ کے خلاف ہونا ناممکن ہے اور مقام ثواب صرف جنت ہے (لامحالہ ہر مؤمن جنت میں جائے گا عذاب پانے کے بعد یا بغیر عذاب کے) مؤمن اپنا ایک گناہ بھی ایسا سمجھتا ہے جیسے وہ پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور پہاڑ اوپر سے گرنے والا ہو اور کافر اپنے گناہوں کو ایسا سمجھتا ہے جیسے ناک پر مکھی بیٹھی ہو اور ہاتھ کے اشارے سے اس کو اڑا دے ‘ رواہ البخاری۔
Top