Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
مومنو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتیں) تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر قرآن کے نازل ہونے کے ایام میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر بھی کر دی جائیں گی (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے
یا ایہا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء اے ایمان والو ! ایسی فضول باتیں مت پوچھو۔ یعنی ایسی باتیں مت پوچھا کرو جن کا کرنا تم پر دشوار ہو جیسے ہر سال حج کرنے کا سوال حج کے متعلق سوال کرنے والے حضرت عکاشہ بن محصن تھے ابن جریر نے حضرت ابوہریرہ ؓ کے حوالہ سے یہی لکھا ہے۔ خلیل ‘ سیبویہ اور جمہور اہل بصرہ کے نزدیک لفظ اشیاء اسم جمع ہے یعنی لفظاً مفرد اور معنی جمع ہے اس لفظ کی اصل شیئاءٌ تھی بروزن فَعْلَاءٌ جیسے حمراء دونوں ہمزوں کے درمیان الف تھا اور چونکہ دوسری ہمزہ تانیث کی ہے اس لئے یہ لفظ غیر منصرف ہے۔ دو ہمزوں کا اجتماع چونکہ ثقیل تھا اس لئے اوّل ہمزہ کو (جو لام کلمہ کی جگہ پر تھی) اس کی جگہ سے ہٹا کر شروع میں لے آئے اب اس کا وزن لفعاۂ ہوگیا بعض اشیاء کی اصل اَشْیِءَآءٌبروزن اَفْعِلَاءٌ تھی یہ شی کی جمع ہے شَئٌ اصل میں شَیِّءٌتھی یا شَِّیءٌ بروزن صدیقٌتھی۔ بعض لوگوں نے کہا جس طرح ابیات بیت کی جمع ہے اسی طرح اشیاء بروزن افعال شیءٌکی جمع ہے اور شیءٌ بغیر کسی تعلیل کے اپنی اصل پر ہے۔ چونکہ غیر منصرف ہونے کے دو سبب اس میں موجود نہیں ہیں اسلئے اس لفظ کا عدم انصراف شاذ ہے۔ ان تبدلکم تسوکم کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تم کو ناگوار گزریں یعنی اگر تم کو ان باتوں کے کرنے کا حکم دے دیا جائے تو تم پر دشواری آپڑے۔ وان تسئلو عنہا حین ینزل القرآن تبدلکم اور قرآن اترنے کے زمانہ میں تم ایسی باتیں دریافت کرو تو تم سے ظاہر کردی جائیں یعنی رسول کی زندگی میں اگر تم ایسی باتیں پوچھو تو احتمال ہے کہ ظاہر کردی جائیں اور تم کو ان سخت احکام کی تعمیل پر مامور کردیا جائے دونوں شرطیہ جملے یعنی ان تبدلکم اور ان تَسْءَلُوْا اشیاء کی صفت ہیں۔ مطلب یہ کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ تمہارے پوچھنے کے بعد یہ دو نتیجے برآمد ہونے کا احتمال ہو۔ مسئلہ امر کا صیغہ بغیر قید کے احناف کے نزدیک نہ تکرار عمل کا موجب ہے نہ تکرار کا احتمال رکھتا ہے (یعنی بغیر قید کے امر کا صیغہ ہو تو صرف ایک مرتبہ تعمیل حکم کو چاہتا ہے دوبارہ تعمیل کا مقتضی نہیں اگر ایک مرتبہ امر کے مطابق عمل کرلیا جائے تو وجوب ساقط ہوجاتا ہے بلکہ دوبارہ وجوب عمل کا احتمال بھی نہیں ہوتا) پس رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد لوقلت نعم لوجبت اور آیت اِنْ تُبْدَلْکُمْ تسوْکمکا مطلب یہ ہے کہ حج کا وجوب (جو عمر بھر میں ایک بار تھا اور دوسرے احکام کا وجوب جن کی ادائیگی عمر بھر میں ایک دفعہ کافی تھی) رسول اللہ ﷺ کے نعم فرمانے اور تمہارے سوال کی وجہ سے احکام کے بوضاحت بیان کے بعد منسوخ ہوجاتا گویا امر مطلق منسوخ ہوجاتا اور رسول اللہ کا فرمان مذکور اور آیت مندرجہ امر مطلق کی ناسخ ہوجاتی آیت مذکورہ کو امر مطلق کا بیان نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ اگر اس کو بیان کہا جائے گا تو ظاہر ہے کہ قبل از سوال بیان نہ ہوگا بلکہ سوال کے بعد ہوگا حالانکہ بیان کی ضرورت سوال سے پہلے بھی تھی اور وقت ضرورت سے بیان کا تاخر جائز نہیں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ بیان (جدید نزول حکم پر موقوف نہیں بلکہ) عقل ‘ غور اور تلاش لغت سے بھی ہوجاتا ہے (مگر نسخ بغیر حکم جدید کے نہیں ہوتا) اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ مجمل یا مشکل یا خفی کے متعلق سوال کرنے میں کوئی ہرج نہیں (نہ اس کی ممانعت آیت سے مستفاد ہے) رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد ہے عاجز کی شفا پوچھ لینا ہے۔ درحقیقت ممانعت ایسے حکم کو دریافت کرنے کی ہے جو (مثبت منفی کسی طور پر) شریعت میں نہیں آیا (اور خواہ نخواہ سوال کرنے کا یہ نتیجہ نکلے کہ حکم نازل ہوجائے) جیسے ہر سال حج کرنے کے متعلق سوال یا بنی اسرائیل کو جو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اس کے رنگ کے متعلق سوال۔ عفی اللہ عنہا ایسی چیزیں جن کو اللہ کرنے کا حکم دینے سے اللہ نے درگزر کی ہو یہ بھی ترجمہ ہوسکتا ہے کہ جو کچھ تم سوال کرچکے اللہ نے اس کو تو معاف کردیا آئندہ پھر ایسا نہ کرنا۔ اس صورت میں یہ جملہ استینافیہ ہوگا (یعنی ترکیب لفظی کے اعتبار سے کلام سابق سے مربوط نہ ہوگا) واللہ غفور رحیم اور اللہ بڑی مغفرت اور بڑے حلم والا ہے یعنی معاف کردیتا ہے اگر تمہاری طرف سے قصور یا زیادتی ہوجائے تو فوراً سزا نہیں دیتا۔
Top