Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 115
قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ اِنِّىْ : بیشک میں مُنَزِّلُهَا : وہ اتاروں گا عَلَيْكُمْ : تم پر فَمَنْ : پھر جو يَّكْفُرْ : ناشکری کریگا بَعْدُ : بعد مِنْكُمْ : تم سے فَاِنِّىْٓ : تو میں اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا : اسے عذاب دوں گا ایسا عذاب لَّآ : نہ اُعَذِّبُهٗٓ : عذاب دوں گا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
خدا نے فرمایا میں تم پر ضرور خوان نازل فرماؤں گا لیکن جو اس کے بعد تم میں سے کفر کرے گا اسے ایسا عذاب دوں گا کہ اہل عالم میں کسی کو ایسا عذاب نہ دوں گا
قال اللہ انی منزلہا علیکم اللہ نے فرمایا میں اس کو تم پر (بار بار) ضرور اتاروں گا۔ منزلباب تفعیل کا اسم فاعل ہے اور باب تفعیل کثرت اور تواتر فعل پر دلالت کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ تمہاری درخواست کو منظور فرما کر میں متواتر طور پر کتنے ہی مرتبہ خوان نازل کروں گا۔ فمن یکفر بعد منکم فانی اعذبہ عذابا پھر تم میں سے جو حق شناسی نہ کرے گا اس کو ایسی سزا دوں گا۔ لا اعذابہ احدا من العلمین کہ ویسی سزا دینا میں کسی کو نہیں دوں گا۔ عذاباً بمعنی تعذیب ہے یعنی عذاب دینا یہ مفعول مطلق ہے یا مجازاً مفعول بہ ہے یا عذاب سے مراد ہے سزا کا طریقہ اور عذاب کا ڈھنگ یعنی اور ایسی سخت سزا دوں گا کہ کسی کو نہ دوں گا۔ الٰعلمین سے مراد ہیں عذاب پانے والے کافروں کے ہم عصر۔ یا آئندہ ہر زمانہ والے کیونکہ نزول مائدہ کے بعد جن لوگوں نے کفر کیا اللہ نے ان کو سور اور بندر بنا دیا اور آئندہ کسی اور پر ایسا عذاب نہیں آیا۔ حضرت سلمان ؓ فارسی کی مذکورۂ بالا حدیث کا تتمہ : جب حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے دعا کی تو ایک سرخ رنگ کا خوان لوگوں کی نظروں کے سامنے اوپر سے اترنے لگا ابر کا ایک ٹکڑا خون سے اوپر تھا اور ایک نیچے۔ خوان آکر لوگوں کے سامنے گرپڑا۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عیسیٰ رونے لگے اور عرض کیا اے اللہ مجھے شکر گزاروں میں سے کر دے اور اس کو رحمت بنا دے عذاب نہ بنانا۔ یہودی بھی ایسی چیز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے جس کی نظیر انہوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی اور خوان میں سے نکلتی ہوئی ایسی خوشبو محسوس کر رہے تھے جس کی مثل کبھی کوئی خوشبو نہیں پائی تھی۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا تم میں سے جو سب سے زیادہ نیک اعمال ہو وہ کھڑا ہو اور بسم اللہ کہہ کے اس کا سرپوش کھولے حواریوں کے سردار شمعون صفار نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ( علیہ السلام) آپ ہی اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر اور وضو کر کے ایک لمبی نماز پڑھی اور خوب روئے پھر بسم اللہ کر کے سر پوش ہٹایا اور فرمایا بسم اللہ خیر الرازقین۔ خوان میں ایک بریاں مچھلی تھی جس پر نہ کوئی سنا تھا نہ کانٹا۔ مچھلی سے روغن بہہ رہا تھا ‘ اس کے سر کی طرف نمک رکھا تھا اور دم کے پاس سرکہ ‘ اور چاروں طرف رنگا رنگ کی ترکاریاں رکھی تھیں لیکن گندنا نہ تھا پانچ روٹیاں بھی تھیں ایک پر زیتون دوسری پر شہد تیسری پر گھی چوتھی پر پنیر اور پانچویں پر گوشت کے ٹکڑے رکھے تھے۔ شمعون نے عرض کیا یا روح اللہ ! کیا یہ دنیوی کھانا ہے یا اخروی فرمایا تمہارے سامنے جو کھانا ہے وہ نہ دنیوی کھانے کی نوع کا ہے نہ آخرت کے کھانے کی قسم کا (بلکہ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس کو تیار کیا ہے) تم نے مانگا تھا اب اس کو کھاؤ ‘ اللہ تمہاری مدد کرے گا اور اپنے فضل سے تم کو مزید عطا فرمائے گا حواریوں نے عرض کیا یا روح اللہ آپ ہی سب سے پہلے کھانا شروع کیجئے۔ فرمایا میں اس کو کھانے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ جس نے اس کی درخواست کی تھی وہی کھائے یہ سن کر حواریوں کو کھانے سے ڈر لگا (اس لئے کھانے پر ہاتھ نہیں ڈالا) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے کھانے کے لئے فاقہ زدہ فقریوں ‘ بیماروں کوڑہ اور برص والوں اور لنگڑے لنچے اپاہجوں کو بلوایا اور فرمایا اللہ کا بھیجا ہوا رزق کھاؤ یہ تمہارے لئے مبارک ہے اور دوسروں کے لئے مصیبت۔ چناچہ سب نے کھایا ایک ہزار تین سو نادار بیمار اپاہج اور دکھی مردوں اور عورتوں نے شکم سیر ہو کر کھایا لیکن مچھلی اترنے کے وقت جیسی تھی ویسی ہی رہی اس کے بعد خوان اٹھ گیا اور لوگوں کی نظروں کے سامنے اوپر چڑھتا چلا گیا آخر نگاہ سے غائب ہوگیا جس بیمار اور اپاہج نے اس میں سے کھایا وہ تندرست ہوگیا اور جس فقیر نے کھایا وہ غنی ہوگیا یہ دیکھ کر نہ کھانے والوں کو پشیمانی ہوئی خوان اترنے کا یہ سلسلہ چالیس روز تک چاشت کے وقت قائم رہا مالدار نادار بڑے چھوٹے مرد عورت سب ہی خوان کے نزول کے وقت جمع ہوجاتے تو خوان سب کی نظروں کے سامنے رکھا ہوتا اور لوگ کھاتے جب سب کھا کر لوٹ جاتے تو خوان سب کی نظروں کے سامنے اٹھ جاتا اور چڑھتا جاتا آخر نظروں سے چھپ جاتا (یہ بھی کہا جاتا ہے کہ) ثمود کی اونٹنی کی طرح خوان ایک دن بیچ آتا ‘ ایک دن ناغہ ایک دن آمد۔ پھر اللہ نے حضرت عیسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ میں اپنا خوان اور رزق صرف فقراء کے لئے مقرر کرتا ہوں ‘ مالداروں کے لئے (اس میں) کچھ نہیں ہے یہ حکم مالداروں کو بہت کھلا کہ خود بھی شک میں پڑگئے اور دوسروں کے دلوں میں بھی شک پیدا کرنے لگے اور کہنے لگے دیکھو تو کیا یہ خوان واقعی آسمان سے اترتا ہے ( اگر ایسا ہے تو اس میں ناداروں اور مالداروں کی تفریق کیوں ہے) اللہ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی اور فرمایا میں نے شرط لگا دی تھی کہ خوان نازل ہونے کے بعد جو کفر کرے گا میں اس کو ایسا عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی کو نہ دوں گا (اب انہوں نے کفر کیا ہے اس لئے عذاب کے مستحق ہوگئے) حضرت عیسیٰ نے عرض کیا اگر تو ان کو عذاب دے گا تو یہ تیرے بندے ہیں (تجھے عذاب دینے کا حق ہے) اور اگر معاف کر دے تو یقیناً بلاشبہ تو ہی غالب اور دانا ہے (مغفرت کرسکتا ہے اور مغفرت کی مصلحت سے بھی واقف ہے) الغرض ان میں سے 333 آدمیوں کی صورتیں مسخ کردی گئیں۔ رات کو بیویوں کے ساتھ (بھلے چنگے) سوئے اور صبح کو سوروں کی شکل میں اٹھے اور راستوں اور کوڑا گھروں میں مارے مارے پھرنے اور کوڑے کے اندر گندگی کھانے لگے لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو گھبرا کر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روئے۔ سوروں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو دیکھا تو آپ کے گرداگرد گھومنے اور رونے لگے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ان کے نام لے کر پکارتے تھے اور وہ سروں سے اشارہ کرتے اور روتے تھے بات نہیں کرسکتے تھے اس حالت میں تین روز زندہ رہے پھر سب مرگئے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ خلاص بن عمرو نے حضرت عمار بن یاسر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خوان اترا تو اس میں گوشت اور روٹی تھی اور بنی اسرائیل سے کہہ دیا گیا تھا کہ یہ مائدہ تمہارے لئے قائم رہے گا۔ جب تک تم اس میں سے خیانت نہ کرو گے اور چھپا کر نہ رکھو گے لیکن وہ دن بھی نہیں گزرا کہ انہوں نے خیانت کی اور (کچھ جنس) چھپا کر رکھ لی۔ آخر بندروں اور سوروں جیسی شکل ان کی کردی گئی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے فرمایا تھا تیس روزے رکھو پھر جو کچھ چاہو اللہ سے مانگو وہ تم کو عنایت فرمائے گا۔ حسب الحکم لوگوں نے روزے رکھے اور روزوں سے فراغت کے بعد عرض کیا اگر ہم کسی کا کام کرتے ہیں اور کام پورا کردیتے ہیں تو وہ ہم کو کھانا دیتا ہے (اب اللہ کے لئے ہم نے روزے رکھے ہیں اور اللہ سے کھانا مانگتے ہیں) چناچہ انہوں نے خوان اترنے کی درخواست کی (دعا قبول ہوئی) ملائکہ ایک خوان اٹھائے ہوئے خوان پر سات روٹیاں اور سات مچھلیاں تھیں لوگوں کے سامنے لا کر اس کو رکھ دیا۔ اوّل سے آخر تک سب لوگوں نے اس کو کھایا (اور جس طرح کھانا شروع کرنے کے وقت وہ تھا ویسا ہی آخر آدمی کے کھانے کے بعد رہا) کعب احبار نے کہا مائدہ سرنگوں اترا تھا آسمان و زمین کے درمیان ملائکہ اس کو اڑا کر لا رہے تھے گوشت کے علاوہ اس میں ہر چیز تھی۔ قتادہ نے کہا اس میں جنت کے پھل تھے۔ عطیہ عوفی نے کہا آسمان سے اتر کر ایک مچھلی آئی جس میں ہر چیز کا مزہ تھا۔ کلبی نے کہا اس میں چاوّل کی روٹی تھی۔ سعید بن جبیر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ خوان میں سوائے گوشت اور روٹی کے ہر چیز تھی۔ وہب بن منبہ نے کہا اللہ نے جو کی چند چھوٹی روٹیاں اور مچھلیاں اتاری تھیں کچھ لوگ تو کھا کر جاتے اور دوسرے آکر کھاتے تھے یہاں تک کہ سب کھا چکتے اور کھانا پھر بھی بچ رہا۔ کلبی اور مقاتل نے کہا اللہ نے روٹیاں اور مچھلیاں اور قلچے اتارے تھے۔ لوگوں کی تعداد ہزار سے اوپر تھی۔ سب نے کھایا اور لوٹ کر اپنی اپنی بستیوں میں جا کر جب اس کا تذکرہ کیا تو جو لوگ نہیں آئے تھے وہ ہنس دیئے اور کہنے لگے تمہاری نظر بندی کردی گئی تھی اللہ کو جس کی بھلائی مقصود تھی وہ تو ایمان پر قائم رہا اور جس کی خرابی منظور تھی وہ کفر کی طرف لوٹ گیا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کو سوروں کی شکل پر کردیا۔ مسخ شدہ لوگوں میں کوئی بچہ یا عورت نہ تھی (سب مرد تھے) تین روز تک اسی حالت میں رہ کر سب مرگئے نہ کچھ کھایا نہ پیا نہ ان کی نسل ہوئی ہر مسخ شدہ شخص کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ جہاں کہیں بنی اسرائیل ہوتے تھے خوان وہیں صبح شام من وسلویٰ کی طرح اترتا تھا۔ نزول مائدہ کے متعلق اکثر علماء کے یہ مختلف اقوال تھے جو ذکر کردیئے گئے۔ مجاہد اور حسن نزول مائدہ کی نفی کے قائل تھے ان کا خیال تھا کہ جب ان کو تنبیہ کی گئی کہ نزول مائدہ کے بعد اگر کفر کرو گے تو سنگین ترین عذاب میں مبتلا کردیئے جاؤ گے تو بنی اسرائیل کو اندیشہ ہوگیا کہ کہیں کوئی کفر کرنے لگے (اور عذاب سب پر پڑے) اس لئے انہوں نے معافی طلب کی اور عرض کیا ہم مائدہ کے طلب گار نہیں۔ واپسی درخواست کے بعد مائدہ نازل نہیں ہوا۔ رہ گیا لفظ انی منزلہا (جو نازل ہونے پر دلالت کر رہا ہے) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تنبیہ کے بعد بھی اگر تم نزول مائدہ کے طلبگار ہو گے تو اللہ ضرور نازل فرما دے گا۔ صحیح قول وہی ہے جو اکثر علماء کا مختار ہے کہ مائدہ نازل ہوا کیونکہ اللہ نے پہلے سے خبر دے دی تھی کہ میں ضرور نازل کروں گا اور اللہ کی اطلاع غلط نہیں ہوسکتی۔ پھر نزول مائدہ کے متعلق رسول اللہ ﷺ : کی احادیث صحابہ کے آثار اور تابعین کے اقوال بکثرت آئے ہیں جن کو (معنوی طور پر) متواتر کہہ سکتے ہیں۔
Top