Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 25
اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ١ۚ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَۚ
اِذْ دَخَلُوْا : جب وہ آئے عَلَيْهِ : اس کے پاس فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا سَلٰمًا ۭ : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ ۚ : سلام قَوْمٌ : لوگ مُّنْكَرُوْنَ : ناشناسا
جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا (دیکھا تو) ایسے لوگ کہ نہ جان نہ پہچان
اذ دخلوا علیہ فقالوا سلما قال سلم قوم منکرون . (اور یہ قصہ اس وقت کا تھا) جب وہ (مہمان) ابراہیم کے پاس آئے اور سلام کیا۔ ابراہیم ( علیہ السلام) نے بھی جواب میں کہا : سلام (اور کہا :) تم لوگ انجان ہو۔ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ : جب مہمان ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ فَقَالُوْا سَلٰمًا : پھر انہوں نے کہا : ہم آپ کو سلام کرتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : تم پر بھی سلام ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سلامٌ یعنی بجائے جملہ فعلیہ کے جملہ اسمیہ بولا تاکہ دعاء سلامتی کسی خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص نہ ہو بلکہ دوامی ہو اور فرشتوں نے جو سلام کیا تھا اس سے ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب بہتر اور احسن ہوجائے۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَاِذَ احُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بآحْسَنَ مِنْھَا اَوْرُدُّوْھَا اِنَّ اللہ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ حَسِیْبًا : جب تم کو سلام کیا جائے تو جواب میں تم اس سے بہتر سلام کرو یا ویسا ہی جواب لوٹا دو ۔ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ : یعنی تم اجنبی لوگ ہو ‘ ہم تم کو نہیں پہچانتے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : حضرت ابراہیم نے اپنے دل میں کہا تھا ‘ یہ اجنبی لوگ ہیں ہم ان کو نہیں پہچانتے۔ ابو العالیہ نے کہا اس شہر میں سلام کا دستور نہ تھا اسلئے حضرت ابراہیم نے سلام میں غیریت محسوس کی ‘ سلام تو اسلام کی علامت ہے۔
Top