Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 105
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں لَا يَضُرُّكُمْ : نہ نقصان پہنچائے گا مَّنْ : جو ضَلَّ : گمراہ ہوا اِذَا : جب اهْتَدَيْتُمْ : ہدایت پر ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا ہے جَمِيْعًا : سب فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اے ایمان والو! اپنی جانوں کی حفاظت کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا تم سب کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے اس وقت وہ تم کو تمہارے سب کاموں سے جو (دنیا میں) کئے تھے آگاہ کرے گا (اور ان کا بدلہ دے گا)
یا ایہا الذین امنوا علیکم انفسکم : (1) [ عفرہ کے آزاد کردہ غلام عمر کی روایت سے ابن ابی حاتم نے لکھا ہے کہ آیت یایہا الذین امنوا علیکم انفسکم کی وجہ نزول یہ ہے کہ بعض لوگ خود تو مسلمان ہوجاتے تھے مگر ان کے باپ بھائی کافر رہتے تھے ایسے مسلمانوں کو جب ایمان کی چاشنی مل گئی تو انہوں نے باپ اور بھائیوں کو بھی اسلام کی دعوت دی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہم کو باپ دادا کا طریقہ کافی ہے اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔] اے ایمان والو ! اپنی فکر رکھو۔ یعنی اصلاح کو لازم قرار دو ۔ لا یضرکم من ضل اذا اہتدیتم جب تم راہ راست پر قائم رہو گے تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ آیت کا نزول اس وقت ہوا تھا جب مسلمان کافروں کی حالت پر افسوس کرتے اور ان کے مسلمان ہوجانے کی تمنا کرتے تھے۔ احمد اور طبرانی نے حضرت ابو عامر ؓ اشعری کا بیان نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کی تشریح دریافت کی کہ مَنْ ضَلُّسے کون لوگ مراد ہیں فرمایا کافر جو گمراہ ہیں تم کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے جب کہ تم راہ راست پر ہو گے۔ مجاہد اور سعید بن جبیر نے کہا من ضل سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں یعنی اے مسلمانو ! اگر تم راہ راست پر قائم رہو گے تو اہل کتاب تم کو ضرر نہ پہنچا سکیں گے۔ لہٰذا تم ان سے جزیہ لو اور ان کو چھوڑ دو ۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ (دور صحابہ میں) جب بعض لوگ مسلمان ہوتے تھے تو (بھائی بندوں کی طرف سے) ان سے کہا جاتا تھا تو نے اپنے باپ کو بیوقوف سمجھ رکھا ہے (اس کی تفصیل) عفرہ کے آزاد کردہ غلام حضرت عمر نے بیان کی ہے جس کو ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ آیت ” یا ایہا الذین امنوا علیکم انفسکم “ کی وجہ نزول یہ تھی کہ بعض لوگ جب مسلمان ہوجاتے اور ان کے باپ یا بھائی کافر ہوتے تو چونکہ ایمان کی چاشنی اس مسلمان کے دل نشین ہو چکتی تھی۔ اس لئے وہ اپنے باپ اور بھائی کو بھی مسلمان ہوجانے کی دعوت دیتا تھا جواب میں وہ لوگ کہتے تھے باپ دادا کا طریقہ ہمارے لئے کافی ہے۔ اس پر آیت مذکورہ کا نزول ہوا۔ آیت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بھلائی کا حکم اور برائی سے بازداشت ترک کر دو (اور تبلیغ کو ختم کر دو ) کیونکہ بقدر طاقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خود ابتداء کے ذیل میں داخل ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا تھا لوگو ! تم آیت ” یٰاُیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ اَوْ یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ “ پڑھتے ہو اور اس کا مطلب غلط سمجھتے ہو میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے لوگ اگر برائی کو دیکھ کر اس کو نہ بدلیں گے (یعنی بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے) تو ہوسکتا ہے کہ اللہ سب کو عذاب میں عموماً مبتلا کر دے۔ رواہ ابن ماجۃ والترمذی۔ ترمذی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ ابو داؤد کی روایت میں ہے اگر لوگ ظالم کو (ظلم کرتے) دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو ممکن ہے اللہ سب کو عموماً عذاب میں مبتلا کر دے۔ ایک اور روایت میں آیا ہے جن لوگوں کے اندر گناہ کئے جائیں اور لوگ ان کو بدل سکتے ہوں لیکن (باوجود قدرت کے) نہ بدلیں تو ہوسکتا ہے کہ اللہ عموماً سب پر عذاب لے آئے۔ دوسری روایت میں آیا ہے جس قوم میں گناہ کئے جاتے ہوں اور گناہ نہ کرنے والے کرنے والوں سے زیادہ ہوں۔ تیسری روایت میں آیا ہے لوگ بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے بازداشت کریں ورنہ شریر لوگوں کو اللہ تم پر مسلط کر دے گا پھر وہ تم کو بدترین عذاب کی تکلیفیں دیں گے اس وقت تم میں سے نیک لوگ بھی اگر تمہارے لئے دعا کریں گے تو ان کی دعا قبول نہ ہوگی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ اس آیت کی تشریح میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو جب تک تمہاری بات مانی جائے اگر تمہاری بات لوٹا دی جائے تو پھر (تنہا) اپنی (اصلاح کی) فکر کرو۔ قرآن میں کچھ آیات ایسی نازل ہوئیں جن کا مصداق نزول سے پہلے ہی گزر چکا کچھ آیات ایسی نازل ہوئیں جن کا مصداق رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں موجود ہوگیا کچھ آیات کا مصداق رسول اللہ ﷺ کے تھوڑے زمانہ بعد واقع ہوگیا۔ کچھ آیات کا مصداق اب سے کچھ بعد آجائے گا۔ کچھ آیات کا مصداق آخر زمانہ میں واقع ہوگا اور کچھ آیات کا مصداق جن میں حساب ‘ جنت اور دوزخ کا ذکر ہے قیامت کے دن آئے گا پس جب تک تمہارے دل اور خواہشات متحد ہوں اور فرقہ بند ہو کر آپس میں گتھم گتھا نہ ہوجاؤ اور ایک دوسرے پر حملہ آور نہ ہو اس وقت تک بھلائی کی تبلیغ اور برائی سے بازداشت کرو اور جب دلوں میں اور خیالات میں پھوٹ پڑجائے اور فرقہ بند ہو کر آپس میں گتھم گتھا ہوجاؤ اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے لگے اس وقت ہر شخص کو صرف اپنی (اصلاح کی) فکر کرنی چاہئے ایسے وقت میں اس آیت کا مصداق ‘ متحقق ہوگا۔ عبد بن حمید ‘ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابوالشیخ اور بیہقی نے شعب الایمان میں بحوالۂ ابوالعالیہ مذکورہ بالا بیان کی نسبت حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کی طرف کی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوثعلبہ خشنی کا بیان نقل کیا ہے۔ حضرت ابو ثعلبہ ؓ نے کہا خدا کی قسم میں نے اس آیت کا مطلب رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا (اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امر و نہی ترک کر کے بیٹھ رہو) بلکہ مطلب یہ ہے کہ بھلائی پر چلو اور برائی سے باہم روکتے رہو اور خود بھی باز رہو لیکن جب دیکھ لو کہ لوگ ہواوہوس کے بندے ہوگئے ہیں خواہشات کے پیچھے پڑے ہیں۔ دنیا کو (دین پر) ترجیح دی جا رہی ہے اور ہر شخص خود رائے ہوگیا ہے اپنے خیال میں مست ہے اور تم کو بھی کچھ کرنا ہی ہو (کچھ کرنے پر تم مجبور ہو) تو ایسے وقت میں صرف اپنے نفس (کی اصلاح) کی فکر کرو اور عوام کی فکر چھوڑ دو ۔ یہ امر یقینی ہے کہ تمہارے آگے کچھ مصائب کا زمانہ آئے گا۔ ان شدائد میں صبر رکھنا اتنا مشکل ہوگا جیسے انگاروں کی مٹھی میں دبانا اس وقت نیک عمل کرنے کا ثواب ان پچاس آدمیوں کے برابر ہوگا جنہوں نے اسی جیسی نیکی کی ہو صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : کیا اس شخص کا اجر ان میں سے ہی پچاس آدمیوں کے برابر ہوگا فرمایا تمہارے پچاس آدمیوں کے برابر۔ بعض اہل روایت کا قول ہے کہ آیت مذکور کا نزول اہل بدعت کے حق میں ہوا تھا ابو جعفر رازی نے ذکر کیا ہے کہ صفوان بن محرز کے پاس ایک بدعتی نوجوان آیا اور اپنی کسی بات کا ذکر کرنے لگا صفوان نے کہا میں تم کو کلام اللہ کی ایک خاص آیت بتاتا ہوں جس میں اللہ نے اپنے اولیاء کا مخصوص طور پر ذکر کیا ہے فرمایا ہے (یا ایہا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اہتدیتم) ۔ الی اللہ مرجعکم جمیعا تم سب کی (یعنی گمراہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کی) اللہ ہی کی طرف واپسی ہے۔ فینبئکم بما کنتم تعملون پھر وہی تم کو ان اعمال کی اطلاع دے گا جو تم کرتے رہے تھے۔ یعنی ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا کسی کو دوسرے کے قصور پر نہیں پکڑے گا۔ اس فقرہ میں گمراہ اور ہدایت یافتہ دونوں گروہوں کے لئے وعدہ اور وعید ہے۔ بغوی نے ذکر کیا ہے اور بخاری ‘ ابو داؤد اور ترمذی نے بھی بغوی کے بیان کی طرح حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ تمیم داری اور عدی بن بدر تجارت کے لئے شام کو گئے اس زمانہ میں یہ دونوں عیسائی تھے ان کے ساتھ عمرو ؓ بن عاص کے آزاد کردہ غلام بھی تھے۔ بدیل مسلمان تھے شام پہنچ کر بدیل بیمار ہوگئے (موت کا یقین ہوگیا تو) اپنے موجودہ سامان کی ایک فہرست لکھ کر سامان میں ہی ڈال دی اور ساتھیوں کو اطلاع نہیں دی بلکہ دونوں ساتھیوں کو وصیت کردی کہ میرا سامان میرے گھر پہنچا دینا پھر مرگئے دونوں ساتھیوں نے سامان کی تلاشی لی تو سامان میں چاندی کا ایک برتن ملا جس کا وزن تین سو مثقال تھا اور اس پر سنہری کام کیا ہوا تھا دونوں نے وہ برتن لے کر چھپالیا اور اپنے کاروبار سے فارغ ہو کر جب مدینہ لوٹے تو بدیل کے گھر والوں کو بدیل کا سامان پہنچا دیا بدیل کے گھر والوں نے سامان کی جانچ کی تو اس کے اندر موجودات کی ایک فہرست لکھی ہوئی ملی انہوں نے تمیم اور عدی سے آکر پوچھا کیا ہمارے آدمی نے اپنے سامان میں سے کوئی چیز فروخت کی تھی دونوں نے نفی میں جواب دیا۔ گھر والوں نے پوچھا تو کیا اس نے کوئی تجارت کی تھی دونوں نے جواب دیا نہیں۔ گھر والوں نے کہا تو کیا اس کی بیماری اتنی لمبی ہوگئی تھی کہ اس کو کوئی چیز خرچ کرنی پڑی تھی دونوں نے کہا نہیں اس وقت گھر والوں نے کہا ہمیں سامان میں ایک تحریر ملی ہے جس میں پورے سامان کی فہرست ہے مگر سامان میں چاندی کا ایک پیالہ سونے کے طمع والا جس کا وزن تین سو مثقال تھا موجود نہیں ہے دونوں نے جواب دیا۔ ہمیں معلوم نہیں ہم سے اس نے کہا تھا کہ سامان تمہارے پاس پہنچا دیں ہم نے پہنچا دیا ہم کو برتن کا کچھ علم نہیں غرض انہوں نے انکار کردیا اور معاملہ کی رپورٹ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں پیش کی گئی اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top