Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 6
وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰى حَتّٰۤى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ١ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ١ۚ وَ لَا تَاْكُلُوْهَاۤ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّكْبَرُوْا١ؕ وَ مَنْ كَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ١ۚ وَ مَنْ كَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا
وَابْتَلُوا
: اور آزماتے رہو
الْيَتٰمٰى
: یتیم (جمع)
حَتّٰى
: یہانتک کہ
اِذَا
: جب
بَلَغُوا
: وہ پہنچیں
النِّكَاحَ
: نکاح
فَاِنْ
: پھر اگر
اٰنَسْتُمْ
: تم پاؤ
مِّنْھُمْ
: ان میں
رُشْدًا
: صلاحیت
فَادْفَعُوْٓا
: تو حوالے کردو
اِلَيْھِمْ
: ان کے
اَمْوَالَھُمْ
: ان کے مال
وَلَا
: اور نہ
تَاْكُلُوْھَآ
: وہ کھاؤ
اِسْرَافًا
: ضرورت سے زیادہ
وَّبِدَارًا
: اور جلدی جلدی
اَنْ
: کہ
يَّكْبَرُوْا
: کہ وہ بڑے ہوجائینگے
وَمَنْ
: اور جو
كَانَ
: ہو
غَنِيًّا
: غنی
فَلْيَسْتَعْفِفْ
: بچتا رہے
وَمَنْ
: اور جو
كَانَ
: ہو
فَقِيْرًا
: حاجت مند
فَلْيَاْكُلْ
: تو کھائے
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
فَاِذَا
: پھر جب
دَفَعْتُمْ
: حوالے کرو
اِلَيْھِمْ
: ان کے
اَمْوَالَھُمْ
: ان کے مال
فَاَشْهِدُوْا
: تو گواہ کرلو
عَلَيْھِمْ
: ان پر
وَكَفٰى
: اور کافی
بِاللّٰهِ
: اللہ
حَسِيْبًا
: حساب لینے والا
اور یتمیوں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔ جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے
وابتلو الیتمیٰ اور یتیموں کی جانچ کرلو۔ یعنی بالغ ہونے سے پہلے یتیموں کی عقل کی جانچ کرلو تھوڑا سا مال ان کے قبضہ میں دے کر دیکھو کہ وہ کس طرح اس میں تصرف کرتے ہیں اگر وہ ہوشیار ہوں گے تو شروع میں ہی ان کی ہوشیاری ظاہر ہوجائے گی۔ ہوشیار بچہ کو تجارتی لین دین کی اجازت اس آیت سے معلوم ہوتی ہے یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے کہ امام شافعی کے نزدیک بچہ کو تجارت کی اجازت نہیں اور آیت میں جانچ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے نکاح کے مبادی ان کے سپرد کردیئے جائیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول زیادہ ظاہر ہے۔ حتی اذا بلغوا النکاح یہاں تک کہ جب وہ نکاح کو پہنچ جائیں یعنی اس عمر کو پہنچ جائیں کہ نکاح اور نسل آفرینی کی ان میں صلاحیت پیدا ہوجائے لڑکے میں اسکی علامت احتلام جماع کے وقت انزال اور صلاحیت تولید ہے اور لڑکی میں حیض احتلام اور حاملہ ہونے کی صلاحیت ہے اگر ان علامات میں سے کوئی علامت نہ پیدا ہو تو امام مالک، امام احمد، امام شافعی، امام ابو یوسف کے نزدیک لڑکے اور لڑکی کے بلوغ کی عمر پورے پندرہ سال ہیں ایک روایت میں امام ابوحنیفہ کا قول بھی یہی آیا ہے اور اسی پر فتویٰ بھی ہے مگر امام صاحب کا مشہور قول یہ ہے کہ لڑکی کے لیے پورے سترہ اور لڑکے کے لیے پورے اٹھا رہ سال اور ایک روایت کے بموجب پورے انیس سال ہونا چاہئے۔ جمہور نے اپنے مسلک کی دلیل میں حضرت انس کی روایت کو پیش کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب مولود (بچہ اور بچی) کی عمر پورے پندرہ سال کی ہوجاتی ہے تو اس کے مفید مضر اعمال لکھے جاتے ہیں اور اس پر حدود قائم کی جائیں۔ (رواہ البیہقی فی الخلافیات) اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ صحیحین میں حصرت ابن عمر کا قول آیا ہے کہ احد کے دن جب کہ میری عمر چودہ سال تھی (شرکت جنگ کی اجازت کے لیے) مجھے رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ ﷺ نے شرکت کی اجازت نہیں دی۔ پھر خندق کے دن جب کہ میری عمر 15 سال تھی مجھے حضور ﷺ کے معاینہ میں پیش کیا گیا اس وقت آپ ﷺ نے اجازت دے دی۔ امام احمد کے نزدیک بلوغ کی ایک علامت پوشیدہ بالوں کی روئیدگی بھی ہے (مشرکین کے لیے بھی اور مسلمانوں کے لیے بھی) امام شافعی کے نزدیک مشرکین کے لیے بلوغ کی علامت روئیدگی ہے مسلمانوں کے لیے نہیں ہے یا ہے۔ یہ دونوں روایتیں امام شافعی سے منقول ہیں امام ابوحنیفہ (رح) پوشیدہ بالوں کی روئیدگی یا عدم روئیدگی کو ہیچ قرار دیتے ہیں ناقابل اعتبار۔ امام احمد و امام شافعی کے قول کی دلیل وہ حدیث ہے جس کو ابن حبان اور حاکم اور اصحاب سنن نے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے کہ عطیہ قرظی نے فرمایا : بنی قریظہ (کی گرفتاری وقتل) کے دن مجھے رسول اللہ کے معاینہ میں پیش کیا گیا کیونکہ لوگوں کو میرے بالغ اور نا بالغ ہونے میں شک تھا رسول اللہ نے حکم دیا کہ پوشیدہ بالوں کو دیکھو پیدا ہوگئے ہیں یا نہیں لوگوں نے حکم کی تعمیل کی مگر بال نہ پائے اس لیے مجھے (قتل سے) چھوڑ دیا گیا اور قیدیوں میں شامل کردیا گیا۔ فان انستم منھم رشدا پس اگر بلوغ کے بعد تم ان سے ہوشیاری دیکھو (محسوس کرو) یعنی لین دین میں خرابی محسوس نہ ہو اور معاملات میں درستی نظر آئے۔ امام ابوحنیفہ ‘ امام مالک اور امام احمد نے رشدًا کا مطلب یہی بیان کیا ہے امام شافعی نے فرمایا۔ صلاح دین، حفاظت مال اور مال کو ترقی دینے کی تدبیروں کا علم رشد سے مراد ہے۔ بیہقی نے علی ؓ بن طلحہ ؓ کی سند سے حضرت ابن عباس کا قول بیان کیا ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم کو ان کے اندر دینی صلاح اور حفاظت مال بلوغ کے بعد نظر آئے۔ ثوری نے جامع میں منصور کی روایت سے مجاہد کا قول بھی یہی نقل کیا ہے اور بیہقی نے یزید بن ہارون از ہشام بن حسان کی روایت سے حسن بصری کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی ہے۔ نتیجۂ اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فاسق صاحب رشد نہیں ہے اور دوسرے لوگوں کے نزدیک فاسق رشید ہے۔ فادففعوا الیھم اموالھم تو ان کا مال فوراً بالغ ہوتے ہیں بلا تاخیر ان کو دیدو۔ ترکیب عبارت اذا بلغواظرف ہے لیکن اس میں شرط کا معنی ہے اور ظرف کا تعلق ادفعوا سے ہے حتیٰ ابتدائیہ ہے ما قبل حتی ما بعد کا سبب ہے یہ حتی جارہ نہیں ہے کیونکہ اذا کے اندر فی (ظرفیت) کا معنی ہے۔ اس لیتے حتّٰی جارہ اس پر داخل نہیں ہوسکتا۔ مطلب یہ ہے کہ یتیموں کی جانچ کر لوتا کہ نکاح کی عمر کو پہنچنے پر جب تم کو ان کی ہوشیاری نظر آجائے تو ان کا مال ان کو دیدو۔ گو جانچ کرنا مال دینے کا سبب ہے لیکن دینا دو شرطوں کے ساتھ مشروط ہے بلوغ اور احساس رشد۔ اسی لیے امام شافعی، امام مالک، امام احمد اور صاحبین نے فرمایا : کہ جب تک رشد دیکھ نہ لیا جائے ان کا مال ان کے ہاتھوں میں نہ دیا جائے مگر امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک احساس رشد لازم نہیں۔ مال دینے کے لیے پچیس سال کی عمر پوری ہوجانا کافی ہے کیونکہ مال دینے کی ممانعت بچپن کے آثار کی وجہ سے کی گئی ہے اور ابتدائی بلوغ میں بچپن کے آثار باقی رہتے ہیں اور زیادہ وقت گذرنے پر نشان طفولیت ختم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ممانعت کا حکم باقی نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے امام صاحب کا قول ہے کہ بلوغ کے وقت اگر کوئی بچہ صاحب رشد تھا پھر سفیہ 1 ہو گیا تو مال سے اس کو نہیں روکا جائے گا کیونکہ اس کی یہ سفاہت بچپن کے اثر کی وجہ سے نہیں ہے۔ امام صاحب نے فرمایا : کہ رشداً کی تنوین تقلیل کے لیے ہے یعنی اگر تم کو ان کے اندر کسی قسم کا تھوڑا سا رشد بھی نظر آئے تو انکا مال دیدو۔ تکمیل رشد کا انتظار نہ کرو اور چونکہ پچیس سال کی عمر میں کسی نہ کسی قسم کا رشد کسی درجہ میں حاصل ہو ہی جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا مال دیدو مال کی روک کا حکم تو ادب آموزی کے لیے تھا اس عمر کے بعد ادب سیکھنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں یا یوں کہو کہ غالباً امکان ادب آموزی ختم ہوجاتا ہے ایسی حالت میں مال روکنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہٰذا دیدینا لازم ہے۔ مسئلہ جس سفیہ کو مال دینے کی ممانعت کی گئی ہے اس کا کوئی مالی معاملہ نافذ نہیں ہوسکتا نہ بیع کرسکتا ہے نہ غلام کو آزاد کرسکتا ہے یہ مسلک امام شافعی کا ہے لیکن امام محمد کے نزدیک سفیہ کا وہ تصرف تو جاری ہوجائے گا جو فسخ کردینے کے قابل ہی نہیں ہے اور وہ تصرف نافذ نہ ہوگا جس کو ولی کی اجازت سے فسخ کیا جاسکتا ہے جیسے خریدو فروخت لیکن امام ابو یوسف اور اکثر علماء کے نزدیک جب تک قاضی نے روک نہ کردی ہو سفیہ کے تمام تصرفات نافذ ہوں گے اور قاضی ہر تصرف سے روک سکتا ہے۔ اگر قاضی روک دے تو سفیہ کی نہ بیع نافذ ہوگی نہ کوئی ایسا تصرف نافذہو گا جس میں مذاق کے طور پر زبان سے کہہ دینا بھی سنجیدگی کا حکم رکھتا ہے لیکن غلام کی آزادی کا حکم نافذ ہوجائے گا اور امام ابو یوسف کے نزدیک غلام پر لازم ہوگا کہ محنت مزدوری یا اور کوئی کام کرکے اپنی قیمت 2 ادا کرے امام محمد کے مثبت و منفی دو قول آئے ہیں اوّل قول امام ابو یوسف کے موافق ہے اور دوسرے قول میں غلام کو اپنی قیمت کا ذمہ دار نہیں قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : قاضی کے لیے جائز ہی نہیں کہ کسی عاقل بالغ کو سبکی عقل یا دین یا فسق کی وجہ سے تصرفات سے روک دے۔ اس فعل کا معنی یہ ہوگا کہ آدمیت کے حقوق سلب کرکے چوپایوں میں اس کو پہنچا دے اور حقوق انسانیت کا سلب بربادی مال سے زیادہ سخت ہے ادنیٰ ضرر کو دفع کرنے کے لیے بڑے ضرر کو نہیں اختیار کیا جاسکتا۔ شافعی اور احمد وغیرہ سفیہ کو تصرفات سے روک دینے کے جواز کے قائل ہیں ان کے اس مسلک کی دلیل یہی آیت ہے آیت دلالت کر رہی ہے کہ سفیہ سے مال کو روک دیا جائے لیکن اگر اس کے ہاتھ کو تصرف سے روک بھی دیا جائے تب بھی کوئی نتیجہ نہ ہوگا کیونکہ وہ زبان سے (خریدوفروخت وغیرہ) تصرفات کرسکے گا اس لیے اس کو ہر طرح کی باز داشت قاضی کی طرف سے ہونی چاہئے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : مالی تصرف سے صرف ہاتھ کو روکنا بھی مفید ہوسکتا ہے کیونکہ سبکی عقل کا ظہور اکثر ہبہ اور صدقات و خیرات کی صورت میں ہوتا ہے اور ایسا تصرف ہاتھ کا محتاج ہے زبانی ہبہ (اور صدقہ) بغیر قبضہ کے نافذ نہیں۔ امام اعظم کی دلیل حضرت انس کی روایت ہے کہ ایک آدمی بیع و شراء کے معاملہ میں کمزور تھا مگر خریدو فروخت کرتا ضرور تھا اس کے گھر والوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کو خریدو فروخت سے روکد یا جائے حضور ﷺ نے اس کو بلوا کر بیع کرنے کی ممانعت فرمادی۔ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھ سے تو بغیر بیع کے صبر نہیں ہوتا فرمایا : تو جب بیع کیا کرو تو یہ کہہ دیا کرو کہ کوئی دھوکہ نہ ہونا چاہئے (مجھے فسخ کا اختیار ہے 1 ) ۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے دیکھو رسول اللہ نے اس کو بیع سے بالکل باز داشت نہیں کی اور تحریمی ممانعت نہیں فرمائی۔ شافعی (رح) کی طرف سے اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ وہ شخص خود قصداً اپنا مال برباد نہیں کرتا تھا بلکہ سبک عقلی کی وجہ سے خریدو فروخت میں اس کو نقصان ہوجاتا تھا اس کا تدارک حضور ﷺ کے اس قول سے ہوسکتا تھا کہ کوئی دھوکہ 2 نہ ہونا چاہئے۔ (چنانچہ آپ نے یہی فرمایا) اور ہماری گفتگو اس سفیہ کے متعلق ہے جو دانستہ خود اپنا مال برباد کرتا ہو۔ بغوی نے لکھا کہ سفیہ کو تمام مالی تصرفات سے روک دینے کے جواز کی دلیل صحابہ کا اتفاق آراء ہے۔ عروہ نے ہشام سے ہشام نے قاضی ابو یوسف سے امام ابو یوسف نے امام محمد سے، امام شافعی سے بیان کیا کہ عبد اللہ بن جعفر نے کچھ بھوڑ زمین ساٹھ ہزار درہم کو خریدی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے فرمایا : میں عثمان کے پاس جا کر تیری خرید کا اختیار بند کرادوں گا۔ عبد اللہ نے جا کر حضرت زبیر سے یہ بات کہہ دی۔ حضرت زبیر نے کہا میں اس بیع میں تمہارا شریک (مشورہ) ہوں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ حضرت عثمان کے پاس گئے اور کہا اپنے بھتیجے کو تصرفات سے روک دیجئے۔ (وہ سفیہ ہے) حضرت زبیر نے کہا میں (مشورہ میں) ان کا شریک ہوں حضرت عثمان نے کہا اب میں کسی کو کیسے اس تصرف سے روک دوں جس (کے مشورہ میں) ان کا شریک ہوں حضرت عثمان نے کہا اب میں کسی کو کیسے اس تصرف سے روک دوں جس (کے مشورہ) میں زبیر شریک ہیں۔ ابو عبیدہ نے کتاب الاموال میں اپنی سند سے ابن سیرین کی روایت سے لکھا ہے کہ عثمان نے علی سے کہا۔ (غالبا کتابت کی غلطی ہے حضرت عثمان نے حضرت علی سے یہ بات نہیں کہی بلکہ حضرت علی نے حضرت عثمان سے کہی تھی جیسا کہ شافعی کی مذکورہ بالا روایت میں صراحت ہے۔ ) آپ اپنے بھتیجے کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑتے اور اس کی خریدو فروخت کی بندش کیوں نہیں کردیتے۔ اس نے ساٹھ ہزار درہم کو ایسی شور ناک زمین خریدی ہے کہ مجھے وہ اپنی جوتی کے بدلہ میں بھی نہیں بھاتی۔ بغوی نے کہا اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سفیہ کی بندش اختیار پر صحابہ متفق تھے اسی وجہ سے تو حضرت زبیر نے بندش اختیار کو دور کرنے کا حیلہ کیا۔ مسئلہ اگر نا بالغ بالغ ہونے کے وقت تو صاحب رشد ہو پھر سبک سر برباد کن ہوجائے تو اس کو ممنوع التصرف قرار دینا ان علماء کے نزدیک جائز ہے جو بلوغ کے وقت سفیہ کو ممنوع التصرف قرار دینے کے قائل ہیں جیسا کہ عبد اللہ بن زبیر کے قصہ سے واضح ہو رہا ہے۔ رہا قرضد دار تو اس کو بھی ممنوع التصرف قرار دیا جاسکتا ہے جیسا کہ کعب بن مالک نے اپنے باپ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے حضرت معاذ کو مال میں تصرف (خرید فروخت) کرنے سے قرضدار ہونے کی وجہ سے روک دیا تھا اور آپ کا مال بکوا دیا تھا۔ (رواہ الدار قطنی والحاکم والبیہقی) ابو داؤد نے مراسیل میں اور سعیدنے سنن میں مرسلاً عبد الرزاق کی روایت سے اور ابن جوزی نے ابن مبارک از معمر کی روایت سے مرسلاً بیان کیا کہ حضرت معاذ بن جبل سخی جوان تھے کچھ روک کر نہیں رکھتے تھے اور برابر قرض لیتے رہتے تھے یہاں تک کہ آپکا مال قرض میں ڈوب گیا مجبوراً آپ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ حضور قرض خواہوں سے آپ ﷺ اس کے متعلق کچھ گفتگو کریں اگر قرض خواہ کسی کو چھوڑ دیتے تو رسول اللہ کی سفارش سے حضرت معاذ کو چھوڑ دیتے (لیکن انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا) رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کا مال فروخت کردیا اور حضرت معاذ ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہوگئے۔ عبد الحق نے کہا یہ حدیث بصورت ارسال متصل سے زیادہ صحیح ہے۔ ابن صلاح نے احکام میں لکھا ہے کہ یہ حدیث ثابت ہے یہ واقعہ 9 ھ کا ہے۔ حضور ﷺ نے قرض خواہوں کے مطالبہ کا 7/5 حصہ دیا۔ قرض خواہوں نے کہا 7/2 بھی فروخت کرکے ہم کو دیدیجئے فرمایا : اب تمہارے لیے (باقی مال پر قبضہ کرنے کا) کوئی راستہ نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : کہ قاضی قرضدار کو نہ ممنوع التصرف کرسکتا ہے نہ اس کا مال فروخت کرسکتا ہے کیونکہ اس کے مال کی خود اپنے حکم سے فروختگی بھی ایک قسم کی بندش تصرف ہے اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ یہ بغیر رضا مندی کی بیع ہے جو ناجائز ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ بلکہ قاضی یہ کرسکتا ہے کہ قرض دار کو قید کر دے یہاں تک کہ وہ تنگ آکر اپنا مال فروخت کردے اور قرضخواہوں کا قرض چکا دے اور اس پر بھی (قاضی کی طرف سے) ظلم نہ ہو۔ رہا حضرت معاذ کا قصہ تو ہم کو یہ تسلیم نہیں ہے کہ حضرت معاذ کی مرضی کے خلاف رسول اللہ نے ان کا مال فروخت کردیا تھا یہ ناممکن تھا کہ رسول اللہ کے عمل سے معاذ ناراض ہوتے بلکہ حضور ﷺ نے ان کی مرضی سے ان کا مال فروخت کیا تھا جیسے کسی کی طرف سے وکیل فروخت کرتا ہے یا فضولی آدمی کسی کا مال بیچ ڈالتا ہے اور بعد کو اصل مالک رضا مندی دیدیتا ہے روایت میں جو آیا ہے کہحجر علی معاذ مالہ و اباعہ یہ صرف زاری کا خیال ہے کہ حضرت معاذ کے مال کی فروخت کو انہوں نے حجر علی معاذقرار دیدیا کیونکہ واقدی کے سلسلہ سے بیہقی نے اس حدیث کو بیان کیا ہے اس حدیث کے آخر میں اتنا زائد ہے کہ رسول اللہ نے اس کے بعد حضرت معاذ کی شکستہ دلی دور کرنے کے لیے یمن کو عامل بنا کر بھیج دیا۔ طبرانی نے کبیر میں لکھا ہے کہ رسول اللہ نے جب حج کیا تو معاذ کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا آپ ہی سب سے پہلے اللہ کے مال (وصول کرنے) کے لیے اجیر بنے۔ اس سے ظاہر ہو رہا ہے۔ کہ رسول اللہ نے حضرت معاذ کو ممنوع التصرف نہیں کیا تھا۔ مسئلہ : اگر کوئی دیوالیہ ہوجائے اور حاکم اس کا مال قرض خواہوں کی تقسیم کرادے اور پھر بھی قرض باقی رہ جائے مگر اس کو پیش ایسا آتا ہو جس کی اجرت اس کے ضروری مصارف سے زائد ہو تو امام احمد نے (ایک روایت کے اعتبار سے) کہا ہے کہ حاکم ادائے قرض کے لیے اسکو مزدوری کرنے کی اجازت دے سکتا ہے دوسری روایت میں امام احمد (رح) کا قول اسکے خلاف ہے باقی ائمہ نفی اجازت کے قائل ہیں۔ اوّل قول کے ثبوت میں امام احمد نے اس حدیث کو پیش کیا ہے جو دارقطنی نے زید بن اسلم کی روایت سے لکھی ہے زید بن اسلم نے کہا میں نے اسکندریہ میں ایک بوڑھا شخص دیکھا جس کو سرق کہا جاتا تھا میں نے کہا یہ کیسا نام ہے ؟ بوڑھے نے کہا میرا یہ نام رسول اللہ نے رکھا تھا اور میں اس کو ہرگز ترک نہیں کروں گا۔ میں نے کہا رسول اللہ نے تمہارا یہ نام کیوں رکھا تھا ؟ بوڑھے نے کہا : میں (ایک بار) مدینہ کو گیا اور لوگوں سے کہا : میرا مال آنے والا ہے لوگوں نے مجھ سے آنے والے مال کا سودا کرلیا لیکن سب مال برباد ہوگیا ( اور میرا مال نہیں آیا) لوگ رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے حضور ﷺ نے فرمایا : تو چور ہے اور حضور صعلم نے مجھے چار اونٹوں کی قیمت میں بیچ ڈالا۔ جس شخص نے مجھے خریدا تھا قرض خواہوں نے اس سے پوچھا تم اس کا کیا کرو گے ؟ اس نے کہا : میں اسے آزاد کردوں گا قرض خواہوں نے کہا : تو ثواب کی طلب میں ہم تم سے کم نہیں ہیں چناچہ قرض خواہوں نے مجھے آزاد کردیا اور میرا نام باقی رہ گیا۔ ابن جوزی (رح) نے لکھا ہے کہ یہ امر ظاہر ہے کہ رسول اللہ نے اس کی ذات کو تو فروخت کیا نہ تھا کیونکہ آزاد تھا (اور آزاد مملوک نہیں ہوسکتا) بلکہ اس کے منافع (یعنی مزدوری کی آمدنی) کو فروخت کیا تھا پس آزاد کرنے سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے خدمت لینے سے مجھے آزاد کردیا۔ میں کہتا ہوں کوئی وجہ نہیں کہ اس حدیث میں لفظ بیع سے بیع منافع مراد لی جائے کیونکہ یہ تو عمل مجہول کا ٹھیکہ ہوجائے گا لہٰذا یہ حدیث باجماع علماء متروک ہے (کیونکہ آزاد کی بیع بالاجماع ناجائز ہے) رہا رسول اللہ کا عمل تو حضور ﷺ کو لوگوں کی جانوں میں تصرف کرنے کا حق تھا دوسروں کو وہ حق حاصل نہیں۔ حضرت ابو سعید کی روایت ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ میں ایک شخص نے پھل خریدے اور اس کے پھل مارے گئے اور اس پر قرض بہت ہوگیا حضور ﷺ نے فرمایا : اس کو خیرات دو حکم کی تعمیل کی گئی مگر چندہ اتنا نہیں ہوا کہ اس کا قرض پورا ہوسکتا۔ حضور نے قرض خواہوں سے فرمایا : جتنا تم کو مل گیا لے لو بس اس سے زیادہ تم کو نہیں ملے گا۔ یہ حدیث صاف بتارہی ہے کہ وصول قرض کے لیے قرض دار کا فقط مال لیا جاسکتا ہے۔ مدیون پر (قرض خواہوں کا) اور کوئی حق نہیں (یعنی قرضدار کو نہ ممنوع التصرف کیا جاسکتا ہے نہ مزدوری یا نوکری وغیرہ سے روکا جاسکتا ہے) وا اللہ اعلم۔ و لا تاکلوھا (یعنی اے یتیموں کے سر پرستو ! ) یتیم کا مال نہ کھاؤ 1 ۔ اسرافاً و بدارا (حد اعتدال اور ضرورت سے) زیادہ اور جلدی جلدی۔ قاموس میں ہے سَرَفٌ توسط کی ضد۔ صحاح میں ہے سرف کا معنی ہے ہر فعل میں حد سے تجاوز کرنا اللہ نے فرمایا ہے : لَا تُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ قتل میں حد سے تجاوزنہ کرو۔ دوسری آیت ہے : یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ لیکن مال کے صرف میں حد سے تجاوز کرنے پر سرف کا اطلاق زیادہ ہوتا ہے حد سے تجاوز کبھی تو مقدار کے اعتبار سے ہوتا ہے یعنی کثرت ہوجاتی ہے اللہ نے فرمایا ہے : کُلُوْا واَشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا کھاؤ اور پیو اور حد اعتدال سے آگے نہ بڑھو اور کبھی کیفیت کے لحاظ سے حد سے تجاوز ہوتا ہے اسی لیے سفیان ثوری نے فرمایا کہ اللہ کی طاعت سے ہٹ کر جو کچھ بھی خرچ کیا جائے وہ اسراف ہے خواہ اس کی مقدار قلیل ہی ہو۔ اللہ نے فرمایا ہے : اِنَّ الْمُسْرِفِیْنَ ھم اصحاب النار (ا اللہ کی طاعت سے ہٹ کر صرف کرنے والے ہی دوزخی ہیں 2 ۔ ) میں کہتا ہوں اس صورت میں مالدار سرپرست کے لیے یتیم کا مال کھانا خواہ قلیل مقدار میں ہی ہو اسراف ہے اور نادار کے لیے یتیم کا مال اتنا کھا لینا جو دستور کے خلاف ہو 3 اسراف اور افراط کہلائے گا۔ ان یکبروا اس اندیشہ سے وہ بڑے ہوجائیں گے اور اپنا مال تم سے لے لیں گے۔ اِسرافًا اور بدارًادونوں مصدر بمعنی اسم فاعل ہیں اور مقام حال میں ہیں یعنی اسراف اور جلدی کرتے ہوئے دونوں مفعول لہ ٗ بھی ہوسکتے ہیں یعنی اسراف اور جلدی کرنے کی وجہ سے۔ و من کان غنیا فلیستعفف اور جو مالدار ہو وہ یتیم کے مال سے بچتا رہے۔ یتیم کا مال بالکل نہ لے تھوڑ ا نہ بہت استعفاف کے معنی ہیں عفاف سے زیادہ زور ہے عفاف بچنا۔ استعفاف بچتا رہنا۔ ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف اور جو محتاج ہو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت ہے کہ ایک شخص نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا میں محتاج ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میرے زیر پرورش ایک یتیم ہے (جس کا مال موجود ہے) حضور ﷺ نے فرمایا : اپنے یتیم کے مال میں سے کچھ کھالو مگر (حد اعتدال سے) زیادتی نہ کرنا۔ نہ جلدی جلدی ہڑپ کرنا نہ (اپنی مزدوری کے) مال کو بچا کر اس کے مال کو کھانا۔ (رواہ ابو داؤد والنسائی وابن ماجہ) حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے عرض کیا میری گود میں ایک یتیم ہے کیا میں اس کے مال میں سے کھا سکتا ہوں فرمایا : (کھا سکتے ہو) بغیر اس کے کہ اپنے مال کو بچا کر اس کے مال کو کھاؤ اور اپنا مال جمع رکھو۔ (رواہ الثعلبی) مراد یہ ہے کہ یتیم کی تربیت کے معاوضہ کے بقدر کھا سکتے ہو۔ حضرت عائشہ ؓ کا یہی مسلک ہے اور ہم بھی اسی مطلب کو لیتے ہیں۔ عطا اور عکرمہ نے یا کل بالمعروف کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ انگلیوں کے پوروں سے کھائے زیادتی نہ کرے اور (یتیم کے مال میں سے) کپڑے نہ پہنے۔ نخعی نے کہا : یتیم کے مال سے کتان اور صوف خرید کر نہ پہنے صرف بھوک دور کرنے کی بقدر کھالے اور ستر پوشی کے بقدر پہن لے اور ان مصارف میں جتنی رقم آئی ہو اس کی واپسی لازم نہیں۔ حسن بصری اور ایک جماعت علماء نے کہایتیم کے درختوں کے پھل کھا سکتا ہے، اس کے جانور کا دودھ پی سکتا ہے مگر دستور کے موافق اور اس کا معاوضہ لازم نہیں۔ البتہ چاندی سونا نہ لے اگر لے گا تو اس کا معاوضہ ادا کرنا لازم ہے کلبی نے کہا : معروف سے مراد ہے یتیم کی سواری پر سوار ہونا ؟ اس کے خادم سے خدمت لینا یتیم کے مال میں سے کچھ کھانا جائز نہیں۔ بغوی نے اپنی سند سے قاسم بن محمد کی روایت لکھی ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر حضرت ابن عباس سے عرض کیا میرے زیر تربیت ایک یتیم ہے اور اس کے اونٹ ہیں کیا میں ان کا دودھ پی سکتا ہوں ؟ فرمایا : اگر ایسا ہو کہ تم اس کے گم شدہ اونٹوں کو تلاش کرو۔ خارشتی اونٹوں کی مالش کرو ان کے پیاؤ کو درست کرو اور پانی پلانے کے دن ان کو پانی پلاؤ تو ان کا دودھ بھی پی سکتے ہو لیکن اس طرح کہ اونٹوں کے بچوں کو (بھوک کا) ضرر نہ پہنچے اور نہ بالکل تھنوں سے دودھ نچوڑ لیا جائے۔ شعبی نے کہا ایسی مجبوری کے بغیر جس میں آدمی مردار کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے یتیم کا مال نہ کھائے۔ مجاہد اور سعید بن جبیر نے معروف کا ترجمہ قرض کیا ہے یعنی ضرورت ہو تو یتیم کے مال میں سے قرض لے سکتا ہے۔ جب فراخدستی ہو تو واپس کردے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا : میں نے اللہ کے مال (بیت المال) کے معاملہ میں اپنی ذات کو یتیم کے سرپرست کی طرح قرار دے رکھا ہے۔ اگر غنی ہوں گا تو بچتا رہوں گا اور محتاج ہوں گا تو معروف کے ساتھ (یعنی بطور قرض) کھالوں گا اور جب فراخدست ہوں گا تو ادا کردوں گا۔ فاذا دفعتم الیھم اموالھم (یعنی بالغ ہونے اور ہوشیار پانے کے بعد) جب ان کا مال تم ان کو دو ۔ فاشھدوا علیہم تو دیتے وقت شاہد بنا لو۔ یہ حکم استحبابی ہے واجب نہیں ہے تہمت کو دور کرنے اور آئندہ جھگڑے کو کاٹنے کے لیے گواہ بنانا اولیٰ ہے۔ امام شافعی اور امام مالک نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اگر سر پرست یتیم کے بالغ ہونے بعد مال ادا کردینے کا دعویٰ کرے تو بغیر گواہوں کے اسکا دعویٰ قابل قبول نہ ہوگا۔ امام اعظم (رح) نے فرمایا : اگر گواہ نہ ہوں تو اس کا قول قسم کے ساتھ قبول کرلیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے اوپر تاوان عائدکئے جانے کا منکر ہے (اور منکر کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے) اسی مفہوم پر دلالت کررہا ہے آئندہ قول۔ فرمایا : و کفیٰ باللہ حسیبا اور اللہ ہی حساب لینے والا کافی ہے یعنی حساب فہمی کرنے والا۔ بدلہ دینے والا اور شہادت دینے والا اللہ ہی کافی ہے کسی دوسرے گواہ کی ضرورت نہیں بلکہ ولی کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے حقیقت معاملہ کو اللہ کے سپرد کردیا جائے۔ باللہ کفیٰ کا فاعل ہے باء زائد ہے۔ آئندہ آیت کی شان نزول ابو الشیخ ابن حبان نے کتاب الفرائض میں بطریق کلبی ابو صالح کی روایت سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ اہل جاہلیت نہ لڑکیوں کو میراث دیتے تھے نہ بالغ ہونے سے پہلے چھوٹے لڑکوں کو ایک انصاری جن کا نام اوس بن ثابت تھا انتقال ہوگیا اور انہوں نے دو لڑکیاں اور ایک چھوٹا لڑکا چھوڑا اس کے دو چچا زاد بھائی خالد اور عرفجہ تھے دونوں نے آکر ساری میراث پر قبضہ کرلیا اوس کی بیوی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور واقعہ عرض کردیا ارشاد فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ کیا کہوں اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top