Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ
: اور اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا
: کہ نہ
تُقْسِطُوْا
: انصاف کرسکوگے
فِي
: میں
الْيَتٰمٰى
: یتیموں
فَانْكِحُوْا
: تو نکاح کرلو
مَا
: جو
طَابَ
: پسند ہو
لَكُمْ
: تمہیں
مِّنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
مَثْنٰى
: دو ، دو
وَثُلٰثَ
: اور تین تین
وَرُبٰعَ
: اور چار، چار
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تمہیں اندیشہ ہو
اَلَّا
: کہ نہ
تَعْدِلُوْا
: انصاف کرسکو گے
فَوَاحِدَةً
: تو ایک ہی
اَوْ مَا
: یا جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: لونڈی جس کے تم مالک ہو
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَلَّا
: کہ نہ
تَعُوْلُوْا
: جھک پڑو
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے
و ان خفتم الا تقسطوا فی الیتمیٰ خطاب سر پرستوں کو ہے اقساط (باب افتعال) عدل کرنا ظلم نہ کرنا۔ کیونکہ قسط (ثلاثی مجرد) کا معنی ہے ظلم کرنا اور باب افعال کا ہمزہ سلب مآخذ (مادہ) کے لیے ہے اس لیے اقساط کا معنی ہوگیا ظلم نہ کرنا یعنی اے یتیموں کے سر پرستو ! اگر تم کو اندیشہ ہو کہ جو یتیم لڑکیاں تمہاری زیر سرپرستی ہیں ان سے نکاح کرنے میں تم عدل نہ کرسکو گے اور حق تلفی کرو گے۔ فانکحوا ما طاب لکم من النسا تو پھر یتیم لڑکیوں کے علاوہ دوسری عورتوں میں سے جو تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو۔ یتامیٰ کا اطلاق مرد و عورت دونوں پر آتا ہے۔ بخاری نے صحیح میں زہری کی روایت سے لکھا ہے کہ عروہ بن زبیر بیان کرتے تھے کہ میں نے حضرت عائشہ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا فرمایا : اس سے مراد وہ یتیمیہ ہے جو اپنے ولی کی سر پرستی میں ہوتی تھی اور ولی اس کا محرم نہ ہوتا تھا۔ جیسے چچا کا بیٹا۔ ولی یتیمہ کے حسن و مال کو دیکھ کر ریجھ جاتا تھا اور اس سے نکاح کرلینا چاہتا تھا مگر مہر مثل سے کم دینے کا ارادہ کرتا تھا آیت میں ایسے سر پرستوں کو اپنی زیر پرورش یتیم لڑکیوں سے بغیر تکمیل مہر کے نکاح کرنے کی ممانعت کردی گئی باقی دوسری عورتوں سے (ہر طور سے) نکاح کی اجازت دیدی گئی۔ حضرت عائشہ نے فرمایا : پھر لوگوں نے یتامیٰ سے نکاح کا مسئلہ پوچھا تو آیت : یستفتونک فی النساء سے ان تنکحوھن تک نازل ہوئی اس میں اللہ نے کھول کر بیان کردیا کہ اگر یتیمیہ حسین اور مالدار ہوتی ہے تو لوگ اس کی طرف راغب ہوتے ہیں مگر اس کے درجہ کے موافق اس کو مہر نہیں دینا چاہتے اور جب مال و جمال کے لحاظ سے وہ گری ہوئی ہوتی ہے تو اس سے منہ موڑ لیتے ہیں اور دوسری عورتوں سے نکاح کے طلب گار ہوتے ہیں۔ پس جس طرح مال و حسن کی کمی کے وقت لوگ یتیمیہ سے نکاح کرنے کے خواہش مند نہیں ہوتے اسی طرح مال و جمال کی زیادتی کے وقت بھی ان کو نکاح کا طلب گار نہ ہونا چاہئے ہاں اگر یتیمہ کا پورا پورا حق اور کامل ترین مہر (مثل) ادا کردیں تو نکاح کرسکتے ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حسن (بصری) نے فرمایا : مدینہ میں کچھ لوگوں کے پاس یتیم لڑکیاں رہتی تھیں جن میں بعض ایسی بھی ہوتی تھیں جن سے اس سرپرست کا نکاح ہوسکتا تھا ( اور وہ مالدار بھی ہوتی تھیں) یہ شخص مال کے لالچ میں اس یتیمہ سے نکاح کرلیتا تھا اور یہ امر اس کو گوارا نہ تھا کہ کوئی دوسرا اجنبی آجائے۔ (اور مال میں شریک ہوجائے) ۔ اس آیت کی تفسیر میں عکرمہ نے کہا اور حضرت ابن عباس کا بھی عطا کی روایت میں یہ قول آیا ہے کہ بعض قریشی دس دس بلکہ دس سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرلیتے تھے اور جب بیویوں کے مصارف کی وجہ سے نادار ہوجاتے تو زیر پرورش یتیم کے مال کی طرف جھکتے اور اس کو خرچ کرتے اسی بناء پر ان کو حکم دیا گیا کہ چار سے زائد سے نکاح نہ کرو کہ یتیموں کا مال لینے کی ضرورت پڑے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب یتیموں کا مال کھانے کے سلسلہ میں وعید نازل ہوئی تو اموال یتامیٰ کو صرف کرنے میں بڑی دشواری محسوس ہونے لگی تو (اس کا حل لوگوں نے یہ نکالا کہ) یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے لگے اور جس سے چاہتے نکاح کرلیتے مگر اکثر عورتوں میں برابر کا سلوک نہ کرتے اس پر حکم نازل ہوا کہ حقوق یتامیٰ میں عدل نہ کرنے کا جب تم کو خوفف ہے تو عورتوں میں برابر کا سلوک نہ کرنے سے بھی ڈرو اس لیے اتنی ہی عورتوں سے نکاح کرو جن کے حقوق تم ادا کرسکتے ہو۔ (اخرجہ ابن جریر) سعید بن جبیر، ضحاک اور سدی کا بھی یہی قول منقول ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ لوگ یتیموں کی سر پرستی میں تو دقت محسوس کرتے تھے مگر زناء میں انکے لیے کچھ دشواری نہ تھی اس پر حکم دیا گیا کہ جب یتیموں کے معاملہ میں عدل نہ کرنے سے تم ڈرتے ہو تو زنا سے بھی ڈرو اور حسب پسند نکاح کرلو یہ مجاہد کا قول ہے۔ مَا طَابَ لَکُمْ میں بجائے مَنْ کے مَا ذکر کیا گیا کیونکہ ما کا استعمال ذی عقل کے اوصاف کے لیے ہوتا ہے اور من کا استعمال ذی عقل کی ذات کے لیے) اور یہاں صفت ہی کا بیان مقصود ہے گویا یوں کہا گیا کہ جن پسندیدہ اوصاف کی عورتوں سے چاہو نکاح کرلو۔ یا یوں کہا جائے کہ عورتیں چونکہ کم عقل ہوتی ہیں اس لیے ان کو بےعقل قرار دیتے ہوئے ایسا لفظ استعمال کیا جو بےعقل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جیسے : مَا مَلَکَتْ اَیْمََانُکُمْ میں۔ بعض علماء نیما طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآء کا مطلب بیان کیا ہے کہ جو یتیم عورتیں بلوغ کو پہنچ جائیں ان سے نکاح کرسکتے ہو محاورہ میں طابَتِ التمرۃ کا معنی ہوتا ہے خرما توڑنے کے قابل ہوگیا۔ یہ مطلب اس تفسیر کے مناسب ہے جو بخاری نے حضرت عائشہ کی روایت سے نقل کی ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح نہ کرو اور بالغ عورتوں سے نکاح کرو مگر اس تفسیر پر لکم کا لفظ نا مناسب ہوگا۔ فانکحوا ما طاب من النساء کہنا ہی مناسب ہے (یعنی جو عورتیں بالغ ہوجائیں ان سے نکاح کرسکتے ہو جب یہ مطلب ہے تو پھر لکم کا اضافہ کیوں کیا گیا ورنہ یوں مطلب ہوجائے گا کہ جو عورتیں تمہارے لیے بالغ ہوجائیں ان سے نکاح کرو۔ اور یہ مطلب بظاہر غلط ہے) ۔ بعض علماء نے طاب کا ترجمہ حَلَّ کیا ہے یعنی جو عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں ان سے نکاح کرو کیونکہ بعض عورتوں سے نکاح حرام بھی ہے جن کی تفصیل آیت تحریم میں آگئی ہے ان سے نکاح کی اجازت نہیں۔ یہ مطلب مجاہد کی تفسیر کے مناسب ہے کہ زنا سے ڈرو اور جو عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں ان سے نکاح کرلو۔ لیکن اس تفسیر پر آیت کا مجمل ہونا لازم آئے گا اور اجمال حکم خلاف اصل ہے۔ لہٰذا سب سے بہتر یہ ہے کہ وہی ترجمہ کیا جائے جو ہم نے لکھ دیا ہے کہ جو عورتیں تمہارے دل کو پسند ہوں اور تمہاری طبیعت جن کی طرف مائل ہو ان سے نکاح کرلو یہ مطلب تمام تفسیری اقوال کے مناسب ہے۔ حضرت عائشہ کے قول کے موافق اس آیت کی تشریح یہ ہوگی کہ چونکہ یتیم لڑکیاں بےبس ہوتی ہیں ان کا کوئی حمایتی نہیں ہوتا پس اگر تم کو ان کی حق تلفی کا اندیشہ ہو اور عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو جو پسند خاطرہو اس سے نکاح کرلو خواہ وہ یتیمہ نا بالغہ ہو یا بالغہ کیونکہ تمہارا طبعی میلان ان کے حقوق کا محافظ ہوجائے گا اور منکوحہ کی طرف میلان ارتکاب زناء سے بھی روک دے گا چونکہ مرغوبات کا وجود زیادہ نہیں ہوتا اس لیے یہ کہنا بھی مناسب ہے کہ چار سے زیادہ کے ساتھ نکاح نہ کرو (ورنہ محبوبات بھی مرغوبات نہیں رہیں گے اور رغبت طبیعت بھی اعراض سے بدل جائے گی) واللہ اعلم۔ مسئلہ اسی لیے پیام نکاح بھیجنے والے کے لیے نکاح سے پہلے مخطوبہ کے چہرے اور دونوں کف کو دیکھ لینا بالاجماع مسنون ہے۔ داؤد ظاہری نے تو مخطوبہ کے تمام بدن کو سوائے عورت غلیظہ کے نکاح سے پہلے دیکھنے کو جائز کہا ہے۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد اگر تم میں سے کوئی عورت کو نکاح کا پیام بھجوائے تو اگر ایسی چیزوں کو دیکھ لیناممکن ہو جو نکاح کی رغبت دلا رہی ہوں تو ایسا کرے (یعنی دیکھ لے) (رواہ ابو داؤد) حضرت مغیرہ بن شعبہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیام بھجوایا حضور ﷺ نے فرمایا : کیا تو نے اس کو دیکھ لیا ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا : اس کو دیکھ لے یہ دیکھ لینا تم دونوں کے درمیان اتفاق پیدا کرنے کے لیے بہت مناسب ہے۔ (رواہ احمد والترمذی والنسائی وابن ماجہ والدارمی) مثنی وثُلٰث و ربع دو دو اور تین تین اور چار چار 1 یہ تینوں الفاظ اعداد مکررہ سے بنائے گئے۔ مثنیٰ ثِنْتَیْن ثِنْتَیْنِ.(دو ، دو ) اور ثلاث ثلاث ثلاث (تین، تین) اور رباع اَرْبَعٌ اَرْبَعٌ .(چار، چار) سے معدول ہے۔ یہ تینوں لفظ نحوی اعتبار سے غیر منصرف ہیں کیونکہ یہ معدول بھی ہیں اور ان کے مفہوم میں معنی وصفی بھی ہے۔ ان الفاظ کی بناء ہی وصفی معنی پر ہے ہاں ان کے (اصول) یعنی ثنتین اور ثلاث اور اربع کی بنا وصفیت پر نہیں ہے 2 بعض لوگوں نے ان الفاظ کے غیر منصرف ہونے کی علت تکرار عدل کو قرار دیا ہے کیونکہ یہ الفاظ باعتبار لفظ بھی معدول ہیں اور با عتبار معنی بھی لفظ مثنی لفظ ثنتین سے معدول ہے اور مثنی کا معنی ثنتین کے معنی سے۔ ان الفاظ کا نصب حال ہونے کی بنا پر ہے اور ادباء بصرہ کے نزدیک تینوں نکرہ ہیں لیکن علماء کوفہ ان کو معرفہ قرار دیتے ہیں کیونکہ حرف تعریف ان پر داخل ہیں ہوتا اس صورت میں ان کا نصب بدل ہونے کی بنا پر ہوگا۔ مسئلہ روافض نے نو عورتوں سے (ایک وقت میں) نکاح کو جائز قرار دیا ہے اور استدلال اسی آیت سے کیا ہے۔ نخعی اور ابن ابی لیلیٰ کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے دلیل یہ ہے کہ واؤ مطلق جمعیت کے معنی کو بتاتا ہے پس آیت کا معنی یہ ہوا کہ نکاح کرو دو عورتوں سے اور تین سے اور چار سے اس کا مجموعہ نوہو گیا۔ خارجی اٹھارہ عورتوں سے (بیک وقت) نکاح کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ لفط اگرچہ مفرد ہے لیکن معنی میں تکرار ہے اس لیے نو کا دو گنا اٹھارہ ہوگیا۔ یہ دونوں قول غلط ہیں۔ خوارج کا قول اس لیے غلط ہے کہ یہ الفاظ اعداد مکررہ سے معدول ہیں مگر تکرار عدد کی کوئی خاص حد نہیں تکرار کا معنی صرف دو بار یا دو عدد ہی نہیں بلکہ دو دو، دو دو، دو دو، غرض لا محدود دو کو لفظ تکرار شامل ہے۔ پس جو شخص کسی جمعیت سے کہے ان دراہم میں سے دو دو لے لو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص دو درہم لے لے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ تم سب چار درہم لے لو۔ آیت میں اگر یہ معنی مراد ہوگا تو آیت کا مطلب ہی درست نہ ہوگا کیونکہ سب لوگوں کا دو یا تین یا چار یا نو یا اٹھارہ عورتوں سے نکاح ممکن ہی نہیں۔ اسی لیے صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ اگر ان الفاظ کو مفرد ذکر کیا جائے (یعنی معدول نہ کہا جائے اور معنوی تکرار کا مفہوم نہ پیدا ہو) تو کوئی معنی ہی نہ ہوگا یعنی اگر فانکحوا اثنتین و ثلاثا و اربعا کہا جائے تو معنی صحیح نہ ہوگا۔ روافض کا قول اس لیے غلط ہے کہ اہل بلاغت نو عدد کو بیان کرنے کے لیے۔ دو اور تین اور چار نہیں بولتے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کیلئے دو سے بھی نکاح جائز ہے اور ہر ایک کے لیے تین سے بھی نکاح جائز ہے اور ہر کے لیے چار سے بھی نکاح جائز ہے۔ بیضاوی نے بجائے اَو کے واؤ عاطفہ لانے کا یہ فائدہ بتایا ہے کہ اگر او لایا جاتا تو جواز اختلاف عدد ختم ہوجاتا لیکن اس پر یہ شبہ کیا جاسکتا ہے کہ واؤ کی وجہ سے جو از اتفاق عدد جاتارہاحق بات یہ ہے کہ واؤ ہو یا اَو اس جگہ فہم مقصود دونوں سے برابر ہو رہا ہے۔ یہاں نہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ تمام امت کا ان تینوں اقسام میں سے کسی ایک قسم پر اجتماع ضروری ہے نہ اس طرف ذہنی التفات ہوتا ہے کہ مختلف اقسام پر ہونا لازم ہے واؤ لانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ جب مجموعہ کا مجموعہ سے تقابل ہوتا ہے تو واؤ کی وجہ سے افراد کی تقسیم افراد پر زیادہ قابل فہم ہوجاتی ہے (پس جب مجموعہ امت کو اس مجموعہ کا حکم دیا گیا تو آسانی سے معلوم ہوگیا کہ کوئی شخص دو نکاح کرلے کوئی تین کوئی چار) ۔ مسئلہ ائمہ اربعہ اور جمہور اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ چار عورتوں سے زیادہ نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حلت نکاح کی کوئی تعداد مقرر نہیں جتنی عورتوں کو چاہے نکاح میں رکھ سکتا ہے کیونکہ آیت : فانکحوا ما طاب لکم مفید عموم ہے مثنی و ثلاث و رباع قید نہیں بلکہ عرفی تعداد کا اظہار ہے جیسے کہتے ہیں اس دریا میں سے جتنا پانی چاہو لے لو ایک مشک اور دو مشک اور تین مشک اگر اس تعداد کو قید مان بھی لیا جائے تب بھی چار کا جواز ثابت ہوتا ہے اور چار سے زیادہ کے عدم جواز پر کوئی لفط دلالت نہیں کرتا ہاں ذکر عدد سے یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اس عدد سے زائد جائز نہیں مگر مفہوم کا اعتبار نہیں دیکھو آیت : جَاعِلِ الْمَلَاءِکَۃِ رُسُلًا اُوْلِیٓ اَجْنِحَۃٍ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَرُبَاع میں اربعہ تک تعداد کو ذکر کرنے سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ چار سے زائد مرسل ملائکہ کے بازو نہیں پیدا کئے گئے بلکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) کے چھو سو بازو دیکھے۔ پھر نکاح میں اصل عمومی حلت ہے (یعنی اگر خصوصی ممانعت نہ ہو تو اصل یہ ہے کہ نکاح میں کسی محدود تعداد کی قید نہ لگائی جائے) دیکھو اللہ نے فرمایا ہے : وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ زٰلکم دوسری آیت ہے : وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُوْمِنَاتِ وَالْمُحْصنَات مِن الذین اوتوا الکتاب یہ بھی صحیح روایت سے ثابت ہے کہ رسول اللہ کے نکاح میں نو عورتیں تھیں اس میں رسول اللہ کی خصوصیت کی کوئی دلیل ہونی چاہئے ورنہ عدم خصوصیت اصل ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آیت کا نزول قیس بن حارث کے متعلق ہوا بغوی نے لکھا ہے کہ قیس بن حارث کی آٹھ بیویاں تھیں اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ نے ان سے فرمایا : چار کو طلاق دیدو اور چار کو رکھ لو۔ قیس کا بیان ہے کہ میں نے ان بیویوں سے جن کے اولاد نہیں ہوتی تھی کہہ دیا تم جاؤ اور جن بیویوں کے اولاد ہوئی تھی ان سے کہہ دیا تم آؤ پس رسول اللہ کا فرمان آیت کا بیان ہوگیا۔ آپ ہی اللہ کی مراد کو خوب سمجھتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ نکاح میں اصل حلت نہیں بلکہ حرمت اور حکم کی تنگی اصل ہے جیسے سورة بقرہ کی آیت : فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَاتُوھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللہ کی تفسیر میں ہم بیان کرچکے ہیں۔ نکاح میں اصل حلت کو قرار دینا ناقابل تسلیم ہے۔ رہی آیت : وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَاءَ ذٰلِکُمْ تو اس سے مراد یہ ہے کہ محرمات مذکورہ کے علاوہ اور عورتیں تمہارے لیے حلال کردی گئیں لیکن ان کی کوئی خاص تعداد ہے یا ہر عورت حلال ہے اس پر کوئی دلالت نہیں (نہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ محرمات کے علاوہ لا تعداد عورتوں سے نکاح حلال ہے نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف چار سے حلال ہے) باقی دوسری آیت والمحصنات من المو ﷺ منات۔۔ میں جمع کا مقابلہ جمع سے ہے جس کا تقاضا ہے کہ اکائیوں کی تقسیم اکائیوں پر ہو۔ نتیجہ کلام یہ ہے کہ آیت زیر بحث فقط حلت نکاح کے لیے نہیں اتاری گئی بلکہ حلال تعداد کی تعیین کیلئے اتاری گئی نفس نکاح کی حلت تو اس سے پہلے دوسری آیات و احادیث سے معلوم ہی ہوگئی تھی۔ اس آیت میں حلت کی تعداد کے ساتھ مقید کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ صرف حد تعداد کا بیان مقصود ہے یا یوں کہو کہ آیت میں حلت نکاح کا بیان ہی مقصود ہے مگر مطلق حلت کا نہیں بلکہ حلت مقید بالعد دکا۔ چار سے زیادہ عورتوں سے (ایک زمانہ میں) نکاح جائز نہ ہونا حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کردہ حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کی غیلان بن سلمہ ثقفی مسلمان ہوئے تو ان کے ساتھ ان کی وہ دس بیویاں بھی مسلمان ہوگئیں جو زمانہ جاہلیت میں ان کے نکاح میں تھیں حضور ﷺ نے فرمایا : چار کو رہنے دو باقی کو چھوڑ دو ۔ (رواہ الشافعی و احمد والترمذی وابن ماجہ) حضرت نوفل بن معاویہ کا بیان ہے کہ میں جب مسلمان ہوا تو اس وقت میرے پاس پانچ بیویاں تھیں میں نے حضور ﷺ سے حکم دریافت کیا فرمایا : ایک کو چھوڑ دو ۔ چار کو روک لو میں نے اس عورت کو چھوڑ دیا جو سب سے پرانی ساٹھ برس سے میری رفیق تھی مگر بانجھ تھی۔ (رواہ الشافعی والبغوی فی شرح السنہ) صرف چار عورتوں کو نکاح میں رکھنے پر اجماع ہوچکا ہے اجماع کے مقابلہ میں بعض لوگوں کا قول باطل ہے غیر محدود تعداد سے نکاح کے جواز کا تو کوئی بدعتی بھی قائل نہیں۔ خارجیوں اور رافضیوں کے نزدیک بھی تعداد معین ہے۔ 18 اور نو۔ مسئلہ اگر کوئی شخص اسلام لایا اور اس کے نکاح میں چار سے زیادہ عورتیں تھیں یاد و بہنیں تھیں یا ماں اور اس کی بیٹی دونوں نکاح میں تھی اور یہ عورتیں بھی مسلمان ہوگئیں یا کتابی تھیں۔ تو امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام محمد کا فیصلہ ہے کہ وہ جونسی چار چاہے رکھ لے زیادہ کو چھوڑ دے اور دو بہنوں میں سے جس ایک کو چاہے رکھ لے اور ماں بیٹی میں سے جس کو چاہے رکھ لے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : اگر ایک ہی عقد میں سب سے نکاح کیا ہے تو (چونکہ کسی کو کسی پر ترجیح نہیں ہے اس لیے) سب کو چھوڑ دینا پڑے گا اور اگر ایک کے بعد دوسری سے نکاح کیا ہے تو جس عورت کی نکاح میں تقدیم ہو اس کا نکاح قائم رہے گا اور جس کی وجہ سے چار کی تعداد سے بیشی یا (دوسری بہن کے ساتھ نکاح میں) پہلی بہن کا اجتماع ہو رہا ہے اس کا نکاح ختم ہوجائے گا ہاں ماں اور بیٹی اگر کسی کے نکاح میں جمع ہوں تو اسلام کے بعددونوں کا نکاح جاتا رہے گا بشرطیکہ دونوں سے قربت صنفی کرلی ہو کیونکہ اس وقت دونوں میں سے کسی ایک سے بھی نکاح درست نہیں۔ احادیث مذکورہ (جن میں رسول اللہ نے زیادہ بیویاں رکھنے والے یا دو بہنوں کو ایک وقت میں نکاح میں جمع رکھنے والے شوہروں کو انتخاب کا اختیار دیا تھا) اور مندرجہ ذیل حدیث امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کے خلاف ثبوت بہم پہنچا رہی ہیں۔ ضحاک بن فیروز دیلمی کی روایت اپنے باپ کے حوالہ سے ضحاک کے والد نے کہا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں فرمایا : دونوں میں سے جو نسی کو چاہے اختیار کرلے۔ مسئلہ تین اماموں کے نزدیک غلام کو صرف دو عورتوں کو نکاح میں رکھنا جائز ہے۔ امام مالک (رح) کے نزدیک غلام کے لیے چار کو نکاح میں رکھنا جائز ہے کیونکہ آیت مذکورہ عام ہے آزاد اور غلام سب اس کے حکم میں داخل ہیں داؤد ظاہری اور ربیعہ کا بھی یہی قول ہے۔ ہم کہتے ہیں آیت مذکورہ میں روئے خطاب صرف احرار کی طرف ہے، غلام مخاطب ہی نہیں ہیں کیونکہ آیت کے آخر میں ہے : فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اگر تم کو عدل نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو (ا اللہ نے تمہارے لیے صرف ایک حلال کی ہے یا) ایک سے نکاح کرو یا ان باندیوں کو اپنے پاس رکھو جن کے تم مالک ہو، باندیوں کی ملکیت غلاموں کو تو حاصل ہو نہیں سکتی۔ معلوم ہوا کہ آیت میں غلام مخاطب نہیں ہیں۔ ابن جوزی نے التحقیق میں لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : غلام دو عورتوں کو نکاح میں رکھ سکتا ہے اور (صرف) دو طلاقیں دے سکتا ہے اور باندی کی عدت دو حیض ہیں۔ بغوی نے معالم میں بھی یہ روایت لکھی ہے بلکہ روایت کے آخر میں اتنا زائد ہے کہ اگر اس کو حیض نہ آتا ہو تودو ماہ یا ڈیڑھ ماہ عدت کرے۔ ابن جوزی نے حاکم کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ کے صحابہ کا اجماع ہے کہ غلام دو عورتوں سے زائد نکاح میں نہ رکھے۔ (رواہ ابن ابی شیبہ والبیہقی) فان خفتم الا تعدلوا پس اے نکاح کا ارادہ کرنے والو اگر تم کو عورتوں کے درمیان عدل نہ رکھ سکنے کا اندیشہ ہو۔ فواحدۃ پس ایک سے نکاح کرو (یا نکاح رکھو) اور (دو یا دو سے زائد کو نکاح میں) جمع کرنا چھوڑ دو ۔ او ما ملکت ایمانکم یا باندیاں ہوں۔ مساوات حقوق جو منکوحہ (آزاد) عورتوں کے لیے لازم ہے وہ باندیوں کے لیے لازم نہیں نہ ان کی تعداد کی کوئی خاص حد مقرر ہے۔ مسئلہ حق تلفی کے ڈر سے صرف ایک بیوی یا باندیوں پر اکتفاء کرنے کی ہدایت بتارہی ہے کہ اگر بیویوں کے حقوق ادا کرنے کی طاقت ہو اور ان میں عدل کرسکتا ہو تو تعدد نکاح افضل ہے اور مغلوب الشہوت پر تو بالاجماع نکاح فرض ہے بشرطیکہ بیوی کا خرچ ادا کرنے کی طاقت ہو اور مغلوب الشہوت نہ ہونے کی صورت میں نکاح مسنون ہے بشرطیکہ ادائے حقوق میں کوتاہی کا اندیشہ نہ ہو۔ حضرت ابن مسعود راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : اے گروہ جواناں تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے اور استطاعت نہ ہو تو روزہ کا التزام کرے۔ روزہ اس کے لیے خصی ہونا ہے (یعنی مغلوب الشہوت غیر مستطیع کے لیے خصی ہونا تو جائز ہی نہیں ہے اگر شہوت کا زور توڑنا اور فتنہ میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہنا مقصود ہو تو روزے رکھنا چاہئے۔ روزہ شہوت کے زور کو توڑ دے گا) (متفق علیہ) صحیحین میں حضرت انس کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : مگر میں روزہ رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں جو شخص میرے طریقہ سے اغراض کرے گا وہ مجھ سے متعلق نہیں۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ رسول اللہ نکاح کرنے کا حکم دیتے تھے اور ترک نکاح کی سخت ممانعت کرتے تھے اور فرماتے تھے شوہر سے زیادہ محبت کرنے والی، زیادہ بچے پیدا کرنے والی سے نکاح کرو، میں قیامت کے دن تمہاری کثرت کا (دوسرے) انبیاء (کی امتوں) سے مقابلہ کروں گا (رواہ احمد) حضرت ابوذر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے عکاف بن خالد ؓ سے فرمایا : کیا تمہاری بی بی ہے ؟ عکاف نے عرض کیا نہیں فرمایا اور نہ باندی ہے عکاف نے کہا نہیں فرمایا : اور تم خیر سے مالدا ربھی ہو۔ عکاف نے کہا۔ میں مالدار بھی ہوں فرمایا : تو تم برادران شیاطین میں سے ہو ہمارا طریقہ نکاح ہے تم میں رنڈوے رہنے والے بہت برے ہیں اور کمینے ہیں تم میں رنڈوے رہنے والے مردے ہیں شیطانوں کے باپ۔ داؤد ظاہری اسی آیت : فانکحوا ما طاب لکم سے استدلال کرتے ہوئے نکاح کو فرض عین کہتے ہیں بشرطیکہ جماع اور بیوی کے مصارف کی طاقت ہو۔ اللہ اعلم ذالک ادنیٰ الا تعولوا یہ فعل یعنی صرف ایک عورت سے نکاح اور باندیوں پر قناعت ایک طرف مڑ نہ جانے کے قریب تر ہے ابن ابی حاتم اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت عائشہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ (اَلَّا تعدلوا کی تشریح) میں رسول اللہ نے فرمایا : یعنی حق تلفی نہ کرنے کے قریب تر ہے۔ لا تعولوا سے مراد ہے ایک کی طرف بہہ نہ جاؤ مڑ نہ جاؤ عال المیزاب : پر نالہ بہہ گیا، مڑ گیا۔ عال الحاکم : حاکم عدل سے پھر گیا۔ عول الفریضۃ مقرر کردہ میراثی سہام کی حد سے مڑ جانا۔ مجاہد نے اس کا ترجمہ کیا ہے گمراہ نہ ہوجاؤ۔ فراء نے کہا : اللہ کے فرض کی حد سے تجاوز نہ کر جاؤ۔ عول کا لغوی ترجمہ ہے تجاوز کرنا۔ عول الفرائض (علم الفرائض میں مخرج تقسیم کو وسیع کرنا) اسی سے بنا ہے۔ امام شافعی نے ترجمہ کیا کہ تمہارے بچے زیادہ نہ ہوجائیں ؟ بغوی نے کہا : لا تعولوا کا یہ معنی کسی نے نہیں کہا۔ عیال کی کثرت ہو تو (باب افعال سے) عَالَ (ماضی) یُعِیْلُ (مضارع) اعالۃً (مصدر) آتا ہے اور ابو حاتم نے کہا شافعی ہم سے زیادہ عربی زبان سے واقف تھے ممکن ہے یہ بھی لغت ہو۔ بعض علماء نے کہا یہ قبائل خمیر (یعنی اہل یمن) کی لغت ہے۔ بیضاوی نے کہا : عال الرجل عیالہ اس شخص نے بیوی بچوں کا بار اٹھایا (یعنی اس کے بیوی، بچے بہت ہیں) کثرت عیال کی در پردہ تعبیر کثرت مصارف سے کی (گویا بطور کنایہ کثرت عیال مراد پس شافعی کا ترجمہ صحیح ہوگیا) عیال سے مراد ہیں بیویاں اور اگر بچے مراد ہوں تب بھی درست ہے کیونکہ منکوحہ عورتوں کے مقابلہ میں باندیوں سے بچے ہونے کا احتمال کم ہے باندی سے عزل بھی جائز ہے۔ جیسے ایک بیوی سے چار بیویوں کے مقابلہ میں کثرت اولاد کا احتمال کم ہے۔
Top