Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 14
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى
عِنْدَ : پاس سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى : سدرۃ المنتہی کے
پرلی حد کی بیری کے پاس
عند سدرۃ المنتھی . سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ ظاہر یہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ اور کعب الاحبار کے سوال میں جس رؤیت چشم کا ذکر آیا ہے یہ وہی رؤیت ہے جو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہوئی۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی کا تعلق مَا یَرٰی سے ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ میں اضافت موصوف الی الصفت ہے جیسے جانب الغرب اور مسجد الجامع میں ہے۔ علمائے بصرہ کے نزدیک موصوف محذوف ہے۔ اصل میں سدرۃ المکان المنتہیٰ تھا۔ سدرۃ کو منتہیٰ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اعمال خلق پہنچنے کی یہ آخری حد ہے ‘ یہاں پہنچ کر ملائکہ سے لے لیے جاتے ہیں اور اوپر سے احکام اتر کر یہاں تک پہنچتے ہیں اور یہاں سے ملائکہ لے کر نیچے اترتے ہیں۔ گویا یہ مقام احکام الٰہی کے نزول اور اعمال خلق کے عروج کی آخری حد ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ سے جو کچھ پرے ہے وہ غیب ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ اور کعب کا کلام اسی پر دلالت کرتا ہے۔ معراج کا قصّہ صحیحین میں حضرت انس کی روایت سے بحوالہ حضرت مالک ؓ بن صعصعہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں حطیم میں سو رہا تھا کہ ایک آنے والا آیا ‘ اس نے اس جگہ سے اس جگہ تک یعنی ہنسلی کے گڑھے سے ناف تک (میرا سینہ) شق کیا پھر ایک سنہری طشت ایمان سے بھرا ہوا لایا گیا اور (اس سے) میرے دل کو دھویا گیا۔ پھر (ایمان کو) دل میں بھر کر اس کی جگہ دوبارہ رکھ دیا گیا۔ ایک روایت میں آیا ہے پھر آب زمزم سے اس کو دھویا گیا۔ اس کے بعد ایمان اور حکمت سے اس کو بھر دیا۔ پھر ایک چوپایہ لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ جس کو براق کہا جاتا تھا۔ حد نظر تک اس کا ایک قدم پڑتا تھا ‘ پھر مجھے اس پر سوار کیا گیا۔ اس کے بعد جبرئیل مجھے لے کر روانہ ہوئے یہاں تک کہ آسمان دنیا تک اور (دروازہ) کھلوانا چاہا۔ دریافت کیا گیا : کون ہے ؟ جبرئیل نے کہا : جبرئیل۔ پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے ؟ جبرئیل نے کہا : محمد ﷺ ۔ دریافت کیا گیا : کیا ان کے پاس تم کو بھیجا گیا تھا ؟ جبرئیل نے کہا : ہاں (دروازہ) فوراً کھول دیا گیا اور کہا گیا : مرحبا ‘ خوش آمدید ! جب میں اوپر پہنچا تو وہاں آدم کو موجود پایا۔ جبرئیل نے کہا : یہ تمہارے باپ آدم ہیں ‘ ان کو سلام کرو۔ میں نے سلام کیا۔ آدم ( علیہ السلام) نے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بیٹے کے لیے مرحبا۔ اس کے بعد جبرئیل ( علیہ السلام) مجھے دوسرے آسمان تک چڑھا کرلے گئے اور (دروازہ) کھلوانا چاہا۔ حضور ﷺ نے آسمان تک پہنچنے کے سلسلہ میں بیان فرمایا۔ چناچہ فرمایا : جب میں اوپر پہنچا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ کو پایا ‘ جو آپس میں خالہ کے بیٹے تھے۔ جبرئیل نے کہا : یہی یحییٰ ہیں اور یہ عیسیٰ ہیں۔ ان کو سلام کرو۔ میں نے دونوں کو سلام کیا۔ دونوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بھائی اور صالح نبی کے لیے مرحبا۔ حضور ﷺ نے تیسرے آسمان یر یوسف ( علیہ السلام) (کے ہونے) کا اور چوتھے پر ادریس کا اور پانچویں پر ہارون کا اور چھٹے پر موسیٰ (کے موجود ہونے کا) ذکر کیا۔ ہر ایک نے صالح بھائی اور صالح نبی کے لیے مرحبا کہا۔ جب میں آگے بڑھا یعنی موسیٰ ( علیہ السلام) سے تو موسیٰ ( علیہ السلام) رو دیئے ‘ پوچھا گیا : آپ کے رونے کی کیا وجہ ؟ موسیٰ نے کہا : میں اس لیے رویا کہ ایک لڑکے کو میرے بعد (نبی بنا کر) بھیجا گیا۔ جس کی امت ‘ میری امت سے زیادہ جنت میں جائے گی۔ پھر مجھے چڑھا کر ساتویں آسمان تک لے جایا گیا۔ اس جگہ بھی حضور ﷺ نے دروازہ کھلوانے وغیرہ کا حسب مذکور بالا ذکر فرمایا اور وہاں ابراہیم (علیہ السلام) کے موجود ہونے کا بھی بیان فرمایا۔ جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا : یہ آپ کے باپ ابراہیم ہیں۔ ان کو سلام کرو۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : صالح بیٹے کے لیے مرحبا۔ اس کے بعد سدرۃ المنتہیٰ اٹھا کر میرے سامنے لایا گیا ‘ اس کے بیر ایسے تھے جیسے ہجر کے مٹکے اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان۔ جبرئیل نے کہا : یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے ‘ وہاں سے چار دریانکل رہے تھے۔ دو اندرونی و بیرونی۔ میرے دریافت کرنے پر جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا : دو اندرونی دریا تو وہ ہیں جو جنت کے اندر ہیں اور دو بیرونی دریا نیل و فرات ہیں۔ اس کے بعد بیت معمور میرے سامنے لایا گیا پھر ایک برتن شراب کا بھرا ہوا اور ایک برتن دودھ سے بھرا ہوا اور ایک برتن شہد سے بھرا ہوا ‘ میرے سامنے لایا گیا۔ میں نے دودھ لے لیا۔ جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا : یہی وہ (دین) فطرت ہے جس پر آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی امت ہوگی۔ اس کے بعد مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ میں لوٹ کر آیا اور موسیٰ کی طرف سے گزرا تو انہوں نے پوچھا : آپ کو کیا حکم دیا گیا ؟ میں نے کہا : ہر روز پچاس نمازوں کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا : آپ کی امت ہر روز پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ میں واللہ ! آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کرچکا ہوں۔ میں بنی اسرائیل کی درستی کی بھی سخت کوشش کرچکا ہوں۔ آپ ﷺ جا کر اپنی امت کے لیے اپنے رب سے درخواست کیجئے۔ میں واپس گیا (اور تخفیف کی درخواست کی) اللہ نے دس نمازیں ساقط کردیں۔ میں لوٹ کر موسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف آیا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے وہی پہلے کی طرح بات کی۔ میں پھر لوٹ کر گیا اور اللہ نے دس نمازیں (اور) ساقط کردیں۔ میں موسیٰ کے پاس لوٹ کر آیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے وہی بات پہلے والی کہی۔ میں لوٹ کر پھر گیا تو مجھے روز پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا۔ میں موسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس آیاتو انہوں نے پوچھا : کیا حکم ملا ؟ میں نے کہا : مجھے ہر روز پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا : آپ کی امت روزانہ پانچ نمازوں کی بھی طاقت نہیں رکھتی۔ میں آپ ﷺ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کرچکا ہوں اور بنی اسرائیل سے میرا سخت واسطہ پڑچکا ہے۔ آپ واپس جا کر اپنی امت کے لیے تخفیف کی اپنے رب سے درخواست کیجئے۔ میں نے کہا : میں اتنی مرتبہ درخواست کرچکا ہوں کہ اب (مزید درخواست کرنے سے) مجھے شرم آتی ہے لیکن میں خوشی و رضاء سے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ جب میں (موسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس سے) آگے بڑھا تو ایک نداء کرنے والے نے پکار کر کہا : میں نے اپنا فرض جاری کردیا اور اپنے بندوں کے لیے تخفیف کردی۔ مسلمؔ نے بوساطت ثابت بنانی حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس براق لایا گریا۔ وہ ایک چوپایہ تھا ‘ سفید دراز قامت گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا۔ اس کی (ایک) ٹاپ وہاں پڑتی تھی جہاں تک اس کی نظر پہنچتی تھی۔ میں اس پر سوار ہوگیا۔ یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچ گیا۔ جس حلقہ سے دوسرے انبیاء (اپنے جانوروں کو) باندھ دیتے تھے۔ اس سے میں نے براق کو باندھ دیا۔ ابن جریر کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب ہم بیت المقدس پہنچ گئے تو جبرئیل نے اشارہ کر کے پتھر میں شگاف کردیا اور اس سے براق کو باندھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھر میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعت نماز پڑھی ‘ باہر نکلا تو جبرئیل ( علیہ السلام) ایک برتن شراب سے بھرا ہوا اور ایک برتن دودھ سے بھرا ہوا میرے پاس لائے۔ میں نے دودھ کو پسند کرلیا۔ جبرئیل نے کہا : آپ ﷺ نے فطرت کو پسند کرلیا ‘ اس کے بعد ہم کو چڑھا کر آسمان کی طرف لے گئے۔ باقی حدیث روایت اوّل کے موافق ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میری ملاقات (وہاں) آدم سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تیسرے آسمان میں یوسف ( علیہ السلام) سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ان کو (کُل انسانوں کے) حسن کا آدھا حصہ دیا گیا تھا۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ اس روایت میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے رونے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم کی ملاقات کا ذکر کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیت المعمور سے کمر لگائے بیٹھے تھے۔ بیت المعمور میں ہر روز ستّر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں (عبادت کے بعد) جب نکل کر چلے جاتے ہیں تو دوبارہ لوٹ کر نہیں آتے۔ اس کے بعد مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ اس کے پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور پھل اتنے بڑے تھے جیسے مٹکے۔ جب سدرۃ المنتہیٰ پر جو کچھ چھانا تھا ‘ امر الٰہی سے چھا گیا تو اس میں ایسا تغیر پیدا ہوگیا کہ کوئی مخلوق اس کے حسن کا بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتی اور اللہ نے جو کچھ وحی کرنا تھی مجھ پر نازل کردی اور ہر شبانہ روز میں پچاس نمازیں مجھ پر فرض کردیں۔ میں اتر کر موسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف آیا تو انہوں نے پوچھا : آپ ﷺ کے رب نے آپ ﷺ پر کیا فرض کیا ؟ میں نے کہا : ہر دن ‘ رات میں پچاس نمازیں۔ موسیٰ نے کہا : واپس جا کر اپنے رب سے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں ہے۔ میں بنی اسرائیل کا تجربہ اور آزمائش کرچکا ہوں۔ میں واپس اپنے رب کی طرف گیا اور عرض کیا۔ اے میرے ربّ ! میری امت کے لیے تخفیف کر دے۔ اللہ نے پانچ نمازیں ساقط کردیں۔ میں موسیٰ کے پاس لوٹ کر آیا اور ان سے کہا : اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا : آپ ﷺ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں۔ لوٹ کر پھر اپنے رب کے پاس جائیے اور تخفیف کی درخواست کیجئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس طرح میں اپنے رب اور موسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیان برابر آتا جاتا رہا۔ آخر کار اللہ نے فرمایا : محمد ! ہر دن رات میں یہ پانچ نمازیں ہیں۔ ہر نماز دس کے قائم مقام ہے۔ اس لیے یہ پچاس نمازیں ہوگئیں۔ جو شخص نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن کر نہ پائے گا ‘ اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور جو کر بھی لے گا اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور جو شخص کسی گناہ کا ارادہ کرے گا لیکن کر نہ پائے گا ‘ اس کے لیے کچھ نہیں لکھا جائے گا اور اگر کر گزرا تو اس کے لیے ایک گناہ لکھا جائے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس کے بعد اتر کر میں موسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف گیا اور (پچاس کی جگہ پانچ نمازیں باقی رہنے کی) ان کو اطلاع دی ‘ انہوں نے پھر یہی کہا کہ واپس جا کر اپنے رب سے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ میں نے کہا : اتنی بار میں لوٹ ‘ لوٹ کر جا چکا کہ اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن عباس ؓ کی وساطت سے حضرت ابوذر کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے گھر کی چھت میں شگاف کردیا گیا۔ اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر آپ ﷺ نے شق صدر کا حسب روایت سابق ذکر کیا لیکن براق کا ذکر نہیں کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : پھر جبرئیل میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف چڑھا کرلے گئے۔ جب میں آسمان دنیا تک پہنچا تو جبرئیل نے آسمان کے دربان سے کہا : کھولو۔ جب (دروازہ) کھول دیا گیا اور ہم آسمان دنیا پر چڑھ گئے تو وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا نظر آیا۔ جس کے دائیں طرف کچھ شخص تھے۔ جب وہ دائیں طرف دیکھتا تھا تو ہنس دیتا تھا اور بائیں طرف دیکھ کر رو دیتا تھا۔ اس نے (مجھ سے) کہا : صالح نبی اور صالح بیٹے کے لیے مرحبا ! میں نے جبرئیل سے کہا : یہ کون ہیں ؟ جبرئیل نے جواب دیا : یہ آدم ہیں۔ ان کے دائیں بائیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ دائیں جانب والے جنتی ہیں اور بائیں طرف والے دوزخی اس وجہ سے دائیں جانب دیکھتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور بائیں طرف دیکھ کر رو دیتے ہیں۔ حضور ﷺ نے اس کے بعد آسمانوں پر آدم ‘ ادریس ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ اور ابراہیم (علیہم السلام) سے ملاقات کا ذکر کیا لیکن کون کس مقام پر تھا ‘ اس بات کا ثبوت نہیں۔ اتنا ضرور فرمایا کہ آسمان دنیا پر آدم ( علیہ السلام) سے اور چھٹے آسمان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ زہری نے کہا مجھ سے ابن حزم نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوحیہ انصاری ؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : پھر مجھے چڑھا کر ایک چھت پر پہنچایا گیا ‘ جہاں قلموں کے چلنے کی آواز مجھے سنائی دیتی تھی۔ ابن حزم نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ حضور ﷺ نے فرمایا : پھر میری امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ جب میں لوٹا اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف سے گزرا تو انہوں نے پوچھا : اللہ نے تمہارے لیے کیا فرض کیا ؟ میں نے کہا : پچاس نمازیں۔ انہوں نے کہا : اپنے رب کے پاس واپس جاؤ۔ آپ ﷺ کی امت میں اس کی طاقت نہیں۔ غرض موسیٰ ( علیہ السلام) نے مجھے لوٹا دیا۔ اللہ نے آدھی نمازیں ساقط کردیں۔ میں موسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف لوٹ کر آیا اور کہہ دیا کہ اللہ نے آدھی نمازیں ساقط کردیں۔ موسیٰ نے کہا : پھر لوٹ کر جاؤ۔ آپ ﷺ کی امت میں اس کی طاقت بھی نہیں۔ غرض میں لوٹ کر گیا۔ (اور تخفیف کی درخواست کی) ۔ اللہ نے فرمایا : یہ پانچ (لازم) ہیں اور (حقیقت میں) یہ پچاس ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ میں موسیٰ کی طرف لوٹ کر آیا۔ موسیٰ نے کہا : پھر اپنے رب کے پاس واپس جاؤ۔ میں نے کہا : اب تو مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ اس کے بعد جبرئیل ( علیہ السلام) مجھے لے کر چلے اور سدرہ تک پہنچا دیا۔ سدرہ پر اس وقت بہت سے مختلف رنگ چھائے ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہیں وہ کیا تھے۔ اس کے بعد مجھے جنت میں داخل کیا گیا۔ وہاں موتی کے ڈیرے تھے اور مٹی مشک کی تھی۔ معمر نے بوساطت قتادہ ‘ حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ شب معراج میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے براق لایا گیا جو زین پوش اور لگام بردوش تھا۔ براق نے کچھ شوخی کی۔ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے فرمایا : کیا محمد ﷺ کے ساتھ تو ایسی حرکت کر رہا ہے حالانکہ کوئی بھی اللہ کے نزدیک محمد ﷺ سے زیادہ عزت والا تجھ پر سوار نہیں ہوا۔ بُراق یہ بات سن کر پسینے ‘ پسینے ہوگیا۔ مسلم کا بیان ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : شب معراج میں رسول اللہ ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا گیا۔ سدرۃ المنتہیٰ چھٹے آسمان میں ہے۔ زمین سے جو اعمال اوپر چڑھتے ہیں وہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچتے ہیں اور وہاں سے (اللہ کی طرف سے) انکو لے لیا جاتا ہے اور جو کچھ (حکم) اوپر سے اترتا ہے وہ سدرۃ المنتہیٰ تک آتا ہے اور یہاں سے (ملائکہ کے قبضہ میں) اسکو دیدیا جاتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ہلال بن یسار ؓ نے کہا : میں موجود تھا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کعب ؓ (احبار) سے سدرۃ المنتہیٰ کے متعلق دریافت کیا۔ کعب نے کہا : سدرہ عرش کی جڑ میں ہے۔ مخلوقات کے علم کی رسائی بس وہیں تک ہے۔ اس کے پرے غیب ہے۔ جس سے اللہ کے سوا کوئی واقف نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں اس قول میں مخلوقات سے مراد ملائکہ ہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ تک ملائکہ کی رسائی ہے۔ اس سے آگے کوئی فرشتہ نہیں بڑھ سکتا۔ اس سے پرے مکمل غیب ہے خود سدرۃ المنتہیٰ اگرچہ بعض آدمیوں کے لیے غیب ہے مگر بعض ملائکہ کے لیے غیب نہیں ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق ؓ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر سنا۔ آپ ﷺ فرما رہے تھے : اس کی شاخ کا سایہ ایسا ہے کہ ایک سوار سو برس اس کے نیچے چلتا رہا اور ایک لاکھ سوار اس کے سایہ میں آسکتے ہیں۔ اس کا فرش سونے کا ہے اور اس کے پھل مٹکوں کی طرح (مقدار میں) ہیں۔ مقاتل نے کہا : وہ ایک درخت ہے جو زیور اور لباس اور پھلوں سے اور تمام رنگوں سے آراستہ ہے۔ اگر اس کا پتہ زمین پر گرجائے تو زمین کے سارے رہنے والوں کو روشن کر دے۔ یہی طوبیٰ ہے۔
Top