Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 60
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہا رَبُّكُمُ : تمہارے رب نے ادْعُوْنِيْٓ : تم دعا کرو مجھ سے اَسْتَجِبْ : میں قبول کروں گا لَكُمْ ۭ : تمہاری اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں عَنْ عِبَادَتِيْ : میری عبادت سے سَيَدْخُلُوْنَ : عنقریب وہ داخل ہوں گے جَهَنَّمَ : جہنم دٰخِرِيْنَ : خوار ہوکر
اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کنیاتے ہیں۔ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے
وقال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم دخرین اور تمہارے رب نے فرما دیا ہے کہ مجھے پکارو ‘ میں تمہاری درخواست قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے غرور کی وجہ سے سرتابی کرتے ہیں ‘ وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ اُدْعُوْنِیْ بعض اہل علم نے کہا کہ دعا سے مراد عبادت ہے ‘ یعنی میری ہی عبادت کرو ‘ کسی اور کی پوجا نہ کرو۔ اور عبادت کی جگہ چونکہ دعا کا صیغہ استعمال کیا ہے ‘ اسلئے ثواب کے صیغہ کی جگہ اَسْتَجِبْ فرمایا۔ دعا سے عبادت اور استجابت سے عطاء ثواب مراد ہونے کا قرینہ آئندہ آیت میں عَنْ عِبَادَتِیْ کا لفظ ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ دعا اور عبادت دونوں سے مراد سوال ہے۔ ہر ضرورت کی چیز اللہ ہی سے مانگنا اور کسی دوسرے کی طرف رخ نہ کرنا ہی کمال عبودیت ہے اور اللہ کی بےنیازی اور اپنے محتاج ہونے کا اظہار ہے۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بعض لوگ (ایسے بھی ہیں جو) اپنی ضرورت کی ہر چیز اپنے رب سے ہی مانگتے ہیں ‘ یہاں تک کہ اگر ان کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جاتا ہے تو وہ بھی اپنے رب سے ہی مانگتے ہیں ‘ رواہ الترمذی۔ ثابت بنانی کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں : یہاں تک کہ وہ نمک بھی رب سے ہی مانگتے ہیں ‘ اور جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی (ا اللہ ہی سے) طلب کرتے ہیں۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دعا ہی عبادت ہے۔ پھر حضور ﷺ نے یہ آیت اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ... دٰخِرِیْنَ تک تلاوت فرمائی ‘ رواہ احمد وابو داؤد ورواہ ابن ابی شیبۃ فی المصنف والحاکم فی المستدرک ‘ وابن حبان فی صحیحہ والترمذی وابن ماجۃ والنسائی فی مسندیہما وقال الترمذی حدیث حسن صحیح۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت نعمان نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے ‘ اور یہ فرما رہے تھے ‘ میں نے خود سنا تھا ‘ حدیث مبارک کے جو یہ الفاظ ہیں : ” انّ الدعاء ھو العبادۃ “۔ اس میں ھُوَ ضمیر فصل اور العبادۃ (خبر) پر الف لام لانا حصر پر دلالت کر رہا ہے ‘ اگر مسند الیہ اور مسند کے درمیان ضمیر فصل ذکر کی جائے اور خبر (یعنی مسند) پر الف لام داخل کردیا جائے تو اس کلام میں مسند الیہ (مبتداء) پر مسند (خبر) کا حصر مقصود ہوتا ہے ‘ جیسے اِنَّ اللہ ھُوَ الرَّزَّاق یعنی اللہ کے سوا اور کوئی رازق نہیں ‘ اللہ ہی رازق ہے اور کبھی مسند الیہ کو مسند پر محصور کرنا مقصود ہوتا ہے (یعنی پہلی صورت کے برعکس) جیسے ایک حدیث کے الفاظ ہیں : ” الکرم ھو التقویٰ والحسب ھو الایمان “ یعنی تقویٰ ہی عزت ہے ‘ تقویٰ کے سوا کوئی عزت نہیں ہے اور ایمان ہی نسب ہے ‘ ایمان کے سوا کوئی نسب نہیں۔ حدیث مذکورہ بالا میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں : (ا) دعا ہی عبادت ہے (2) عبادت ہی دعا ہے۔ یہ حصر بطور مبالغہ ہے ‘ شاید اس سے یہ مراد ہے کہ دعا اور عبادت کی حقیقت ایک ہی ہے ‘ صرف مفہوم کا اعتبار ہی فرق ہے۔ ہر دعا اور سوال عبادت و اطاعت ہے۔ سوال میں سائل کی عاجزی اور احتیاج کا اظہار ہوتا ہے اور لغت میں عبودیت اظہار عجز و احتیاج کو ہی کہتے ہیں۔ عبادت کا لفظ عبودیت سے زیادہ بلیغ ہے۔ اظہار عجز کے انتہائی درجہ کا نام عبادت ہے جس کا مستحق سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں۔ اللہ نے خود ارشاد فرمایا ہے : وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِیَّاہ اور ہر عبادت وطاعت سوال ہی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : اکثر دعائی ودعاء الانبیاء قبلی بعرفات لاَ الٰہ الاّ اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علٰی کلّ شیءٍ قدیر۔ رواہ ابن ابی شیبۃ فی المصنف۔ دوسری آیت میں فرمایا ہے : وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلِیْنَ ۔ جزری نے نہایہ میں لکھا ہے : تہلیل (لا الٰہ الا اللہ کہنا) اور تمحید (الحمد اللہ کہنا) کو دعا اسلئے کہا گیا کہ تہلیل وتحمید سے بھی دعاء کی طرح ثواب و جزاء کا استحقاق ہوجاتا ہے ‘ جیسا کہ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ بندہ جب میری تعریف کے شغل میں بجائے سوال کرنے کے لگا رہتا ہے تو میں جتنا مانگنے والے کو دیتا ہوں ‘ اس سے زیادہ اس ثناء کرنے والے کو دیتا ہوں۔ ترمذی اور مسلم نے بیان کیا ہے کہ (ا اللہ نے فرمایا) جس کو قرآن (کی تلاوت) میرے ذکر سے اور مجھ سے سوال کرنے سے باز رکھتی ہے ‘ میں اس کو اتنا دیتا ہوں جو سوال کرنے والوں سے افضل (بہتر اور زیادہ) ہوتا ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے : جس کو قرآن (کی تلاوت) اور میرا ذکر کرنے سے باز رکھتا ہے ‘ الحدیث۔ دعاء کی تفصیل : بعض دعائیں تو فرض ہیں ‘ جیسے نماز کے اندر سورة فاتحہ میں اہدنا الصراط المستقیم پڑھا جاتا ہے۔ بعض دعائیں سنت مؤکدہ ہوتی ہیں ‘ جیسے آخری قعدہ کے آخر میں ‘ یا حج کے مقامات میں دعائیں کی جاتی ہیں۔ بعض دعائیں حرام یا مکروہ ہوتی ہیں ‘ جیسے صرف لذات دنیا کا سوال ‘ یا ایسے کام کیلئے دعا جو گناہ ہے ‘ یا ناممکن بات کی درخواست۔ اللہ نے فرمایا ہے : کچھ لوگ کہتے ہیں : ربّنا آتنا فی الدنیا حسنۃً ۔ ایسی دعا کرنے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ یہ بھی ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ نے جو بعض لوگوں کو بعض چیزوں میں فضیلت عطا فرمائی ہے ‘ تم اس کی تمنا نہ کرو۔ دنیا اور آخرت میں بندہ جس چیز کا محتاج ہے اس کی درخواست اللہ سے کرنی اور ہر شر سے اس کی پناہ مانگی تو ایسی دعا مستحب ہے ‘ اس کا استحبابی حکم دیا گیا ہے۔ علماء کا اس پر اجماع ہے۔ بعض زاہد کہتے ہیں کہ اللہ سے کچھ نہ مانگنا افضل ہے ‘ اس میں تسلیم و رضاء بالقضاء کا زیادہ ظہور ہوتا ہے۔ علماء کا ایک گروہ قائل ہے کہ اگر مسلمانوں کیلئے دعا کی جائے تو اچھا ہے اور اگر صرف اپنے لئے کی جائے تو اچھا نہیں ہے۔ ہمارے مسلک کی دلیل کتاب اللہ ‘ احادیث رسول ﷺ اور اجماع امت ہے۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دعا سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے نزدیک عزت والی نہیں ہے ‘ رواہ الترمذی وقال حسن غریب۔ ابن ماجہ اور حاکم نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دعاء عبادت کا مغز ہے ‘ رواہ الترمذی۔ حضرت ابن مسعود راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ سے اس کا فصل طلب کرو ‘ کیونکہ اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور بہترین عبادت کشائش کا انتظار ہے ‘ رواہ الترمذی وقال ہذا حدیث غریب۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا ‘ اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے ‘ رواہ الترمذی وابن حبان والحاکم ‘ ترمذی نے اس کو حدیث غریب کہا ہے۔ اس طرح کی حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص غرور کی وجہ سے اللہ سے سوال نہیں کرتا ‘ اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے۔ یہی مطلب ہے آیت : اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ کا۔ حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دعا کرنے میں کمزوری نہ کرو ‘ دعا کی موجودگی میں اللہ کسی کو ہلاک نہیں کرے گا ‘ رواہ ابن حبان والحاکم۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دعا مؤمن کا ہتھیار ہے ‘ دین کا ستون ہے ‘ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ‘ رواہ الحاکم فی المستدرک۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کیلئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا ‘ اس کیلئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے اور اللہ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ‘ سب سے مرعوب اسکے نزدیک یہ ہے کہ عافیت کی درخواست کی جائے ‘ رواہ الترمذی۔ حاکم کی مستدرک میں بجائے رحمت کے دروازوں کے ” جنت کے دروازے کھول دئیے گئے “ آیا ہے۔ فصل : دعاء کو قبول کرنے کا وعدہ۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس کیلئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا ‘ اس کیلئے قبولیت کے دروازے کھول دئیے گئے ‘ رواہ ابن ابی شیبۃ۔ حضرت سلمان راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا رب بڑا حیادار اور کریم ہے۔ جب بندہ اسکے سامنے ہاتھ اونچے کرتا (یعنی پھیلاتا) ہے تو اس کو اپنے بندے کے خالی ہاتھ واپس کرتے شرم آتی ہے ‘ رواہ الترمذی وابو داؤد والبیہقی فی الدعوات الکبیر۔ حضرت ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں گناہ نہ ہو ‘ نہ حق قرابت کا انقطاع ہو تو اللہ تین چیزوں میں سے ایک چیز اس کو ضرور عطا فرماتا ہے : (ا) یا اس کی دعا جلد پوری کردیتا ہے (2) یا آخرت کیلئے اس کو جمع رکھتا ہے (3) یا اس سے دعا کے برابر برائی کو دور کردیتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! خواہ ہم بہت سی دعائیں کریں (تب بھی یہ معاوضہ ملے گا) فرمایا : اللہ کے پاس بہت کچھ ہے (وہ ضرور عطا فرمائے گا) رواہ احمد۔ حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دعا ان (آفات) سے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہوچکی ہوتی ہیں اور ان (آفات و مصائب) سے بھی جو وقت دعا تک نازل نہیں ہوتیں (بلکہ آئندہ نازل ہونے والی ہوتی ہیں) اے اللہ کے بندو ! دعا کا التزام کرو ‘ رواہ الترمذی۔ امام احمد نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی اللہ سے دعا کرتا ہے ‘ اللہ اسکا سوال پورا کرتا ہے ‘ یا بقدر سوال کسی دکھ کو اس سے روک دیتا ہے بشرطیکہ دعا کسی گناہ یا قطع قرابت کی نہ ہو ‘ رواہ الترمذی۔ فصل : کسی کی دعا رد نہیں کی۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین دعائیں مقبول ہوتی ہیں جن کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں : باپ کی دعا ‘ مظلوم کی دعا ‘ مسافر کی دعا ‘ رواہ الترمذی وابو داؤد وابن ماجۃ۔ یہ بھی حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین ہیں جن کی دعا رد نہیں کی جاتی : (1) روازہ دار کی دعا افطار کے وقت (2) امام عادل کی دعا (3) مظلوم کی دعا۔ مظلوم کی بددعا بادلوں سے اوپر اٹھا لی جاتی ہے اور آسمان کے دروازے اس کیلئے کھول دئیے جاتے ہیں اور رب فرماتا ہے : مجھے اپنی عزت کی قسم ! میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہو ‘ رواہ الترمذی۔ حضرت ابو درداء راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کی دعا اپنے (مسلمان) بھائی کیلئے اس کی غیرحاضری میں (یعنی پس پشت) قبول ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے بھائی کیلئے خیر کی دعا کرتا ہے تو جو فرشتہ اس کے سر کے پاس کھڑا ہوتا ہے ‘ وہ آمین کہتا ہے (یعنی اللہ تیرے بھائی کیلئے ایسا ہی کر دے اور تیرے لئے بھی ایسا ہی ہوجائے) رواہ مسلم۔ حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ دعائیں قبول کی جاتی ہیں : مظلوم کی دعا اس وقت تک کہ اس کا انتقام مل جائے ‘ حاجی کی دعا وقت واپسی تک ‘ بیمار کی دعا صحت مند ہونے تک ‘ بھائی کی دعا اپنے بھائی کیلئے غائبانہ۔ پھر فرمایا : سب سے زیادہ جلد قبول ہونے والی یہی بھائی کیلئے غائبانہ دعا ہے ‘ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر۔ حضرت عبد اللہ بن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جلد ترین قبول ہونے والی وہ دعا ہے جو غائب (مسلمان) کیلئے اسکے پس پشت کی جائے ‘ رواہ الترمذی وابو داؤد۔ فصل : قبولیت دعا کی شرطیں : (1) کھانے پینے اور پہننے میں حرام چیز سے پرہیز۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی طویل سفر کرتا ہے ‘ بال پراگندہ اور غبار آلود ہوتے ہیں ‘ ایسی حالت میں وہ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعا کرتا ہے اور کہتا ہے : اے رب ! اے رب ! لیکن اس کا کھانا حرام کا ‘ پینا حرام کا اور لباس حرام کا ہوتا ہے ‘ اور مال حرام سے ہی اس کی پرورش ہوتی ہے تو دعا کیسے قبول ہو ؟ رواہ مسلم۔ (2) دعا میں حضور قلب ہونا ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبول ہونے کا یقین رکھتے ہوئے دعا کیا کرو۔ خوب سمجھ لو کہ غافل دل کی دعا اللہ قبول نہیں کرتا ہے ‘ رواہ الترمذی وقال ہذا حدیث غریب۔ (3) قطعی دعا کی جائے۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یوں نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے ‘ بلکہ عزم رکھے (کہ اللہ اس کی دعا قبول کرے گا) اور بڑی رغبت کے ساتھ دعا کرے ‘ کیونکہ اللہ جو کچھ عطا فرماتا ہے ‘ اس کیلئے وہ چیز بڑی نہیں ہوتی ‘ رواہ مسلم۔ فصل : دعا کے آداب : حضرت فضالہ بن عبید راوی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ (مسجد میں) تشریف فرما تھے۔ ایک شخص آیا ‘ آکر نماز پڑھی اور نماز کے بعد کہا : اے اللہ ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اے نماز پڑھنے والے ! تو نے (دعا کرنے میں) جلدی کی ‘ جب تو نماز پڑھ چکے اور بیٹھ جائے تو (پہلے) ان صفات کے ساتھ جن کا اللہ مستحق ہے ‘ اس کی حمد کر (پھر) مجھ پر درود بھیج ‘ پھر دعا کر۔ راوی کا بیان ہے : پھر ایک اور شخص نے آکر نماز پڑھی ‘ نماز کے بعد اللہ کی حمد کی اور رسول اللہ ﷺ کیلئے دعاء رحمت کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اب تیری دعا قبول کی جائے گی ‘ رواہ الترمذی وروی ابو داؤد والنسائی نحوہ۔ حضرت ابن مسعود کا بیان ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا ‘ جب میں نے (آخری) قعدہ کیا تو اول اللہ کی ثناء کی ‘ پھر رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجا ‘ پھر اپنے لئے دعا کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : مانگ (جو مانگے گا) تجھے دیا جائے گا ‘ رواہ الترمذی۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا : دعا آسمان و زمین کے درمیان روکی رکھی جاتی ہے۔ جب تک تو اپنے نبی ﷺ پر درود نہ پڑھے ‘ دعا کا کوئی حصہ اوپر نہیں چڑھتا ‘ روہ الترمذی۔ حضرت مالک بن یسار راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اللہ سے دعا کرو تو ہتھیلیوں کو پھیلا کر دعا کرو ‘ ہتھیلیوں کی پشت کی طرف سے نہ مانگو۔ حضرت ابن عباس کی روایت میں آیا ہے کہ ہتھیلیوں کی طرف سے مانگو ‘ ہتھیلیوں کی پشت کی طرف سے نہ مانگو ‘ اور دعا سے فاعغ ہوجاؤ تو ہتھیلیاں منہ پر پھیرلیا کرو۔ حضرت عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا میں جب دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے تو اس وقت تک نیچے نہیں گراتے تھے جب تک کہ منہ پر نہیں پھیر لیتے تھے ‘ رواہ الترمذی۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کے جامع الفاظ کو پسند فرماتے تھے اور دوسرے الفاظ کو نظرانداز کرتے تھے ‘ رواہ ابو داؤد۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا میں اتنے ہاتھ اٹھاتے تھے کہ دونوں بغلوں کی سفیدی دکھائی دے جاتی تھی۔ سائب بن یزید نے اپنے باپ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب دعا کرتے تھے تو (دعا کے بعد) دونوں ہاتھ اٹھا کر منہ پر پھیر لیتے تھے ‘ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا کہ دعا (کی شکل) یہ ہے کہ دونوں مونڈھوں تک یا ان کے قریب تک تم اپنے دونوں ہاتھ اٹھا لو ‘ رواہ ابو داؤد۔ حضرت ابن عمر فرماتے تھے کہ (دعا میں) تمہارا ہاتھوں کو اوپر اٹھانا بدعت ہے ‘ رسول اللہ ﷺ اس سے یعنی سینہ سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ‘ رواہ احمد۔ حضرت ابی بن کعب کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کا ذکر کرتے اور اس کیلئے دعا فرماتے تو شروع اپنی ذات (کیلئے دعا) سے کرتے تھے ‘ رواہ الترمذی وقال ہذا حدیث حسن غریب صحیح۔
Top