Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 34
وَ لِبُیُوْتِهِمْ اَبْوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیْهَا یَتَّكِئُوْنَۙ
وَلِبُيُوْتِهِمْ : اور ان کے گھروں کے لیے اَبْوَابًا : دوازے وَّسُرُرًا : اور تخت عَلَيْهَا : اس پر يَتَّكِئُوْنَ : وہ تکیہ لگاتے ہوں
اور ان کے گھروں کے دروازے بھی اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ہیں
ولبیوتھم ابوابا وسررا علیھا یتکؤن۔ اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں اور سامان آرائش بھی ‘ سب کچھ (چاندی کا کردیتے) ۔ النَّاس یعنی سب لوگ۔ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ایک گروہ ‘ یعنی آخرت کی طرف سے یہ غفلت اور پیش نظر دنیا کی محبت کی وجہ سے سب لوگوں کے کافر بن جانے کا اگر خیال نہ ہوتا۔ سُقُفًا یہ سَقْفٌ کی جمع ہے ‘ جیسے دَھْنٌ کی جمع دُھُنٌ آتی ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : کوئی تیسری مثال ایسی نہیں کہ فَعْلٌ کی جمع فُعْلٌ آئی ہو۔ بعض کے نزدیک سُقُفٌ‘ سَقِیْفٌ کی جمع ہے۔ بعض کے نزدیک سَقُوْفٌ کی جمع الجمع ہے۔ مَعَارِجَ سیڑھیاں ‘ زینے۔ عَلَیْھَا یَظْھَرُوْنَ یعنی چھتوں پر زینہ سے چڑھ کر پہنچ جاتے۔ وَسُرُرًا اور چاندی کے تخت۔ سُرُرٌ‘ سریر کی جمع ہے۔ زُخْرُفًا زینت ‘ سجاوٹ۔ دوسری آیت میں اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ میں بھی زخرف کا معنی زینت ہے۔ کافروں کیلئے عیش دنیا کو مخصوص کردینے کی یہ وجہ ہے کہ اللہ کی نظر میں دنیا قابل نفرت چیز ہے اور کافر بھی عند اللہ قابل نفرت ہیں ‘ پس قابل نفرت ‘ مکروہ چیز کو قابل نفرت لوگوں کیلئے مخصوص کردیا۔
Top