Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 84
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْكِیْلًا
فَقَاتِلْ : پس لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ لَا تُكَلَّفُ : مکلف نہیں اِلَّا : مگر نَفْسَكَ : اپنی ذات وَحَرِّضِ : اور آمادہ کریں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّكُفَّ : روک دے بَاْسَ : جنگ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ اَشَدُّ : سخت ترین بَاْسًا : جنگ وَّاَشَدُّ : سب سے سخت تَنْكِيْلًا : سزا دینا
تو (اے محمدﷺ) تم خدا کی راہ میں لڑو تم اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں اور مومنوں کو بھی ترغیب دو قریب ہے کہ خدا کافروں کی لڑائی کو بند کردے اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے
فقاتل فی سبیل اللہ پس آپ اللہ کی راہ میں لڑیں خواہ سب لوگ بیٹھ رہیں کوئی آپ کا ساتھ نہ دے۔ لا تکلف الا نفسک آپ ﷺ مکلف صرف اپنی ذات کے ہیں دوسروں کی مخالفت اور مدد سے بیٹھ رہنا آپ ﷺ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ (1) [ ابن سعد ؓ نے حضرت خالد ؓ بن معدان کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ مجھے سب لوگوں کی طرف (رسول ﷺ بنا کر) بھیجا گیا ہے اگر سب نہ مانیں تو میری بعثت عرب کے لئے ہوگی وہ بھی نہ مانیں تو فارس کے لئے ہوگی اور وہ بھی انکار کردیں تو (صرف) بنی ہاشم کے لئے ہوگی اور بنی ہاشم بھی نہ مانیں تو میری رسالت تنہا میرے لئے ہوگی۔] بغوی نے لکھا ہے کہ غزوۂ احد کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ابوسفیان سے وعدہ کیا تھا کہ ماہ ذیقعدہ میں بدر صغری پر دونوں فریقوں کا پھر مقابلہ ہوگا۔ جب وقت مقرر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی مگر بعض لوگوں نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ نقلہ ابن جریر عن ابن عباس۔ وحرض المومنین اور مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کیجئے۔ آپ کی ذمہ داری صرف پہنچانے اور ترغیب دینے کی ہے) عسی اللہ ان یکف باس الذین کفروا امید رکھو کہ اللہ کافروں کی جنگ کو روک دے گا (یعنی کافر جنگ سے باز رہیں گے (مترجم) چناچہ رسول اللہ ﷺ صرف ستر سواروں کو ساتھ لے کر بدر صغریٰ پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا فانْقَلَبُوْا بِنِعُمَۃٍ مِّنْ اللّٰہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَہُمْ سُوْءٌاللہ کے فضل و کرم سے بغیر کسی قسم کا دکھ اٹھائے سب لوگ (صحیح سالم) واپس آگئے (اور کافر پست ہمت ہو کر رہ گئے) پورا قصہ آل عمران میں گزر چکا ہے۔ واللہ اشد باسا اور اللہ بڑی طاقت اور بڑے دبدبہ والا ہے۔ واشد تنکیلا اور بڑا عذاب دینے والا بھی ہے یعنی قریش وغیرہ کی طرف سے جس سختی کا خطرہ اور خوف ہے اس سے زیادہ سخت اللہ کا عذاب ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کو دھمکی دی ہے جو کافروں کے خوف کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرنے سے گریز کرتے تھے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ فقاتل : میں فاء جوابیہ ہے۔ یہ آیت : وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا کا جواب ہے (یعنی راہ خدا میں جو شخص لڑ کر مارا جائے یا فتح یاب ہوجائے بہرحال ہم اس کو اجر عظیم عطا کریں گے لہٰذا آپ خود اللہ کی راہ میں جہاد کیجئے اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دیجئے)
Top