Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہے اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو
و لا توتوا السفھاء اموالکم اور نہ دو اپنے مال بیوقوفوں کو یعنی اپنی عورتوں اور بچوں کو۔ (1) [ بیہقی نے شعب میں اور حاکم نے تصحیح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : تین شخص ہیں جو اللہ سے دعا کرتے ہیں اور ان کی دعا قبول نہیں ہوتی ایک وہ شخص جس کی بیوی بد خلق ہو اور اس نے اس کو طلاق نہ دی ہو اور (دوسرا) وہ شخص جس کا کسی پر کچھ مال ہو (یعنی مال کا دعوی کرے) اور شہادت پیش نہ کرے اور (تیسرا) وہ شخص جو سفیہ کو اس کا مال دیدے حالانکہ اللہ نے فرمایا : و لا تؤْتوا السفہاء اموالکم۔ (از مفسر (رح) ] عورتوں اور بچوں کو سفیہ اس لیے فرمایا : کہ یہ سبک عقل ہوتے ہیں۔ ضحاک، مجاہد، زہری اور کلبی وغیرہ نے یہی بیان کیا اور آئندہ آیت کے بھی یہی مناسب ہے۔ التی جعل اللہ لکم قیاما جن کو اللہ نے تمہارے لیے مایۂ زندگانی بنایا ہے یعنی مال سے تمہاری زندگی کا بقاء اور گذران ہوتا ہے ضحاک نے کہا 3 ؂ ما یۂ سے حج جہاد اور نیکی کے کام ہوتے اور اسی کے ذریعہ سے دوزخ سے نجات ملتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ( آیت کے مطلب کی توضیح میں) فرمایا : جو مال اللہ نے تم کو عنایت فرمایا ہے اور ذریعہ معاش بنایا ہے اس پر اپنی عورتوں اور بچوں کو تسلط نہ دو ورنہ وہ تمہارے خلاف کھڑے ہوجائیں گے اور تم ان کے ہاتھوں کو تکتے رہو گے بلکہ اپنا مال اپنے قبضہ میں رکھو اور اس کو ترقی دو اور خود اہل و عیال کی پرورش اور تربیت میں صرف کرو جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے۔ وارزقوھم فیھا اور اس میں سے اہل و عیال کو کھانے کو۔ واکسو ھم اور پہننے کو دیتے رہو۔ و قولوا لھم قولا معروفا اور ان سے نرم گفتگو کرتے رہو کہ ان کے دل خوش رہیں۔ سعیدبن جبیر اور عکرمہ نے فرمایا : اس آیت میں وہ یتیم مراد ہیں جو تمہارے زیر پرورش ہوں کہ ان کے قبضہ میں ان کا مال نہ دو ۔ بلکہ خود ان کے صرف میں لاؤ۔ اَمْوَالَکُمْ میں خطاب اولیاء کو ہے یتیموں کے مال کو سر پرستوں کا مال قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ سر پرست ہی اس مال کے منتظم اور کرتا دھرتا ہوتے ہیں۔ یہ تفسیر آیت کے سیاق اور اوّل وآخرحصوں کے مناسب ہے کیونکہ گذشتہ اور پیوستہ آیات میں روئے خطاب سرپرستوں ہی کی طرف ہے۔ وارزقوھم منھا کی بجائے وارزقوھم فیھا فرمانے یہ مقصود ہے کہ اصل مال میں سے ان کے مصارف نہ کرو ورنہ سارا مال خرچ ہوجائے گا بلکہ اس مال کو تجارت میں لگا کر اس کے نفع سے یتیموں کے مصارف کرو۔
Top