Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 4
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً١ؕ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا
وَاٰتُوا : اور دے دو النِّسَآءَ : عورتیں صَدُقٰتِهِنَّ : ان کے مہر نِحْلَةٍ : خوشی سے فَاِنْ : پھر اگر طِبْنَ : خوشی سے چھوڑ دیں لَكُمْ : تم کو عَنْ شَيْءٍ : کچھ مِّنْهُ : اس سے نَفْسًا : دل سے فَكُلُوْهُ : تو اسے کھاؤ هَنِيْٓئًا مَّرِيْئً : مزیدار، خوشگوار
اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔ ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے ذوق شوق سے کھالو
و اتو النساء صدقاتھن اور عورتوں کو ان کے مہر دو ۔ صداق اور صَدْقَۃٌ مہر کو کہتے ہیں۔ کلبی اور علماء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ اس آیت میں خطاب عورت کے سر پرستوں کو ہے ابن ابی حاتم نے ابو صالح کا قول نقل کیا ہے کہ بعض لوگ اپنی لڑکی کا نکاح کرانے کے بعد مہر خود لے لیتے تھے لڑکی کو نہیں دیتے تھے۔ اللہ نے اس کی ممانعت میں یہ آیت نازل فرما دی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ عورت کا ولی جب اس کا نکاح کرا دیتا اور نکاح کے بعد عورت خاندان میں ہی رہتی تو ولی مہر خود لے لیتا تھا اس کو کچھ بھی نہیں دیتا تھا اور اگر کوئی اجنبی آدمی عورت سے نکاح کرکے خاندان سے باہر لے جاتا تو ولی مہر پر خود قبضہ کرنے کے بعد عورت کو ایک اونٹ پر سوار کرا کے روانہ کردیتا بس یہ اونٹ اس کو مہر میں ملتا اور کچھ نہ ملتا۔ حضرمی نے بیان کیا کہ لوگ نکاح شغار (تور کا نکاح) کرتے تھے جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ کسی عورت کا ولی اس عورت کا نکاح کسی شخص سے کردیتا اور وہ شخص اپنی بہن بیٹی کا نکاح تبادلہ میں اوّل شخص سے کردیتا اور اس طرح عورتوں کا تبادلہ ہوجاتا، مہر کسی کا کچھ نہ ہوتا اس کی ممانعت کردی گئی اور مہر مقرر کرنے کا حکم دیدیا گیا۔ مسئلہ امام مالک اور امام احمد کے نزدیک نکاح شغار باطل ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر نفس عقد میں یہ الفاظ کہے کہ ہر ایک کا بضع گوشت کا ٹکڑا مراد فرج) دوسری کا مہر ہے تو ہر ایک کا نکاح باطل ہے اور اگر یہ الفاظ نہ کہے بلکہ اس طرح کہا کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تجھ سے اس شرط پر کیا کہ تو اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے بغیر مہر کے کردے اور دوسرے شخص نے جواب میں کہا میں نے (اپنی لڑکی کا نکاح) تجھ سے کردیا تو دونوں نکاح صحیح ہوگئے اور دونوں میں مہر مثل لازم ہوگا۔ امام مالک و امام احمد کے نزدیک اس صورت میں بھی نکاح باطل ہوگا۔ حقیقت میں یہ اختلاف شغار کی تعریف میں ہے امام مالک و احمد کے نزدیک مؤخر الذکر صورت بھی شعار کی ہے اور امام شافعی اس کو شغار نہیں کہتے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : دونوں صورتوں میں نکاح صحیح ہوگا اور مہر مثل لازم ہوگا۔ اگر ایک شخص نے کہا میں نے اپنی بیٹی کا نکاح تجھ سے اس شرط پر کیا کہ تو اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردے اور مہر کا ذکر نہیں کیا نہ بغیر مہر کے لفظ کہا۔ تو بعض روایات میں آیا ہے کہ باتفاق ائمہ اربعہ نکاح صحیح ہوگا یہ شغار ہی نہ ہوگا اور اگر یوں کہا کہ میری بیٹی کا بضع تیری بیٹی کا مہر ہوگا اور دوسرے نے (زبان سے) قبول نہیں کیا بلکہ اپنی لڑکی کا نکاح کرادیا اور اس کا مہر کچھ مقرر نہیں کیا تو دوسرا نکاح باتفاق ائمہ صحیح ہوگا (اور مہر مثل لازم ہوگا) لیکن امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک پہلا نکاح بھی صحیح ہوگا (اور اس میں بھی مہر مثل لازم ہوگا) نکاح شغار کے باطل ہونے پر حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث دلالت کر رہی ہے کہ رسول اللہ نے نکاح شغار کی ممانعت فرمائی ہے اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی (یا بہن) کا نکاح کسی شخص سے کردے کہ وہ شخص اپنی بیٹی (یا بہن) کا نکاح اس سے کردے اور کسی کا مہر نہ ہو۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے اور اصحاب السنن نے بھی اس کو ذکر کیا ہے مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے اسلام میں شغار 1 ؂ نہیں۔ یہ حدیث شغار کے شرعی وجود کی نفی کر رہی ہے اور اوّل الذکر حدیث میں شغار کی ممانعت مذکور ہے اور ممانعت کا تقاضا ہے کہ شیء ممنوع (کا اگر ارتکاب کیا جائے تو) صحیح نہ ہو اور غیر صحیح نکاح مفید ملک بالاتفاق نہیں ہوتا 2 ؂۔ شغار کے باطل ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے کہ شغار میں ہر بضع بجائے خود منکوح بھی ہوتا ہے اور دوسرے بضع کا مہر بھی پس منکوح ہونے کے اعتبار سے مستحق مہر ہوگا اور مہر ہونے کے اعتبار سے دوسرے کے نکاح کا بدل گویا اس کی حیثیت مشترک ہوگی اور یہ باطل ہے۔ احناف نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ احادیث مذکورہ میں نہی یا نفی کا تعلق شغار کے مفہوم سے ہے یعنی جس کو شغار کہا جاتا ہے وہ ممنوع اور منفی ہے شعار کے مفہوم کے دو جزء ہیں : (1) مہر سے خالی ہونا۔ (2) بضعکو مہر قرار دینا۔ گر اس مفہوم کا شغار ہو تو ہم بھی کہتے ہیں کہ بضع کو مہر قرار دینا باطل ہے حقیقت شغار شرعاً منفی اور ممنوع ہے لیکن ماہیت شغار کی نفی سے نکاح کا نہ ہونا لازم نہیں بلکہ نکاح ہوجائے گا اور (بطور شغار جس چیز کو مہر قرار دیا ہے وہ مہر نہ ہوگا بلکہ) مہر مثل لازم ہوگا۔ جیسے وہ نکاح جس میں شراب یا خنزیر کو مہر قراردیا گیا ہو باطل نہیں ہے بلکہ مہر مثل کا موجب ہے اور جس (مہر شغاری یعنی، بضع) سے شرعی نہی کا تعلق ہے اس کو ہم ثابت نہیں کرتے اور جس (مہر مثل) کو ہم ثابت کرتے ہیں اس سے نہی غیر متعلق ہے بلکہ شرع کی عمومی عبارتیں تو اس کے صحیح ہونے کی مقتضی ہیں لہٰذا بضع کو مہر قرار دینا باطل ہے اور نکاح ہر طرح درست ہے۔ بعض علماء کے نزدیک (اولیاء زوجہ کو خطاب نہیں ہے بلکہ) نکاح کرنے والے مردوں کو خطاب ہے کہ اپنی بیویوں کا مہر ادا کرو۔ نحلۃ بطیب خاطر (ابو عبیدہ) یہ اٰتُوْا کا مفعول مطلق ہے یا اٰتوا کی فاعلی ضمیر سے حال ہے۔ یعنی طیب خاطر رکھتے ہوئے دو یا صدقات سے حال ہے یعنی عورتوں کے مہر اس مال میں سے دو جو اللہ نے اپنی عنایت سے تم کو دیئے ہیں مراد یہ ہے کہ کسی غیر کے مال میں سے نہ دو نہ مشتبہ مال میں سے۔ ابو عبیدہ نے کہا نحلہ محدود معین ہی ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے نحلہ کا ترجمہ عطیہ اور بخشش کیا ہے یعنی اللہ کی طرف سے عورتوں کے لیے مہر (ضروری قرار دینا) ایک مہربانی اور عطیہ ہے اور چونکہ حق مہر عورتوں کو اللہ کی طرف سے عنایت کیا ہوا ہے۔ اس لیے مردوں کے ذمے وہ فرض اور لازم ہوگیا اسی کا لحاظ کرکے قتادہ نے نحلہ کا ترجمہ فریضہ کیا ہے اور ابن جریح نے مقررہ فریضہ لیکن زجاج نے نحلہ کا ترجمہ تَدَیُّنًا کیا ہے یعنی مہر کا قانون اللہ کی طرف سے جاری کیا ہوا ہے پس دینی ضابطہ ہونے کی وجہ سے تم ان کا مہر ادا کرو۔ فان طبن لکم عن شی منہ نفسا پس اگر وہ بیبیاں خوش دلی کے ساتھ تم کو مہر کا کچھ حصہ چھوڑ دیں۔ مِنْہُ میں واحد مذکر کی ضمیر صداق کی طرف راجع ہے کیونکہ کلام سابق سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ہر ایک کو اس کا مہر دیدو 3 ؂۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدقات کے اندر جو صداق ضمناً مذکور ہے اس کی طرف ضمیر راجع ہے۔ بعض کے نزدیک ایتاء (دینا) کی طرف ضمیر راجع ہے (جس پر اٰتوادلالت کر رہا ہے) نفساً تمییز ہے طِبْنَ معنی و تجاوز کو متضمن ہے یعنی اگر عورتیں خوش دلی کے ساتھ کچھ مہر چھوڑ دیں کچھ مہر سے در گذر کریں۔ مِنْہُ میں مِنْ تبعیضیہ ہے اس سے مردوں کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ مہر کا جو کچھ حصہ عورتیں تم کو معاف کردیں تم اس پر بس کرو کل یا زیادہ مہر کی معافی کی طمع نہ کرو۔ فکلوھ ھنیئا مریئا تو اس کو کھالو یعنی لے لو رچتے پچتے۔ مزے اور خوشگواری کے ساتھ یعنی بطور حلال بلا اعتراض۔ ھنیْءٌ پاکیزہ خوشگوار جس میں کوئی تکدر نہ ہو۔ بعض نے کہا مزہ دار مرییءٌ کا معنی ہے خوش انجام کامل الہضم غیر مضر ھنیٰ یھنی (ضرب یضرب) ا ورمَرِئَ یَمْریٰ (سمع یسمع) سے ھنئاً اور مریءًا صفت مشبہ کے صیغے ہیں اور بجائے مصدر کے مستعمل ہیں۔ یا محذوف مصدر کی صفت ہیں۔ ابو جعفر نے دونوں لفظ بغیر ہمزہ کے یاء کی تشدید کے ساتھ پڑھے ہیں۔ باقی قراء نے ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو جعفر اور دوسرے قاریوں کا یہی اختلاف بریٌّ بریُّوْنَ بَرِیًّا اور کَھَیَّتِہِ میں ہے۔
Top