Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 23
فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَاۤ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ۠   ۧ
فَوَرَبِّ : قسم ہے رب کی السَّمَآءِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین اِنَّهٗ : بیشک یہ لَحَقٌّ : حق ہے مِّثْلَ : جیسے مَآ اَنَّكُمْ : جو تم تَنْطِقُوْنَ : بولتے ہو
تو آسمانوں اور زمین کے مالک کی قسم! یہ (اسی طرح) قابل یقین ہے جس طرح تم بات کرتے ہو
فورب السما والارض انہ لحق مثل ما انکم تنطقون . پس قسم ہے آسمان و زمین کے رب کی بلاشبہ یہ بات (جو ذکر کی گئی یعنی قیامت ‘ عذاب وثواب ‘ رزق ‘ وعدہ وعید وغیرہ) ایسے ہی حق ہے جیسے تمہارا بولنا۔ بغوی نے لکھا ہے یہ بات حق ہے جیسے تم بولتے ہو اور لا اِلٰہ الاّ اللہ کہتے ہو گویا نطق سے مراد بغوی کے نزدیک منطوق (بولا ہوا کلام) مراد ہے۔ اس صورت میں اگر مخاطب صرف اہل ایمان کو قرار دیا جائے تو اہل ایمان عام طور پر اکثر لا اِلٰہ الاّ اللہ پڑھا ہی کرتے ہیں اور اگر خطاب کو عام مانا جائے تو جس طرح آدمی کا بات کرنا اور بولنا بدیہی ہے اسی طرح اللہ کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ حق اور ناقابل شک ہے جیسے عام طور پر کہا جاتا ہے ‘ یہ بات اتنی ہی سچی ہے جیسے اس وقت تمہارا میرے سامنے موجود ہونا یا تمہارا بولنا۔ اصمعی کا بیان ہے : ” میں بصرہ کی جامع مسجد سے آ رہا تھا ‘ سامنے سے ایک اعرابی آیا اور مجھ سے پوچھا : تم کس قبیلے سے ہو ؟ میں نے کہا : بنی اصمع سے۔ بولا : کہاں سے آ رہے ہو ؟ میں نے کہا : وہاں سے جہاں اللہ کا کلام پڑھا جاتا ہے۔ کہنے لگا : مجھے بھی کچھ سناؤ۔ میں نے سورة والذاریات تلاوت کی۔ جب آیت : فی السماء رزقکم پر پہنچا تو اعرابی نے کہا : بس کرو پھر خود اٹھ کر اپنی اونٹنی کے پاس گیا ‘ اس کو نحر کیا اور گوشت آنے جانے والوں کو بانٹ دیا اور پھر اپنی کمان اور تلوار توڑ دی اور منہ موڑ کر چلا گیا۔ اس کے بعد جب ہارون رشید کے ساتھ حج کو گیا اور (مکہ مکرمہ میں) گھومنے نکلا تو اچانک ایک آواز سنی کہ کمزور آواز سے مجھے پکار رہا تھا۔ میں نے منہ موڑ کر دیکھا تو وہی اعرابی تھا۔ میں قریب گیا تو اس نے سلام کیا اور وہی سورت (الذاریات) سنانے کی فرمائش کی۔ جب میں نے پڑھ کر سنائی اور اسی آیت پر پہنچا تو اس نے ایک چیخ ماری اور بولا : ہمارے رب نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا ہم نے اس کو حق پایا۔ پھر کہنے لگا : کیا اور کچھ (آپ پڑھیں گے ؟ ) ۔ میں نے (اس سے آگے) پڑھا : فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لْحَقٌّ : اعرابی نے یہ سنتے ہی ایک چیخ ماری اور کہا : ” سبحان اللہ ! ربِّ جلیل کو کس نے غضب ناک کردیا کہ اس نے قسم کھائی۔ لوگوں نے اس کی بات کو سچ نہ جانا اور اس کو قسم کھانے پر مجبور کردیا “ یہ الفاظ اس نے تین بار کہے اور یہی کہتے کہتے اس کی جان نکل گئی۔ (مدارک) بلاغت کا تقاضا ہے کہ مخاطب کا انکار جس درجہ کا ہوتا ہے خبر دینے والا کلام کو اسی قدر تاکید کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اللہ نے اس جگہ کلام کو انتہائی تاکید کے ساتھ بیان کیا۔ قسم کھائی اِنَّ (تحقیقہ) کا استعمال کیا۔ لام تاکید بھی ذکر کیا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ بات حق ہے اور آخر میں حقانیت کلام کو نطق انسانی سے تشبیہ دی جو کھلی ہوئی محسوس حقیقت ہے ‘ گویا اللہ کی طرف سے رزق کا جو وعدہ کیا گیا ہے انسان اس کا شدید منکر ہے اور روزی کمانے کے لیے انتہائی مشقتیں جھیلتا ہے حالانکہ اللہ نے فرما دیا ہے : وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ الاَّ عَلَی اللہ رِزْقُھَا : اللہ نے انسان کو جس چیز کا مکلف کیا ہے اور ابدی ثواب و عذاب کو جس سے وابستہ کیا ہے ‘ آدمی اس کی طرف سے غافل ہے۔
Top