Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا
افرء یتیم اللت والعزی . بھلا کیا تم نے لات اور عزّٰی اور مناۃ کی حالت پر بھی غور کیا۔ اَفَرَءَ یْتُمُ : استفہام انکاری تنبیہی ہے اور محذوف جملہ پر اس کا عطف ہے۔ اصل کلام اس طرح تھا ‘ کیا تم نے اپنے معبودوں کو دیکھا اور کیا لاۃ اور عزّٰی کا (غور کی نظر سے) مشاہدہ کیا۔ اَللاَّتَ وَالْعُزّٰی : یہ بتوں کے نام تھے۔ مشرک جن کی پوجا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور یہ بت ملائکہ کے ہیکل ہیں۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ جنات کی عورتیں (پریاں) خدا کی بیٹیاں ہیں اور یہ بت ان کے مسکن ہیں۔ اس لیے ان بتوں کو بصیغۂ مؤنث کہتے تھے۔ اللہ کا مؤنث اللات اور اعز (صیغۂ اسم تفصیل مذکر) سے عزیٰ بتوں کے ناموں کا اشتقاق کیا تھا۔ بعض اہل لغت کے نزدیک اللّات (مصدر ہے) اصل میں لویتہ بروزن فعلۃ ہے۔ لویتہ لوی یلوی کا مصدر ہے جس کا مرادی معنی ہے : طواف کرنا۔ مشرک ان بتوں کا طواف کیا کرتے تھے۔ لویتہ کے واؤ کو الف ؔ سے تبدیل کر کے خلاف قیاس یاء کو حذف کردیا گیا پھر تاء تانیث لے آئی گئی اور اس کو طویل کردیا گیا۔ لات ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ‘ مجاہد ‘ رویس اور ابوصالح ؓ نے اللاتّ بتشدید تاء پڑھا ہے اور صراحت کی ہے کہ یہ بت ایک مرد کی شکل کا تھا جو حاجیوں کو گھی ‘ ستو ملا کر کھلایا کرتا تھا۔ جب وہ مرگیا تو لوگ اس کی قبر پر معتکف ہوئے پھر اس کو پوجنے لگے۔ قتادہ کا بیان ہے کہ اللاّت طائف میں بنی ثقیف کا بت تھا۔ ابن زید نے کہا : اللاّت نخلہ میں ایک کوٹھڑی تھی ‘ قریش اس کو پوجتے تھے۔ مجاہدؔ کا بیان ہے کہ عزیٰ غطفان کی آبادی میں ایک درخت تھا۔ بنی غطفان اس کو پوجتے تھے۔ ابن اسحاق نے کہا : عزّٰی نخلہ میں ایک کوٹھڑی (کمرہ ‘ مکان) تھی۔ اس کا مجاور و دربان بنی شیبان تھے اور بنی شیبان ‘ بنی ہاشم کے حلیف (معاہد) تھے۔ قریش اور تمام بنی کنانہ کا یہ سب سے بڑا بت تھا۔ عمرو بن لحی نے بنی کنانہ اور قریش سے کہہ دیا تھا کہ تمہارا رب سردی کے موسم میں طائف میں لات کے پاس اور موسم گرما میں عزّٰی کے پاس رہتا ہے اسلئے لوگ ان دونوں کی تعظیم کرتے تھے اور ہر ایک کیلئے ایک حجرہ بنا دیا تھا اور جس طرح کعبہ کو قربانی کا جانور بھیجتے تھے۔ اسی طرح ان دونوں بتوں کو بھی قربانی کے جانور بھیجتے تھے۔ (جن کو وہاں بھینٹ چڑھایا جاتا تھا) ۔ بیہقی نے حضرت ابو الطفیل کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے حضرت خالد ؓ بن ولید وہاں گئے اور کیکر کے درختوں (یعنی جھاڑیوں) کو کاٹ دیا اور عزّٰی کو ڈھا دیا ‘ پھر واپس آکر رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دے دی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا تم کو وہاں کچھ نظر آیا ؟ حضرت خالد ؓ نے جواب دیا : کچھ بھی نہیں۔ فرمایا : تو تم نے اس کو نہیں ڈھایا۔ حضرت خالد ؓ دوبارہ گئے اور برابر چوکنے رہے۔ جب مجاوروں نے خالد کو دیکھا تو پہاڑوں پر پھیل گئے اور کہنے لگے : عزیٰ اس کو لے ‘ اس کو ہلاک کر دے ورنہ ذلت کے ساتھ مرجا۔ فوراً ایک کالی بھجنگ ‘ سر ننگی ‘ بکھرے ہوئے بالوں والی عورت سر اور منہ پر خاک اڑاتی ہوئی برآمد ہوئی۔ خالد ؓ نے تلوار سونت لی اور فرمایا : میں تجھے نہیں مانتا۔ میں تجھے پاک نہیں جانتا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ نے تجھے ذلیل کیا ہے۔ پھر تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کردیئے اور رسول اللہ ﷺ کو واپس آکر اطلاع دے دی ‘ فرمایا : ہاں ! وہ عزّٰی تھی۔ اب وہ تمہارے شہر میں پوجے جانے سے ہمیشہ کے لیے ناامید ہوگئی۔ ضحاک کا بیان ہے کہ عزیٰ بن غطفان کی آبادی میں ایک بت تھا۔ جس کو سعید بن ظالم غطفانی نے قائم کیا تھا۔ اس کا واقعہ یہ ہوا کہ سعید بن ظالم مکہ کو گیا۔ وہاں اس نے صفا اور مروہ کی پہاڑیاں دیکھیں۔ جن کے درمیان لوگ چکر لگاتے تھے۔ جب مکہ سے وادئی نخلہ میں واپس آیا تو اس نے اپنی قوم والوں سے کہا : مکہ والوں کا صفاء اور مروہ ہے اور تمہارے پاس کوئی صفاء اور مروہ نہیں ہے اور ان کا ایک معبود ہے ‘ جس کی وہ پوجا کرتے ہیں اور تمہارا کوئی معبود نہیں۔ لوگوں نے کہا : پھر آپ کا کیا حکم ہے ؟ سعید نے کہا : میں بھی تمہارے لیے ایسا ہی بنا دوں گا۔ چناچہ وہ ایک پتھر صفا کا اور ایک مروہ کالا یا۔ صفا کے پتھر کو ایک جگہ رکھ دیا اور کہا : یہ تمہارے لیے صفا ہے اور مروہ والے پتھر کو کچھ فاصلے سے رکھ کر کہا : یہ تمہارا مروہ ہے۔ پھر ایک درخت کے سہارے سے تین پتھر کھڑے کئے اور کہا : یہ تمہارا رب ہے۔ اس طرح لوگ دونوں پتھروں کے درمیان چکر لگانے اور پتھروں کی پوجا کرنے لگے۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کیا اور پتھر اٹھوا دیئے اور حضرت خالد کو عزیٰ (کے درخت) کو کاٹ دینے پر مامور کیا (اور انہوں نے حسب الحکم جا کر درخت کو کاٹ دیا) ۔
Top