Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يَاْمُرُكُمْ
: تمہیں حکم دیتا ہے
اَنْ
: کہ
تُؤَدُّوا
: پہنچا دو
الْاَمٰنٰتِ
: امانتیں
اِلٰٓى
: طرف (کو)
اَھْلِھَا
: امانت والے
وَاِذَا
: اور جب
حَكَمْتُمْ
: تم فیصلہ کرنے لگو
بَيْنَ
: درمیان
النَّاسِ
: لوگ
اَنْ
: تو
تَحْكُمُوْا
: تم فیصلہ کرو
بِالْعَدْلِ
: انصاف سے
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
نِعِمَّا
: اچھی
يَعِظُكُمْ
: نصیحت کرتا ہے
بِهٖ
: اس سے
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
سَمِيْعًۢا
: سننے والا
بَصِيْرًا
: دیکھنے والا
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے
ان اللہ یامرکم ان تودوا الامنت الی اہلہا . اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو ادا کر دو ۔ سنید نے اپنی تفسیر میں حجاج بن جریح کی وساطت سے مجاہد (رح) کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول عثمان بن طلحہ ؓ کے حق میں ہوا۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کعبہ کی کنجی عثمان ؓ سے لے کر اندر داخل ہوئے پھر یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ قربان اس سے پہلے میں نے حضور : ﷺ کو یہ آیت پڑھے نہیں سنا۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آیت کا نزول کعبہ کے اندر ہوا۔ سعید بن مسیب کی روایت بھی اسی کی مثل آئی ہے اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ (حضور ﷺ نے فرمایا) اے اولاد طلحہ ؓ اس کو ہمیشہ کے لئے لے لو سوائے کافر کے تم سے اور کوئی ظلم کر کے اس کو نہیں لے گا۔ ابن سعد نے ابراہیم بن محمد عبدری کے بزرگوں کی روایت سے لکھا ہے کہ عثمان ؓ بن طلحہ نے بیان کیا ہجرت سے پہلے مکہ میں میری ملاقات رسول اللہ ﷺ سے ہوئی آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی میں نے کہا محمد ﷺ ! مجھے تعجب ہے تم اپنی قوم کے دین کو چھوڑ کر نیا مذہب لائے اب تم کو یہ لالچ ہوگیا کہ میں بھی تمہارے نقش قدم پر چلو۔ عثمان ؓ نے کہا ہم پیر اور جمعرات کو دور جاہلیت میں کعبہ کھولا کرتے تھے ایک روز رسول اللہ ﷺ دوسرے لوگوں کے ساتھ کعبہ میں داخل ہونے کے ارادہ سے آئے میں نے ان سے سخت کلامی کی اور برا بھلا کہا آپ ﷺ نے تحمل سے کام لیا پھر فرمایا عثمان ؓ امید ہے کہ ایک روز تم اس کنجی کو میرے ہاتھ میں دیکھو گے میں جہاں چاہوں گا اس کا استعمال کروں گا میں نے کہا تو اس وقت قریش تباہ اور ذلیل ہوجائیں گے فرمایا نہیں۔ وہ آباد اور باعزت ہوں گے۔ یہ فرما کر کعبہ میں داخل ہوگئے مگر آپ کی بات میرے دل میں بیٹھ گئی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ جیسا آپ نے فرمایا ہے ضرور ایسا ہوجائے گا۔ اس لئے مسلمان ہونے کا ارادہ کیا۔ لیکن قوم والوں نے مجھے سخت سست خوب کہا اور روک دیا۔ فتح مکہ کا دن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا عثمان ؓ کنجی لا۔ میں کنجی لے کر حاضر ہوا۔ حضور ﷺ نے لے لی اور پھر مجھے واپس دے کر فرمایا یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لے لو تم سے اس کو سوائے ظالم کے اور کوئی نہیں چھین سکتا عثمان ؓ اللہ نے تم لوگوں کو اپنے گھر کا امین بنایا ہے لہٰذا اس گھر کے ذریعہ سے تم کو جو کچھ ملے اس کو دستور کے مطابق کھاؤ جب میں منہ پھیر کر جانے لگا تو حضور ﷺ نے آواز دی میں لوٹ کر گیا تو فرمایا کیا وہی نہیں ہوا جو تم سے میں نے پہلے کہا تھا اس فرمانے سے مجھے وہ بات یاد آگئی جو ہجرت سے پہلے آپ ﷺ نے فرمائی تھی میں نے عرض کیا بیشک میں شہادت دیتا ہوں کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں۔ فاکہانی نے حضرت جبیر ؓ بن مطعم کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب عثمان ؓ کو کنجی دے دی تو فرمایا اس کو چھپا کر رکھنا۔ زہری نے کہا اس حکم کی وجہ سے عثمان کنجی کو چھپا کر رکھتے تھے۔ میں کہتا ہوں کنجی کو چھپا کر رکھنے کا حکم شاید اس وجہ سے بھی دیا گیا تھا کہ لوگ کنجی اپنے پاس رکھنے کے خواستگار تھے جیسا کہ ابن مردویہ کی روایت سے ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ حضرت عباس ؓ کی اپنے پاس کنجی رکھنے کی خواہش تھی۔ ابن عابد اور ازرقی نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا کعبہ کی دربانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت دونوں کو ہمارے لئے یکجا کر دے یجئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حضور ﷺ نے عثمان کو بلوا کر فرمایا اے بنی طلحہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کو لے لو جو کوئی تم سے اس کو چھینے لگا وہ ظالم ہی ہوگا۔ عبدالرزاق اور طبرانی نے زہری کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کعبہ سے برآمد ہوئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا ہم کو ہی نبوت ‘ حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت اور کعبہ کی دربانی دی گئی ہم سے بڑے نصیب والی کوئی قوم نہیں رسول اللہ ﷺ کو حضرت علی ؓ کا یہ قول ناگوار گزرا اور عثمان ؓ بن طلحہ کو بلوا کر کنجی دے کر فرمایا اس کو چھپائے رکھو۔ بغوی نے ذکر کیا ہے کہ فتح مکہ کے دن جب رسول اللہ ﷺ : مکہ میں داخل ہوئے تو عثمان ؓ کعبہ کا دروازہ بند کر کے چھت پر چڑھ گئے حضور ﷺ نے کنجی طلب فرمائی۔ عرض کیا گیا کنجی عثمان کے پاس ہے اور اس نے دینے سے انکار کردیا اور کہا اگر مجھے یقین ہوتا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں تو میں کنجی دینے سے انکار نہ کرتا حضرت علی ؓ نے یہ سن کر عثمان ؓ کی گردن مروڑ دی اور کنجی لے لی اور دروازہ کھول دیا۔ رسول اللہ ﷺ کعبہ میں داخل ہوگئے اور اندر دو رکعت نماز پڑھی جب باہر نکلے تو حضرت عباس ؓ نے کنجی مانگی اور درخواست کی کہ حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کے ساتھ دربانی بھی مجھے عطا کردی جائے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ کنجی عثمان ؓ کو واپس کر دو اور اس سے معذورت بھی کرو۔ حضرت علی ؓ نے حکم کی تعمیل کی عثمان ؓ نے کہا تم نے مجھ پر جبر کیا ‘ دکھ دیا اور اب پچکارنے آئے ہو۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا تمہارے معاملہ میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے پھر آپ ﷺ نے آیت پڑھی عثمان ؓ نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں کعبہ کی کنجی عثمان کے پاس رہی مرتے وقت انہوں نے اپنے بھائی شیبہ ؓ : کو دے دی قیامت تک کعبہ کی کنجی اور دربانی انہی کی اولاد کے پاس رہے گی۔ فائدہ : آیت مذکورہ کا نزول اگرچہ بنی طلحہ کو کنجی دے دینے کے سلسلہ میں ہوا تھا مگر الفاظ کا حکم عام ہے ہر امانت کو اس کی امانت واپس کردینا واجب ہے۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایسا بہت ہی کم ہوا کہ حضور ﷺ نے خطبہ دیا ہو اور یہ نہ فرمایا ہو کہ جس میں امانتداری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پاسداری نہیں اس میں دین نہیں۔ شعب الایمان بیہقی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ بن عمر کی مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نفاق کی علامات میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ صحیحین۔ (1) [ حضرت زید بن ثابت نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ سب سے پہلے لوگوں سے امانت اٹھا لی جائے گی اور سب سے آخر نماز باقی رہے گی اور بہت نمازی ایسے ہوں گے کہ ان کے اندر کوئی خیر نہ ہوگی (یعنی نماز دکھاوٹ کی ہوگی اسلامی محاسن مفقود ہوں گے) ابن جریر نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ (مندرجۂ ذیل امور کی) اجازت نہیں دی گئی نہ مال دار کو نہ نادار کو۔ بیہقی نے میمون بن مہران کا قول نقل کیا ہے کہ تین چیزیں ہیں جو نیک بد (ہر ایک) کو ادا کی جائیں (1) رشتہ داری کو جڑا رکھا جائے خواہ رشتہ داری نیک ہو یا بد (2) امانت ادا کی جائے خواہ نیک کی ہو یا بد کی (3) وعدہ پورا کیا جائے خواہ نیک سے کیا ہو یا بد سے۔ عبدالرزاق۔ ابن ابی شیبۃ۔ عبد بن حمید۔ ابن منذر۔ ابن ابی حاتم اور بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں شہادت سوائے امانت کے باقی تمام گناہوں کو ساقط کردیتی ہے۔ قیامت کے دن بعض لوگوں کو (پیشی میں) لایا جائے گا خواہ وہ راہ خدا میں شہید ہوئے ہوں پھر بھی ان کو حکم دیا جائے گا اپنی امانت واپس کر۔ وہ شخص عرض کرے گا دنیا جاتی رہی اب کہاں سے ادا کروں حکم ہوگا اس کو ہاویہ میں لے جاؤ حکم کی تعمیل کی جائے گی قعر جہنم کے اندر امانت اپنی اصلی شکل میں (اس کے سامنے) آئے گی وہ امانت کو اپنے اوپر اٹھا کر اوپر کو چڑھنے لگے گا چڑھتے چڑھتے جب اس کو یقین ہوجائے گا کہ اب میں امانت کا بوجھ اٹھائے باہر نکل جاؤں گا دفعتہ امانت پھسل کر نیچے گرپڑے گی اور اس کے ساتھ وہ شخص بھی ہمیشہ کے لئے اندر کو گرپڑے گا۔ راذان راوی کا بیان ہے حضرت ابن مسعود ؓ سے یہ بیان سن کر میں حضرت براء بن عازب ؓ کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا کیا آپ نے نہیں سنا کہ آپ کے بھائی ابن مسعود ؓ نے کیا فرمایا ؟ حضرت براء ؓ نے فرمایا ابن مسعود ؓ نے سچ کہا کیونکہ اللہ فرماتا ہے : ( اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤْدَوُّا الْاَمَانَاتِ اِلٰی اَہْلِہَا) اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں واپس کرو۔ امانت نماز میں بھی ہوتی ہے اور غسل جنابت میں بھی اور بات میں بھی اور ناپ تول میں بھی اور دین میں بھی اور ان سب سے زیادہ سخت وہ امانت ہے جس کا تعلق ودیعت (کے مال) سے ہو۔ (منہ)] فائدہ : ادائے امانت کا حکم صرف مال ودیعت سے ہی تعلق نہیں رکھتا بلکہ جو حق بھی کسی کا کسی پر ہو وہ امانت ہے جس کا ادا کرنا واجب ہے جیسا کہ آیت کے شان نزول سے ظاہر ہو رہا ہے۔ صوفیہ صافیہ کا بیان ہے کہ ممکنات کا وجود اور لوازم وجود اور تمام کمالات ممکن کے ذاتی (از خود) نہیں بلکہ مرتبۂ وجوب سے مستفاد اور باری تعالیٰ کی طرف سے ایک مستعار ودیعت ہے ورنہ بذات خود ہر ممکن ان کمالات سے خالی ہے اور اس آیت کا اقتضاء ہے کہ امانت کو امانت والے کے سپرد کردینا اور اپنی ذات کو اس کا مالک نہ قرار دینا واجب ہے اگر بادشاہ کسی بھنگی کو خلعت فاخرہ اور لباس امیرانہ پہنا دے تو بھنگی کی یہی دانشمندی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ویسا ہی تصور کرے جیسے پہلے تھا اور خلعت کو بادشاہ کی عاریت سمجھے۔ صوفی پر بھی جب اس تصوری حالت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ اپنے کو اپنی ذات کے اعتبار سے معدوم اور فاقد الوجود سمجھتا ہے اور تمام کمالات سے خالی جانتا ہے بلکہ اپنے کو تمام مفاسد اور شرور کا مبداء خیال کرتا ہے یہی مرتبۂ فنا ہے اس سے آگے ایسی کھوئی کھوئی حالت بھی ہوجاتی ہے کہ اپنی ذاتی فنا اور کمالات سے خالی ہونے کا بھی اس کو خیال نہیں رہتا ‘ یہ مرتبہ فناء الفناء کا ہوتا ہے لیکن فنا ذاتی کے تصور کے ساتھ کبھی یہ خیال بھی شہودی مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے کہ میرا وجود ہے میں موجود ہوں مگر میری یہ ہستی اور ہستی کے صفات میرے نہیں اللہ تعالیٰ نے بطور عاریت مجھے عطا فرمائے ہیں۔ ذات خداوندی اور صفات الٰہیہ کی وجہ سے میری ہستی اور ہستی کی صفات کی بقاء ہے (گویا واجب اصل ہے اور ممکن اس کا عکس) یہ مرتبہ بقاء (باللہ) کا ہے یہی مطلب ہے اس فرمان خداوندی کا جس کو حدیث قدسی میں بیان کیا گیا ہے کہ میں مؤمن کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ‘ الخ۔ اسی مرتبۂ فنا وبقاء کا نام صوفی کی نظر میں ادائے امانت ہے اس مرتبہ پر پہنچنے کے بعد کوئی صوفی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ خود وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے کیونکہ اس کو اپنا نفس معدوم الوجود اور تمام کمالات سے خالی نظر آتا ہے ہاں اللہ نے جو فضائل و کمالات عطا فرمائے ہیں ان کو تذکرۂ انعام کے طور پر بیان کرنا اس کے لئے جائز ہوتا ہے کیونکہ کوئی فضیلت اس کی ذاتی نہیں ہوتی ہر کمال اور فضیلت کا رجوع اللہ کی طرف ہوتا ہے پس کسی فضیلت کے ذکر سے مراد ہوتا ہے اللہ کی عنایت کا اظہار اور کمال خداوندی کا بیان۔ فالحمد للہ۔ گویا اس آیت کا ربط گزشتہ آیت اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ بَلِ اللّٰہُ یُزَّکِیْ مَنْ یَّشَآءُسے ہے اور دونوں کے درمیان جتنا کلام ہے وہ معترضہ ہے (یعنی ماقبل اور مابعد کسی سے مربوط نہیں) دونوں آیات کا مطلب یہ ہوگا کہ اپنے نفسوں کو پاک نہ قرار دو تمہارا کوئی کمال تمہارا نہیں ہے اللہ جس پر چاہتا ہے اپنے نور کا ایک چمکارا اور اپنے سمندر کا ایک چھینٹا ڈال دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ پاک ہوجاتا ہے۔ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ جو کمالات و فضائل اللہ نے تم کو بطور امانت عطا فرمائے ہیں ان کا رجوع اللہ ہی کی طرف کرو طہارت نفس کو اپنی کارگزاری نہ سمجھو بلکہ اللہ کا شکر اور حمد کرو کہ اس نے تم کو پاک کیا۔ بعض مشائخ کی زبان سے بعض اوقات اپنے فضائل کا اظہار بظاہر فخر کے لہجہ میں ہوا ہے جس سے جاہلوں کو اعتراض کا موقع ملا ہے مگر ان نادانوں کو معلوم نہیں کہ مشائخ جب اپنے تمام کمالات و فضائل کو بطور اداء امانت اللہ کی طرف لوٹا دیتے ہیں تو پھر ان کا ذکر کرنا انعام الٰہی کا اظہار ہوتا ہے فخر نہیں ہوتا بلکہ حکمت و مصلحت کے زیر اثر وہ اپنے مقامات و احوال کا اظہار کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل اور اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ جب لوگوں کے باہمی معاملات کا فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی ادائے امانت کی ایک شاخ ہے اور انصاف نہ کرنا خیانت ہے۔ اسی طرح اللہ ‘ رسول اور اولی الامر کی اطاعت جس کا حکم آئندہ آیت میں دیا گیا ہے ادا امانت دہ۔ حضرت ابوذر ؓ کا بیان ہے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے عامل (حاکم) بنا دیجئے (یعنی کوئی انتظامی کام مجھ سے لیجئے) فرمایا : تم کمزور ہو اور یہ (حکومت) ایک امانت ہے قیامت کے دن یہ رسوائی اور پشیمانی (کا ذریعہ) ہوگی۔ ہاں جس شخص نے اس کو حق کے ساتھ لیا اور پھر اس کے حق کو ادا کیا (وہ رسوا نہ ہوگا) ۔ دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے حضور ﷺ نے فرمایا : ابوذر ؓ میں تم کو کمزور پاتا ہوں ‘ تمہارے لئے وہی بات پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں۔ دو آدمیوں پر بھی حکومت نہ کرنا اور یتیم کے مال کا متولی نہ بننا۔ رواہ مسلم۔ ان اللہ نعما یعظکم بہ یعنی ادائے امانت اور انصاف حکم بہت اچھی چیز ہے جس کی اللہ تم کو نصیحت کر رہا ہے۔ ان اللہ کان سمیعا بیشک اللہ (تمہارے اقوال و احکام کو) سننے والا اور بصیر (امانتوں کے سلسلہ میں تم جو کچھ کرتے ہو اس کو) دیکھنے والا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو بن عاص کی مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انصاف کرنے والے (قیامت کے دن) رحمن کے دائیں ہاتھ کی طرف نور کے ممبروں پر ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوں گے جو فیصلوں میں اور فیصلہ کے فریقوں میں اور اپنے زیر حکومت امور میں انصاف کرتے ہیں۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابوسعید ؓ خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کا سب سے زیادہ محبوب و مقرب منصف حاکم ہوگا اور قیامت کے دن اللہ کا سب سے زیادہ مبغوض اور سخت ترین عذاب کا مستحق ظالم حاکم ہوگا۔ دوسری روایت میں سخت ترین عذاب والا کی جگہ قرب الٰہی سے بعید ترین کا لفظ آیا ہے ‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے سایہ (رحمت) کی طرف سبقت کرنے والے کون لوگ ہیں۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی جانے۔ فرمایا وہ لوگ (رحمت کے سایہ کی طرف سے سب سے آگے ہوں گے) جن کو اگر ان کا حق دیا جائے تو قبول کرلیتے ہیں اور اگر ان سے حق مانگا جائے تو دے دیتے ہیں اور لوگوں کا فیصلہ اس طرح کرتے ہیں جیسا اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں۔ رواہ احمد بیہقی نے شعب الایمان میں بھی حضرت عمر بن خطاب ؓ کی روایت سے اسی طرح مرفوع حدیث نقل کی ہے۔
Top