Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 35
وَ زُخْرُفًا١ؕ وَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
وَزُخْرُفًا : اور سونے کے وَاِنْ كُلُّ : اور بیشک سب ذٰلِكَ : سامان ہے لَمَّا : اگرچہ مَتَاعُ : سامان ہے الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی کا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے ہاں لِلْمُتَّقِيْنَ : متقی لوگوں کے لیے ہے
اور (خوب) تجمل وآرائش (کردیتے) اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے۔ اور آخرت تمہارے پروردگار کے ہاں پرہیزگاروں کے لئے ہے
وزخرفا وان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا والاخرۃ عند ربک للمتقین اور نہیں ہے یہ سب (چاندی کی چھتیں اور سیڑھیاں اور دروازے اور تخت اور سامان آرائش) مگر دنیوی زندگی کا سر و سامان اور آخرت آپ کے رب کے نزدیک پرہیزگاروں کیلئے ہے۔ وَاِنْ- اِنْ نافیہ ہے۔ لِمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ لَمَّا استثنائیہ ہے یعنی نہیں ہے ‘ مذکورہ بالا سارا سامان مگر اس زندگی کا اسباب عیش ہے۔ جو قریب زوال ہے ‘ باقی رہنے والی نہیں ہے ‘ اللہ کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ الاٰخِرَۃ دار آخرت ‘ پچھلا مکان۔ عِنْدَ رَبِّکَ یعنی اللہ کے علم اور فیصلہ میں۔ لِلْمُتَّقِیْنَ یعنی ان لوگوں کیلئے دار آخرت ہے جو شرک و معاصی سے پرہیز کرتے ہیں۔ آیت والاٰخرۃ عند ربّک للمتّقین دلالت کر رہی ہے کہ عظیم وہ ہے جو آخرت میں عظیم ہو۔ دنیوی برائی ہیچ ہے۔ درپردہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ آسائش اور آرائش دنیا ساری کی ساری مؤمنوں ہی کو نہیں دی گئی ‘ بلکہ اللہ کے دشمنوں کو بھی اس میں حصہ دار بنایا گیا ہے کیونکہ دنیا اللہ کی نظر میں مبغوض ہے۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سب لوگ کافر ہوجائیں گے تو دنیا پوری کافروں کیلئے مخصوص کردی جاتی اور اگر دنیا اللہ کے نزدیک اچھی اور پسندیدہ ہوتی تو کافروں کا ادنیٰ حقیر حصہ بھی اس میں نہ رکھا جاتا۔ حضرت سہل بن سعد راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اللہ کے نزدیک دنیا کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتا تو کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی اللہ نہ دیتا۔ دوسری روایت میں گھونٹ کی بجائے ” بوند “ کا لفظ آیا ہے (رواہ الترمذی والضیاء) حضرت مستورد بن شداد فہری کا بیان ہے : میں ان سواروں میں شامل تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب ایک مردہ بکری کے بچہ پر جمع تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگ دیکھ رہے ہو کہ اس کو بےقدر سمجھ کر گھر والوں نے یہاں پھینک دیا ہے ؟ حاضرین نے عرض کیا : جی ہاں ‘ بےقدر سمجھ کر اس کو یہاں پھینکا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : جتنا یہ گھر والوں کی نظر میں بےقدر ہے ‘ اس سے زیادہ اللہ کے نزدیک دنیا بےقدر ہے ‘ رواہ البغوی۔ ابو نعیم نے لکھا ہے کہ داؤد بن ہلال حنبی نے کہا : حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں لکھا ہوا ہے : اے دنیا ! تو نیکوں کے سامنے آراستہ ہو کر آتی ہے ‘ لیکن تو ان کی نظر میں بہت حقیر ہے ‘ میں نے ان کے دلوں میں تیری نفرت اور تیری طرف سے بےرخی ڈال دی ہے تجھ سے زیادہ ذلیل میں نے اور کوئی مخلوق نہیں پیدا کی ‘ تو ہر حالت میں حقیر ہے (تیرا انجام فنا ہے) فنا کی طرف تو جا رہی ہے۔ جس روز میں نے تجھے پیدا کیا تھا ‘ اسی روز فیصلہ کردیا تھا کہ نہ تو کسی کیلئے ہمیشہ رہے گی ‘ نہ کوئی تیرے لئے ہمیشہ رہے گا ‘ خواہ تیرا حامل کتنا ہی تیرا حریص ہو اور کتنا ہی تیرے سلسلہ میں کنجوس ہو۔ خوشی ہو ان نیکوکاروں کیلئے جو (میری) خوشنودی پر قائم رہ کر اندرون قلب سے مجھے دیکھتے اور صدق و استقامت پر قائم رہ کر اپنے ضمیر سے میری طرف جھانکتے ہیں۔ خوب ہے ان کیلئے وہ ثواب جو میرے پاس ہے۔ جب وہ قبروں سے اٹھ کر میری طرف آئیں گے تو ان کا نور ان کے آگے آگے (اور دائیں طرف) دوڑتا ہوا آئے گا اور ملائکہ ان کو گھیرے ہوئے ہوں گے۔ اس وقت میں ان کو اپنی اس رحمت تک پہنچا دوں گا جس کے وہ امیدوار تھے۔ حضرت جابر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ ملعون ہے ‘ سوائے اس چیز کے جو اللہ کی طرف سے ہے (یعنی ہدایت ‘ ایمان ‘ اسلام ‘ کتب الہٰیہ ‘ ملائکہ وغیرہ) رواہ الضیاء۔ ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور طبرانی نے الاوسط میں صحیح سند سے حضرت ابن مسعود کے حوالہ سے بھی یہ حدیث اسی طرح بیان کی ہے ‘ صرف اتنا فرق ہے کہ آخری استثنائیہ فقرہ کی بجائے یہ الفاظ ہیں : اللہ کا ذکر اور اللہ کے ذکر کے لوازم اور عالم اور طالب علم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ بزار نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے استثنائیہ فقرہ اس طرح نقل کیا ہے : سوائے بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے ‘ یا اللہ کے ذکر کے۔ طبرانی نے الکبیر میں حضرت ابو درداء کی روایت سے آخری فقرہ اس طرح نقل کیا ہے : سوائے اس (عمل و قول) کے جس سے اللہ کی خوشنودی کی طلب مقصود ہو۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا اس کا گھر ہے جس کا آخرت میں (بہشت کے اندر) کوئی گھر نہیں اور یہ اس کیلئے مال ہے جس کا (خرت میں) کوئی مال نہیں۔ اس کو وہی جمع کرتا ہے جس کے اندر عقل نہیں ‘ رواہ احمد والبیہقی ‘ بیہقی نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے اس کو موقوفاً بھی نقل کیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا مؤمن کا قید خانہ اور اس کا خفیف سا خواب ہے۔ جب وہ دنیا کو چھوڑ جاتا ہے تو قید خانہ سے اور خواب سے چھوٹ جاتا ہے ‘ رواہ احمد والطبرانی والحاکم فی المستدرک و ابونعیم فی الحیلۃ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا مؤمن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے ‘ رواہ احمد والترمذی وفی مسلم فی الصحیح۔ بیہقی اور حاکم نے حضرت سلمان کی روایت سے اور بزار نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بھی یہ حدیث بیان کی ہے۔ حدیث سے مراد یہ ہے کہ مؤمن خواہ کتنے ہی عیش دنیوی میں ہو ‘ لیکن آخرت میں جو ثواب اس کیلئے مقرر کیا گیا ہے ‘ اس کے مقابلہ میں یہ عیش دنیا ایک قید خانہ ہے اور کافر اس زندگی میں خواہ کتنے ہی دکھ اور مصیبت میں ہو ‘ لیکن آخرت میں جو عذاب اس کیلئے مقرر کیا گیا ہے ‘ اس کے مقابلہ میں یہ دنیوی دکھ اس کیلئے جنت ہے۔ وا اللہ اعلم ایک سوال مؤلف مسند الفردوس نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنیا اہل آخرت کیلئے حرام ہے اور آخرت اہل دنیا کیلئے حرام ہے اور دنیا و آخرت (دونوں) اہل اللہ کیلئے حرام ہیں ‘ اس کا کیا مطلب ہے ؟ جواب میرے نزدیک حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اہل آخرت یعنی مؤمنوں کیلئے دنیا کی محبت حرام ہے ‘ یہ معنی نہیں کہ دنیا سے بہرہ اندوز ہونا حرام ہے ‘ کیونکہ اللہ نے فرمایا : قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللہ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ (ا اللہ نے اپنے بندوں کیلئے دنیوی زیبائش اور پاکیزہ رزق حرام نہیں کیا ‘ ہاں قیامت کے دن یہ عیش و لذت مؤمنوں کیلئے مخصوص ہے) اب جو دنیا کی محبت میں مبتلا ہوتا ہے ‘ وہ اپنی آخرت خراب کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : جس نے اپنی دنیا سے محبت کی ‘ اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے اپنی آخرت سے پیار کیا ‘ اس نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا۔ تم غیر فانی (آخرت) کو فانی (دنیا) پر ترجیح دو (یعنی آخرت کو اختیار کرو) رواہ احمد والحاکم فی المستدرک عن ابی موسیٰ ۔ آخرت سے مراد ہیں آخرت کی خوش نصیبیاں ‘ لذتیں ‘ اہل دنیا یعنی کفار جن کا مقصد صرف دنیا کا حصول ہے ‘ آخرت کی لذتیں ان کیلئے حرام ہیں ‘ آیت مِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَالَہٗ فِی الْاَٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ میں یہی لوگ مراد ہیں۔ باقی دنیا و آخرت یعنی دونوں کی محبت اہل اللہ کیلئے حرام ہے۔ اہل اللہ کے دلوں میں اللہ کی محبت ایسی رچی بسی ہوتی ہے کہ دوسری طرف وہ گوشۂ چشم سے بھی نہیں دیکھتے ‘ ان کے دلوں کی توجہ کسی اور طرف ہوتی ہی نہیں۔ روایت میں آیا ہے کہ رابعہ بصریہ ایک ہاتھ میں پانی سے بھرا ہوا کوئی برتن اور دوسرے ہاتھ میں آگ کا ٹکڑا پکڑے جا رہی تھیں ‘ کسی نے پوچھا : آپ کہاں جا رہی ہیں ؟ فرمایا : میں چاہتی ہوں کہ اس پانی سے دوزخ کی آگ بجھا دوں اور اس آگ سے جنت کو جلا دوں تاکہ جنت کے لالچ اور دوزخ کے خوف سے کوئی شخص اللہ کی عبادت نہ کرے ‘ بلکہ محض لوجہ اللہ عبادت کرے۔ مجدد الف ثانی نے فرمایا : رابعہ کا یہ قول سکر پر مبنی تھا۔ سلوک کی دنیا میں تو مؤمن کا فرض ہے کہ جنت کا خواہشمند ہو ‘ صرف اس وجہ سے کہ رحمت خداوندی کا مقام ہے اور دوزخ سے اللہ کی پناہ کا طلبگار ہو ‘ کیونکہ دوزخ اللہ کی ناراضگی اور غضب کا محل ہے۔ مؤمن کو فی نفسہٖ نہ جنت کی تمنا ہوتی ہے ‘ نہ دوزخ کا ڈر ‘ اس کی رجاء و بیم کی بناء اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک مرکز رحمت اور دوسرا مقام غضب ہے (پس حقیقت میں جنت کی طلب رحمت خداوندی کی طلب اور دوزخ کا خوف اللہ کے غضب کا خوف ہوتا ہے ‘ مترجم) ۔ ایک سوال سامان دنیا سے بہرہ اندوز ہونا جائز ہے ‘ بشرطیکہ اللہ اور اس کے بندوں کی حق تلفی نہ ہو۔ اور طلب معاش جائز بلکہ فرض ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : حلال (روزی) کی طلب فرض (الٰہی) ادا کرنے کے بعد فرض ہے۔ رواہ الطبرانی والبیہقی عن ابن مسعود۔ پھر دنیا اور محبت دنیا کی حرمت کا کیا معنی ؟ جواب دنیا کی محبت کا یہ مطلب ہے کہ آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے لگے ‘ دنیا کمانے اور دنیوی عیش حاصل کرنے میں اتنا انہماک ہوجائے کہ حصول ثواب اور خوف عذاب سے غفلت ہوجائے ‘ مال جمع کرنے کی اتنی حرص پیدا ہوجائے کہ لمبی لمبی آرزوؤں میں گرفتار ہوجائے ‘ دولت مندوں کو ناداروں سے بہتر سمجھنے لگے ‘ اہل ثروت کی تعظیم محض اس وجہ سے کرنے لگے کہ وہ سرمایہ دار ہیں۔ کسی مضرت کو دفع کرنے یا احسان کا بدلہ دینے یا کسی اور جائز شرعی مقصد کے زیر اثر امیوں کی تعظیم نہ ہو ‘ محض ان کی دولت کی وجہ سے ہو ‘ یا امراء کی تعظیم و تکریم کر کے (ان کا قرب حاصل کرنے کے بعد) اپنا عروج اور بالا دستی چاہتا ہو ‘ یا تعمیر کو تخریب سے بدلنے کا خواستگار ہو اور ملک میں تباہی پھیلانا چاہتا ہو ‘ تو یہ سب صورتیں جائز ہیں۔ لیکن جو لوگ تجارت اور خریدو فروخت میں پھنس کر اللہ کی یاد اور اداء صلوٰۃ سے غافل نہ رہتے ہوں اور روز حشر سے ہر وقت خوفزدہ ہوں ‘ ان کیلئے کسب معاش حرام نہیں ہے۔ اگر تحصیل مال سے ان کا مقصد اپنی اور اپنے اہل و عیال کی پرورش اور ان کے حقوق کی ادائیگی ہو ‘ یا عبادت کیلئے جسمانی قوت حاصل کرنا ‘ یا اللہ کی راہ میں مستحقوں کو دینا مقصود ہو تو کسب معاش ان کیلئے مکروہ نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں واجب اور بعض صورتوں میں مستحب اور بعض صورتوں میں مباح ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو آدمی حلال مال کمائے ‘ پھر اس میں سے خود کھائے یا پہنے اور اس کے بعد اللہ کی مخلوق کو کھلائے پہنائے جو اس سے قریبی تعلق رکھتی ہو تو یہ عمل اس کیلئے (گناہوں سے) پاکی کا ذریعہ ہوجائے گا ‘ رواہ ابن حبان فی صحیحہ من حدیث ابی سعید۔
Top