Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 57
مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ
مَآ اُرِيْدُ : نہیں میں چاہتا مِنْهُمْ : ان سے مِّنْ رِّزْقٍ : کوئی رزق وَّمَآ اُرِيْدُ : اور نہیں میں چاہتا اَنْ : کہ يُّطْعِمُوْنِ : وہ کھلائیں مجھ کو
میں ان سے طالب رزق نہیں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے (کھانا) کھلائیں
ما ارید منھم من رزق وما ارید ان یطعمون میں ان سے (مخلوق کو) رزق (رسانی) کی درخواست نہیں کرتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کچھ کھلایا کریں مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ ..... مقصد یہ ہے کہ اللہ کا اپنے بندوں سے تعلق ایسا نہیں ہے جیسے دوسرے آقاؤں کا اپنے غلاموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ آقا چاہتے ہیں کہ ان کے غلام ان کو کما کر کھلائیں۔ ان کے مالک ہونے کی یہی غرض ہوتی ہے کہ ان کے ذریعہ سے کمائی کرائیں اور خود لے لیں۔ اللہ کی شان اس سے بہت بلند ہے۔ بعض اہل تفسیر نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ میں بندوں سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ دو سروں کو یا خود اپنے آپ کو رزق پہنچائیں یا میری مخلوق میں سے کسی کو کھانا کھلائیں۔ اس مطلب پر ایک شبہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے طعام کی نسبت اپنی طرف کی ہے (اور فرمایا ہے ‘ میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں) اور یہ نہیں فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ میری مخلوق میں سے کسی کو کھانا کھلائیں۔ 1 س شبہ کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ مخلوق اللہ کی عیال ہے جو اللہ کی عیال کو کھانا دیتا ہے وہ گویا خدا کو دیتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے : ” اللہ فرمائے گا ‘ اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا پر تو نے مجھے کھانا نہیں دیا ‘ بندہ کہے گا : اے میرے ربّ ! میں تجھے کھانا کیسے دیتا تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ فرمائے گا : کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا پر تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا ‘ اگر تو اس کو کھانا دے دیتا تو مجھے اس کے پاس (موجود) پاتا۔ (رواہ مسلم من حدیث ابی ہریرہ ؓ اِس حدیث کی دوسری روایت میں اتنا اور بھی آیا ہے ‘ میں بیمار ہوا تو تو نے میری عیادت نہیں کی ‘ میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے نہیں پلایا۔ میں کہتا ہوں اس قول میں خدا کی طرف رزق کی نسبت مجازی ہے اور مخلوق کو رزق دینا مبنی بر حقیقت ہے (اور اس صورت میں آیت کا معنی صحیح نہ ہوگا) اس پر یہ اعتراض وارد ہوسکتا ہے کہ اللہ نے سب لوگوں کو غریبوں کے لیے اداء زکوٰۃ کا حکم دیا ہے اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ خود بھی کھاؤ اور اہل و عیال کو بھی کھلاؤ اور جن لوگوں کا خرچ تم پر واجب ہو ان کو بھی دو ‘ جب یہ بات ہے تو پھر یہ قول کیسے صحیح ہوگا کہ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میری مخلوق کو کھلائیں ‘ اس اعتراض کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ زکوٰۃ کو واجب کرنے کا اصل مقصد تعمیل حکم اور فعل اداء ہے۔ رزق پہنچانا اصل مقصد نہیں ہے۔ اسلئے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نابالغ بچے اور دیوانے کے مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے (کیونکہ وہ اداء کے اہل نہیں ہیں) لیکن یہ جواب درست نہیں ہے۔ عُشر ‘ خراج ‘ باپ ‘ اولاد اور بیوی کے تمام مصارف کا اصل مقصد ہی ہے۔ بندگان خدا کو رزق پہنچانا ‘ اسلئے ان مصارف میں نیابت جاری ہوتی ہے اور بچہ کے ولی کے اداء کرنے سے یہ واجبات ادا ہوجاتے ہیں۔
Top