Tafseer-e-Mazhari - Al-Fath : 3
وَّ یَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِیْزًا
وَّيَنْصُرَكَ : اور آپ کو نصرت دے اللّٰهُ : اللہ نَصْرًا : نصرت عَزِيْزًا : زبردست
اور خدا تمہاری زبردست مدد کرے
وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ اور اللہ آپ کو (ایسا) غلبہ دے۔ ایک شبہ ینصر کا عطف لیغفر پر ہے اور مغفرت ‘ فتح پر مرتب ہے (یعنی فتح پہلے اور مغفرت اس کے بعد ہے) خواہ اس کو جہاد اور کوشش کا نتیجہ قرار دیا جائے یا شکر اور استغفار کا سبب ‘ بہرحال مغفرت کا ترتب فتح پر ہوگا اور چونکہ ینصر کا عطف یغفر پر ہے ‘ اسلئے ضروری ہے کہ نصرت کا ترتب بھی فتح پر ہو (یعنی فتح کے بعد نصرت کا وقوع ہو) مگر معاملہ برعکس ہے۔ نصرت ‘ فتح پر مقدم ہے کیونکہ سبب فتح ‘ نصرت ہے۔ ازالہ اگر فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے تو ظاہر ہے کہ صلح بتعمیل حکم خداوندی ہوئی اور تعمیل حکم خداوندی ‘ نزول نصرت کا سبب ہے اور اگر فتح سے مراد فتح مکہ ہو تو آیت میں فتح کا وعدہ ہوگا اور وعدہ ‘ نصرت کا سبب ہے اور نصرت ‘ فتح پر مقدم ہے۔ نصرًا عزیزًا جس میں عزت ہی عزت ہے۔ یعنی جس کی وجہ سے وہ شخص عزت یاب ہوجائے جس کی نصرت کی گئی ہو (اصل میں عزت پانے والا وہ شخص ہوتا ہے جس کی مدد کی جائے) نصرت کو عزت والا قرار دینا بطور مبالغہ ہے ‘ یا عزیزًا سے مراد ہے ایسی نصرت جس میں غلبہ اور قوت ہو۔ شیخین نے صحیحین اور ترمذی و حاکم نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ حدیبیہ سے واپسی میں صحابہ بہت کبیدہ خاطر اور غمگین تھے ‘ اس وقت آیت اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاالخ نازل ہوئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : مجھ پر (آج) ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو (ساری) دنیا سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ جب حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھی تو ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! مبارک ہو ‘ اللہ نے وہ بات آپ پر ظاہر کردی جو ہمارے ساتھ اللہ کرنے والا ہے۔ اس وقت آیت ذیل فوزًا عظیمًا تک نازل ہوئی۔
Top