Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں
فما خلقت الجن والانس الا لیعبدون . اور میں نے جن اور انسان کو اسلئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔ ایک شبہ ظاہر آیت کا اقتضاء ہے کہ اللہ کی مراد یہی ہے کہ جن و انس اس کی طاعت کریں اور فرمانبردار ہوں اور مراد خداوندی کے خلاف کچھ ہو نہیں سکتا۔ پھر بہت سے جن و انس کیوں کفر و شرک کرتے ہیں اور کیسے نافرمان ہوسکتے ہیں۔ اس شبہ کو دور کرنے کے لیے حضرت علی ؓ نے آیت کا تفسیری ترجمہ اس طرح کیا ہے ‘ میں نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا ‘ مگر صرف اس لیے کہ ان کو اپنی عبادت کا حکم دوں۔ یعنی اپنے احکام کو مکلّف بناؤں۔ اسی مفہوم کو دوسری آیت میں بیان کیا ہے اور فرمایا ہے : وَمَآ اُمِرُوْٓا الاَّ لِیَعْبُدُوْا اِلٰھًا وَّاحِدًا : یعنی ان کو صرف ایک معبود کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کذا ذکر البغوی : قول علی ؓ ۔ مجاہد نے ” لیعبدون “ کا ترجمہ کیا ہے : ” لیعرفون “ مجھے پہچانیں اور کافر بھی اللہ کے وجود کو تو پہچانتے ہی ہیں ‘ اللہ نے فرمایا ہے : وَلَءِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللہ : اگر آپ ان (مشرکوں) سے دریافت کریں کہ تم کو کس نے پیدا کیا تو کہیں گے اللہ نے۔ بعض علماء نے ” لیعبدون “ کا ترجمہ کیا میرے سامنے عاجزی کریں۔ منقاد و مطیع بن جائیں۔ عبادت کا لغوی معنی ہے عاجز ہونا اور خضوع کرنا۔ یہی معنی یہاں مراد ہے کافر ہو یا مؤمن ہر مخلوق فیصلۂ خداوندی کے سامنے عاجز ہے۔ جس مقصد کے لیے جس کو پیدا کیا گیا ہے کوئی بھی اس سے سرتابی نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ خود بھی اپنی تخلیق کے مقصد سے خارج نہیں ہوسکتا۔ بعض اہل تفسیر نے کہا : عبادت سے مراد ہے اقرار توحید یعنی اپنی توحید کے لیے تمام جن و انس کو پیدا کیا۔ مؤمن تو ہر دکھ ‘ سکھ اور تکلیف و راحت میں تنہا اللہ کو پکارتا ہی ہے لیکن کافر پر بھی جب ناقابل تدبیر دکھ آتا ہے تو خدا ہی کو پکارتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ : صاحب مدارک نے کہا ہے سارے کافر بھی آخرت میں توحید کا اقرار کرلیں گے ‘ اللہ نے فرمایا ہے : ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُھُمْ اِلَّا اِنْ قَالُوْا وَ اللہ ِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ : اگر کفار دنیا میں توحید کے منکر ہوں تب بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ توحید کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے (کیونکہ قیامت کے دن تو توحید کا اقرار سب ہی کرلیں گے) ۔ میں کہتا ہوں صحیح قول حضرت علی کا ہے باقی دوسرے اقوال کمزور ہیں۔ معترضین نے اپنے شبہ کو قوّت پہنچانے کے لیے ایک آیت اور ایک حدیث بھی نقل کی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ : ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جن و انس کو پیدا کیا ہے۔ حدیث مبارک ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کُلٌّ مَّیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ : ہر ایک کے لیے وہ کام آسان کردیا جاتا ہے (یعنی اس کام کی توفیق دی جاتی ہے) جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ کلبی ‘ ضحاک اور سفیان ثوری ؓ نے اعتراض مذکور سے بچنے کے لیے کہا کہ آیت مذکورہ میں خاص افراد یعنی کامل طاعت والے جن و انس مراد ہیں۔ حضرت ابن عباس کی قرأت سے اس تفسیر کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس کی قراءت اس طرح ہے : مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنَِ ۔ میرے نزدیک آیت کا تفسیری صحیح مطلب اس طرح ہے : میں نے جن و انس کو (یعنی تمام جن و انس کو) عبادت کرنے کے قابل پیدا کیا۔ یعنی ہر شخص میں اداء عبادت کی صلاحیت اور استعداد پیدا کردی۔ اس تفسیر کی تائید صحیحین کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ‘ پھر اس کے ماں ‘ باپ اس کو یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے جانور کا بچہ صحیح وسالم پیدا ہوتا ہے کیا تم کسی چوپائے کو ناک ‘ کان کٹا (پیدا ہوتا) دیکھتے ہو پھر حضور ﷺ نے آیت : فِطْرَۃَ اللہ الَّتِیْ فِطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہ تلاوت فرمائی۔ (رواہ ابوہریرہ ؓ یہ تاویل حضرت علی ؓ کی تفسیر کے مناسب ہے۔ اس آیت کا مقتضی کافروں کی مذمت ہے کہ ان کو فطرت سلیمہ عطا کی گئی مگر انہوں نے اصل فطرت کو ضائع کردیا۔
Top