Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 45
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۠   ۧ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
فبای الا ربکما تکذبان فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا ..... : بعض علماء نے لکھا ہے کہ آیت : کل من علیھا فان سے اس آیت تک تنبیہات ہیں ‘ توبیخیں اور زجریات ہیں اور عذاب کی دھمکیاں ہیں اور یہ تمام چیزیں اللہ کی نعمت ہیں کیونکہ گناہوں سے باز رہنے کا یہ ذریعہ ہیں۔ علماء کا یہ قول محض تکلف ہے۔ کیونکہ اٰلآء سے مراد ہے تخلیق وجود ‘ ابقاء وجودکطاء رزق کی نعمتیں اور انہی جیسی دوسری بخششیں ‘ عذاب ‘ سزا اور ہلاکت کو توڑ مروڑ کر نعمت شمار کیا جائے لیکن عذاب سے توبیخ اور زجر کوئی نعمت نہیں ہے ‘ یہ زجر آگیں آیت اس سورة میں 31 مرتبہ ذکر کی گئی ہے۔ آٹھ مرتبہ تو اللہ کی آٹھ حقیقی صفات کی گنتی کے موافق ذکر کیا گیا ہے۔ ان آٹھوں مقامات میں اللہ نے اس آیت سے پہلے اپنی نادر صفات اور عجائب تخلیق کو بیان کیا ہے۔ بدائع صنعت اور نوادر خلقت کا تذکرہ آیت : کل یوم ھو فی شانٍ تک کر کے تنبیہ کی ہے کہ جس خالق کی تخلیق وقدرت ایسی ہو اس کی تکذیب کسی طرح زیبا نہیں۔ سات جگہ آیت مذکورہ سے پہلے ابواب جہنم کی تعداد کے مطابق عذاب کی وعید اور سزا کی تخویف مذکور ہے۔ اس مضمون کا بیان آیت : سنفرغ لکم سے آیت : یطوفون بینھا و بین حمیم آن تک کیا گیا ہے۔ ان ساتوں مقامات میں آیت مذکورہ کا ذکر کرنے سے مقصود ہے ‘ اس بات پر تنبیہ کرنی کہ ایسے قادر منتقم کے انتقام سے ڈرنا اور اس کی نعمتوں کی تکذیب نہ کرنا لازم ہے ‘ پھر ابواب جنت کے مطابق آٹھ جگہ نعمتوں کا ذکر کر کے آیت مذکورہ کو ذکر کیا ہے۔ اس طرح دوسری جنت کی نعمتوں کا ذکر آٹھ بار کرنے کے ساتھ آیت مذکورہ کو ذکر کیا ہے تاکہ جنت کی نعمتوں کی جانب رغبت ہو اور ایسے قدرت والے منعم کی نعمتوں کی ناشکری نہ کی جائے ‘ واللہ اعلم۔ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے کتاب العظمۃ میں عطاء کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک روز حضرت ابوبکر ؓ قیامت ‘ میزان اور جنت و دوزخ کی سوچ میں پڑگئے اور فرمایا : کاش میں پیدا ہی نہ ہوتا۔ کاش ! میں گھاس ہوتا کہ کوئی چارپایہ مجھے آکر چر لیتا (اور دوبارہ مجھے پیدا نہ کیا جاتا) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top