Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ
هَلْ اَتٰىكَ : کیا آئی تمہارے پاس حَدِيْثُ : بات (خبر) ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے مہمان الْمُكْرَمِيْنَ : معزز
بھلا تمہارے پاس ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے؟
ھل اتاک حدیث ضیف ابراھیم المکرمین . کیا ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی حکایت آپ کو پہنچی ہے۔ ھَلْ اَ تٰکَ : استفہام تقریری ہے یعنی ابراہیم کے معزز مہمانوں کے واقعہ کی اطلاع آپ کے پاس پہنچ چکی ہے۔ اس جملہ سے عظمت واقعہ کی طرف اشارہ بھی ہے اور اس امر پر تنبیہ بھی ہے کہ وحی کے ذریعہ سے اس واقعہ کی اطلاع پہلے دی جا چکی ہے۔ حَدِیْثُ ضَیْفِ : ضیف اصل میں مصدر ہے اس لیے اس کا اطلاق ایک پر بھی ہوتا ہے اور زیادہ پر بھی۔ بغوی نے لکھا ہے ان مہمانوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور عطاء نے فرمایا : تین فرشتے تھے جبرئیل ‘ میکائیل ‘ اسرافیل۔ محمد بن کعب نے کہا : جبرئیل اور ان کے ساتھ سات اور تھے (کُل آٹھ) ضحاک نو ہونے کے قائل ہیں۔ مقاتل نے کہا : بارہ فرشتے تھے ‘ سدی نے کہا : گیارہ ملائکہ تھے امرد لڑکوں کی شکل میں جن کے چہرے چمکیلے (نورانی) تھے۔ الْمُکْرَمِیْنَ : معزز۔ یعنی پہچاننے سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی عزت کی تھی۔ حضرت نے خود بنفس نفیس اور آپ کی بی بی نے ان کی خدمت کی تھی اور طعام مہمانی پیش کیا تھا۔ پیغمبروں کا طریقہ ہی یہی ہے اور ہدایت یافتہ لوگوں کا یہی معمول ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے ‘ اس کو چاہیے کہ اپنے ہمسائے سے اچھا سلوک کرے ‘ (عربی میں جار کا اطلاق مہمان پر بھی ہوتا ہے ‘ اس لیے جار سے مراد ہمسایہ اور مہمان دونوں ہوسکتے ہیں ‘ مترجم) دوسری روایت میں آیا ہے کہ اس کو چاہیے کہ اپنے ہمسایہ کو دکھ نہ دے اور جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو اپنے مہمان کی خاطر کرنی چاہیے اور جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔ (رواہ الشیخان فی الصحیحین و احمد والترمذی و ابن ماجہ عن ابی ہریرہ) حضرت ابو شریح کعبی کی روایت سے صحیحین میں حدیث مذکور اس طرح آئی ہے : جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے۔ ایک دن رات کی میزبانی کرے اور (انتہائی) مہمانی تین روز تک ہے۔ اس کے بعد خیرات ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے پاس اتنا ٹھہرے کہ وہ آخر نکال باہر کر دے۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت سے آیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا : کونسا اسلام بہتر ہے ؟ (یعنی اسلام میں کونسا معاشرتی اور اخلاقی عمل بہتر ہے۔ مترجم) فرمایا : کھانا کھلانا اور شناسائی ہو یا نہ ہو (سب کو) سلام کرنا۔ ” مُکْرَمِیْنَ “ : کہنے کی یہ وجہ بھی بیان کی گئی کہ اللہ کے نزدیک وہ مہمان معزز تھے کیونکہ وہ ملائکہ تھے اور ملائکہ کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے : بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ۔
Top