Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 102
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ١٘ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب قَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آئے رَسُوْلُنَا : ہمارے رسول يُبَيِّنُ : وہ کھول کر بیان کرتے ہیں لَكُمْ : تمہارے لیے عَلٰي : پر (بعد) فَتْرَةٍ : سلسلہ ٹوٹ جانا مِّنَ : سے (کے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اَنْ : کہ کہیں تَقُوْلُوْا : تم کہو مَا جَآءَنَا : ہمارے پاس نہیں آیا مِنْ : کوئی بَشِيْرٍ : خوشخبری دینے والا وَّلَا : اور نہ نَذِيْرٍ : ڈرانے والا فَقَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آگئے بَشِيْرٌ : خوشخبری سنانے والے وَّنَذِيْرٌ : اور ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اے اہلِ کتاب پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ جو (ایک عرصے تک) منقطع رہا تو (اب) تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آ گئے ہیں جو تم سے (ہمارے احکام) بیان کرتے ہیں تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری یا ڈر سنانے والا نہیں آیا سو (اب) تمہارے پاس خوشخبری اور ڈر سنانے والے آ گئے ہیں اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
یاہل الکتب قد جآء کم رسولنا اے اہل کتاب ہمارا پیغمبر یقیناً تمہارے پاس آچکا یعنی محمد۔ یبین لکم جو کھول کھول کر تم سے (ہدایت کے علامات اور دین کے احکام) بیان کر رہا ہے۔ علامات ہدایت اور شرائع دین مفعول ہے جس کو ظاہر الفہم ہونے کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے یا یوں کہا جائے کہ مفعول کی ضرورت ہی نہیں ہے اس وقت ترجمہ اس طرح ہوگا جو تمہارے سامنے اظہار کر رہا ہے۔ علی فترۃ من الرسل ایسے وقت میں کہ رسولوں کا سلسلہ موقوف تھا۔ عَلٰی فَتْرَۃٍکا تعلق جَآءَ کُمْ سے ہے ‘ یعنی رسول مکرم ایسے وقت آئے کہ مدت سے پیغمبر نہیں آئے تھے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا تھا۔ ان تقولوا ما جآء نا من بشیر ولا نذیر فقد جآء کم بشیر ونذیر یعنی خدا کو یہ امر پسند نہ تھا کہ تم (قیامت کے دن) بطور عذر کہہ سکو کہ ہمارے پاس تو کوئی بشیر و نذیر (پیغمبر نصیحت کرنے اور اللہ کے احکام پہنچانے کے لئے) آیا ہی نہ تھا (اس لئے ہم بےقصور ہیں) یا تقولوا سے پہلے لا محذوف ہے یعنی تاکہ تم (مندرجہ بالا بات قیامت کے دن) نہ کہہ سکو اب (اللہ کے ثواب کی نیکوکاروں کو) خوشخبری دینے والا اور (بدکار منکروں کو اللہ کے عذاب سے) ڈرانے والا آگیا۔ واللہ علی کل شی قدیر اور اللہ ہر بات پر قابو رکھتا ہے۔ پس وہ متواتر پیہم پیغمبر بھی بھیج سکتا ہے۔ جیسے موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان پندرہ سو یا سترہ سو برس کی مدت میں ایک ہزار نبی بھیجے۔ ابن سعد اور زبیر بن بکار اور ابن عساکر نے کلبی کا قول لکھا ہے کہ موسیٰ بن عمران اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ مریم بنت عمران کے درمیان ایک ہزار سات سو برس کا فصل تھا اور دونوں ایک سبط سے نہیں تھے۔ لیکن حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان پندرہ سو برس کی مدت ہوئی۔ ابن ابی حاتم نے بحوالۂ اعمش لکھا ہے کہ موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیان ہزار پیغمبر ہوئے۔ اور سلسلہۂ نبوت موقوف ہونے کے زمانہ میں بھی پیغمبر کو بھیج سکتا ہے۔ جیسے عیسیٰ کے بعد (مدت تک کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا پھر) محمد ﷺ کو بھیجا۔ ابن عساکر اور ابن ابی حاتم نے بحوالۂ قتادہ لکھا ہے کہ دونوں کے درمیان چھ سو برس کا فصل ہوا۔ لیکن عبدالرزاق اور عبد بن حمید اور ابن جریر نے بطریق معمر۔ قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان پانچ سو ساٹھ برس کی مدت ہوئی اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد سوائے حضور ﷺ کے کوئی اور پیغمبر نہیں ہوا۔ آیت میں اس احسان کا ذکر ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت اس وقت ہوئی جب وحی کے آثار مٹ چکے تھے اور پیغمبر کی انتہائی ضرورت تھی تو اللہ نے احسان کیا کہ اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں دنیا اور آخرت میں عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ سب سے زیادہ قرابت رکھتا ہوں انبیاء علاقی بھائی ہیں ان کی مائیں (شریعتیں) مختلف ہیں اور دین سب کا ایک ہے اور ہم دونوں کے درمیان کوئی اور پیغمبر نہیں ہوا۔ رواہ البخاری و مسلم فی صحیحہا۔
Top