Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 22
وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ
وَفِي السَّمَآءِ : اور آسمانوں میں رِزْقُكُمْ : تمہارا رزق ہے وَمَا تُوْعَدُوْنَ : اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے
اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے
وفی السماء رزقکم وما تو عدون . اور تمہارا رزق اور جو تم سے (قیامت کے متعلق) وعدہ کیا جاتا ہے (ان سب کا معین وقت) آسمان میں ہے۔ وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ : حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اور مقاتل کا بھی یہی قول ہے کہ رزق سے مراد ہے رزق کے پیدا ہونے کا سبب یعنی بارش۔ اس تفسیر کی بنا اس مسلمہ پر ہے جو (ظاہر) شریعت میں آیا ہے کہ بارش آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ بیضاوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ السمآء سے مراد بادل اور رزق سے مراد ہے بارش۔ یہ تشریح فلاسفہ کے خیال پر مبنی ہے (کہ بارش بادل سے ہوتی ہے) بیضاوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اسباب رزق مراد ہیں۔ یا رزق سے مراد ہے حصہ اور نصیب (لغت میں رزق کا یہی معنی ہے) ۔ آیت مبارکہ میں آیا ہے : وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقُکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ : یعنی تکذیب کرنے کو تم اپنا نصیب اور حصہ بنا رہے ہو۔ رزق کا اگر یہ معنی لیا جائے تو آیت : وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُکُمْ میں یا تو اللہ کی قدرت کی آفاتی اور انفسی نشانیاں مراد ہوں گی جیسے چاند ‘ سورج ‘ ستارے اور ان کی رفتار۔ طلوع و غروب اور پھر ان سے پیدا ہونے والے مفید و مضر آثار اور موسموں کے اختلافات وغیرہ۔ ان ارضی و سماوی آیات میں غور کرنا اور ان سے اللہ کی قدرت پر استدلال کرنا درحقیقت نیکو کار اہل ایمان ہی کا حصہ ہے۔ پھر اس استدلال اور فہم و دانش پر جس رحمت اور برکات کا اللہ کی طرف سے فیضان ہوتا ہے اور اہل عرفان پر جو تجلیات کی بارش ہوتی ہے وہ بھی انہی محسنین و موقنین کا نصیب ہے اور جن کے دلوں پر اور گوش ہوش پر اللہ نے مہر کردی ہے اور جن کی آنکھوں پر غفلت و جہالت کے پردے پڑے ہیں وہ بےنصیب ہیں اور فیضان و عرفان سے محروم ہیں۔ عارف رومی نے کہا ہے۔ ؂ گر نخواہد بےبدن جانِ تو زیست فی السماء رزقکم روزئی کیست یا رزق سے مراد ہے روزئی غذا جس سے جسم کی پرورش ہوتی ہے۔ اس صورت میں آیت کے اندر اس امر پر تنبیہ ہوگی کہ تمہارا رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آسمان پر لکھا ہوا ہے اس لیے اللہ ہی سے طلب کرو اور اسی کی اطاعت اور عبادت کرو اور خلوص کے ساتھ کرو۔ دکھاوٹ اور شہرت طلبی کی آمیزش تمہاری عبادت میں نہ ہونا چاہیے۔ اس تفسیر پر بھی آیت میں نیکو کار اہل ایمان کے خصوصی اوصاف کا اظہار اور ان کی مدح ہوگی کہ وہ رزق کے معاملہ میں بھی اللہ پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ وَمَا تُوْعَدُوْنَ : بغوی نے لکھا ہے کہ عطاء کے نزدیک مَا تُوْعَدُوْنَ سے مراد ہے عذاب وثواب۔ مجاہد کے نزدیک خیر و شر اور ضحاک کے نزدیک جنت و دوزخ۔ میں کہتا ہوں ان علماء کے یہ تینوں اقوال اس امر پر مبنی ہیں کہ خطاب کا رخ مؤمنوں کی طرف بھی ہو اور کافروں کی طرف بھی اور دونوں گروہوں کو مخاطب مانا جائے۔ اس صورت میں آیت کا مطلب اس طرح ہوگا کہ تمہارا رزق اور وعدۂ ثواب و عذاب یا وعدۂ خیر و شر یا وعدۂ جنت و دوزخ آسمان میں لکھا موجود ہے ‘ یہ مطلب نہ ہوگا کہ خیر و شر اور ثواب و عذاب اور جنت و دوزخ آسمان میں ہیں کیونکہ یہ غلط ہے کہ جنت آسمان پر ہے اور دوزخ زمین کے نیچے ‘ اس کی صراحت احادیث میں آچکی ہے لیکن اگر مخاطب صرف محسنین کو قرار دیا جائے تو اس تاویل کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ نیکو کاروں سے جنت اور ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اور جنت آسمان میں ہے۔
Top