Tafseer-e-Mazhari - Al-Hashr : 10
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ جَآءُوْ : وہ آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : ہمیں بخشدے وَلِاِخْوَانِنَا : اور ہمارے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے سَبَقُوْنَا : ہم سے سبقت کی بِالْاِيْمَانِ : ایمان میں وَلَا تَجْعَلْ : اور نہ ہونے دے فِيْ قُلُوْبِنَا : ہمارے دلوں میں غِلًّا : کوئی کینہ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کیلئے جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے
والذین جاء وا من بعد ھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین امنوا ربنا انک رء وف رحیم . ” اور ان لوگوں کا بھی (مالِ فے میں) حق ہے جو ان کے بعد آئے ‘ بعد کو آنے والے ان اگلوں کے لیے (دعا کرتے اور) کہتے ہیں۔ اے ہمارے ربّ ! ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ان ایمان والوں کے لیے کینہ نہ پیدا کردینا۔ اے ہمارے ربّ ! آپ بڑے شفیق ‘ رحیم ہیں۔ “ بَعْدِھِمْ : یعنی مہاجرین و انصار کے بعد۔ ان سے مراد ہیں وہ صحابی جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور وہ تمام مؤمن بھی مراد ہیں جو صحابی کے بعد قیامت تک آنے والے ہیں۔ لِاِخْوَانِنَا : یعنی ہمارے دینی بھائیوں کے لیے جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ پہلوں کا پچھلوں پر بڑا حق ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے جن کو ہدایت ملی اور ایمان کی توفیق ہوئی ‘ انہی کے ذریعہ سے پیچھے آنے والے ہدایت یاب ہوئے۔ غِلاًّ : کینہ ‘ حسد ‘ بغض۔ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : ان سے مراد ہیں مہاجرین و انصار جو بعد کو آنے والوں سے پہلے ایمان لائے۔ اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ اگر کسی کے دل میں کسی صحابی کی طرف سے کسی طرح کا بغض ہو تو اس کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوگا جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا (یعنی نواصب ‘ خوارج اور شیعہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں ‘ مترجم) یہ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے۔ مؤلف فصول نے جو امامیہ اثنا عشری فرقہ میں سے تھا لکھا ہے کہ ایک جماعت حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ پر نکتہ چینی کر رہی تھی۔ حضرت جعفر محمد بن علی باقر نے ان سے فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں شامل نہیں ہو ‘ جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ. [ الاٰیۃ ] صحیفۂ کاملہ میں آیا ہے کہ حضرت امام زین العابدین یہ دعا کیا کرتے تھے : اے اللہ ! محمد ﷺ کے صحابہ ؓ پر خصوصیت کے ساتھ رحمت نازل فرما۔ جنہوں نے صحبت (رسول) کو اچھی طرح نباہا اور رسول اللہ ﷺ کی مدد کرنے میں اچھی طرح آزمائش میں پورے اترے ‘ تیزی کے ساتھ خدمت رسول میں حاضر ہوئے اور دعوت رسول کی طرف پیش قدمی کی اور جونہی آپ ﷺ نے اپنی رسالت کے دلائل بیان کیے فوراً انہوں نے قبول کرلیا اور کلمۂ توحید و رسالت کو ظاہر کرنے میں (تامل نہیں کیا بلکہ) اہل و عیال کو چھوڑ دیا اور نبوت کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے ماں ‘ باپ اور اولاد سے بھی لڑے اور آپ کی وجہ سے فتح یاب ہوئے اور اے اللہ ! ان لوگوں پر رحمت نازل فرما جو رسول اللہ ﷺ کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کی دوستی میں (جان و مال کی) اس تجارت کے امیدوار تھے جو خسران مآل نہیں تھی اور (ان لوگوں پر بھی رحمت نازل کر) جنہوں نے اسلام کا مضبوط قبضہ پکڑ کر اپنے قبائل کو چھوڑ دیا اور ان کی رشتہ داریاں (اور قرابتداریاں) منقطع ہوگئیں اور قرابت رسول کے سایہ میں وہ مسکن گزیں ہوگئے۔ اے اللہ ! جن چیزوں کو انہوں نے تیرے لیے اور تیرے راستہ میں قربان کردیا ‘ ان کو نظر انداز نہ کرنا اور اپنی خوشنودی عطا فرما کر ان کو خوش کرنا۔ اس بدلہ میں کہ انہوں نے تیرے دین پر لوگوں کو جمع کیا اور تیرے رسول کے ساتھ رہے اور تیری طرف آنے کی لوگوں کو دعوت دی اور ان کی قدر افزائی فرما۔ اس بناء پر کہ انہوں نے تیری راہ میں اپنی قوم کی بستیوں کو چھوڑا اور وسعت معاش سے نکل کر تنگ دستی میں پڑے۔ اے اللہ ! اور رحمت نازل فرما ان لوگوں پر بھی جو بخوبی صحابہ کی پیروی کرنے والے ہوں اور کہتے ہوں : رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ..... (اے ہمارے ربّ ! ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے ‘ الخ) ۔ مالک بن معول کا بیان ہے مجھ سے عامر بن شرحبیل شعبی نے کہا : مالک ! ایک بات میں یہودی اور عیسائی رافضیوں سے افضل ہیں ‘ جب یہودیوں سے دریافت کیا گیا کہ تمہاری ملّت میں سب سے افضل کون لوگ تھے ؟ تو انہوں نے کہا : موسیٰ کے صحابہ اور عیسائیوں سے پوچھا گیا : تمہاری امت میں سب سے برتر کون لوگ تھے تو انہوں نے کہا : عیسیٰ کے حواری لیکن جب رافضیوں سے سوال کیا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے برے کون لوگ ہیں ؟ تو کہنے لگے محمد ﷺ کے صحابی۔ ان کو حکم دیا گیا کہ صحابی کے لیے طلب مغفرت فرمائیں تو انہوں نے (بجائے دعا کرنے کے) صحابیوں کو برا کہا ‘ ان کے خلاف روز قیامت تک تلواریں کھچی رہیں گی۔ ان کا جھنڈا کبھی سربلند نہیں ہوگا ‘ نہ ان کے قدم جمیں گے ‘ نہ ایک رائے پر ان کا اتفاق ہوگا۔ جب بھی یہ (صحابہ کے خلاف) لڑائی کی آگ بھڑکائیں گے۔ اللہ ان کی جماعتوں کو منتشر کر کے اور ان کے خون بہا کی لڑائی کی آگ بجھا دے گا۔ اللہ ہم کو گمراہ کن خواہشات سے محفوظ رکھے۔ مالک بن انس ؓ نے فرمایا : جو شخص کسی صحابی سے بغض رکھے گا یا اس کے دل میں کسی صحابی کی طرف سے کینہ ہوگا اس کو مسلمانوں کے مال فئے میں حصہ پانے کا کوئی حق نہیں۔ یہ فرما کر امام مالک (رح) نے آیت : مَآ اَفَآءَ اللہ عُلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُوٰی ..... رَءُ وْفٌ رَحِیْمٌ تک تلاوت فرمائی۔ اکثر مفسرین کے نزدیک تینوں اقسام کے لوگوں کے استحقاق فئے کے لیے فقیر ہونا شرط ہے۔ میرے نزدیک اَلَّذِیْنَ تَبَوَّ ؤُا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ کا عطف اَلْفُقَرَآءَ پر ہے اور کسی مسلمان کے مستحق فئے قرار پانے کی شرط فقیر ہونا نہیں ہے۔ دیکھو ! مسافر بالاتفاق مال فئے کا مصرف ہے حالانکہ ہر مسافر کو فقیر نہیں کہا جاسکتا۔ مہاجرین کے ساتھ جو لفظ فقراء ذکر کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اکثر مہاجرین فقراء تھے۔ یہ قید احترازی نہیں ہے (بلکہ ایک واقعی حالت کا ذکر ہے) جیسے آیت : وَرَبَآءِبُکُمُ اللَّاتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ میں حجورکم کا لفظ محض واقعی بات کا اظہار ہے ‘ اکثر ایسا ہوتا ہی تھا کہ بیوی کے بطن سے گزشتہ شوہر کی جو لڑکی ہوتی تھی وہ سوتیلے باپ کی گود میں پرورش پاتی تھی۔ میرے قول کی وجہ یہ ہے کہ باجماع علماء مال فئے ہر قسم کے مسلمانوں کا حق ہے خواہ غنی ہوں یا فقیر ‘ تمام مسلمان حکام ‘ عمال اور علماء اس سے بہرہ یاب ہوسکتے ہیں (مشاہرات و وظائف اس میں سے ان کو دیئے جاسکتے ہیں) خواہ وہ مالدار ہوں یا نادار۔ اسی طرح اسلامی فوج کے مصارف اس سے کیے جاسکتے ہیں۔ فوجیوں کا نادار ہونا ضروری نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ مال فئے میں سے تمام مسلمانوں کو برابر حصہ دیتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے فضیلت دینی اور خدمت اسلامی کے تفاوت کے پیش نظر تقسیم فئے میں بھی تفاوت کردیا تھا (لیکن مالداری اور ناداری کا لحاظ کسی نے نہیں کیا) ۔ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ مجھ سے ابن ابی النجیح نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر کی خدمت میں (فئے کا) کچھ مال پیش کیا گیا ‘ آپ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے جس شخص سے کچھ مال دینے کا وعدہ کیا ہو ‘ وہ آجائے۔ یہ ارشاد سن کر حضرت جابر بن عبداللہ ؓ آئے اور کہا : مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا جب بحرین کا مال آئے تو میں تجھے اتنا ‘ اتنا (دونوں لپ بھر کر اشارہ کیا) دوں گا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : دونوں ہاتھ بھر کرلے لو۔ میں نے لے لیا ‘ پھر اس کو گنا تو پانچ سو تھے پھر ارشاد فرمایا : ایک ہزار لے (کیونکہ حضور اقدس ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو ملا کر اشارہ کرتے ہوئے اتنا کا لفظ مکرر فرمایا تھا) میں نے ہزار لے لیے۔ اس کے بعد آپ نے ہر اس شخص کو جس سے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ کیا تھا ‘ کچھ کچھ دیا ‘ اس کے بعد بھی کچھ مال باقی رہ گیا تو آپ نے ہر مرد ‘ عورت ‘ بچے ‘ بڑے ‘ آزاد ‘ غلام سب کو برابر بانٹ دیا۔ چناچہ ہر شخص کے حصہ میں 3/19 درہم آئے۔ جب دوسرا سال آیا تو اس سے زیادہ مال آیا ‘ آپ نے وہ بھی لوگوں کو تقسیم کردیا۔ اس بار ہر شخص کے حصہ میں بیس درہم آئے۔ یہ (مساویانہ تقسیم) دیکھ کر کچھ مسلمان حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور عرض کیا : اے رسول خدا کے جانشین ! آپ نے مال کی تقسیم کی اور سب کو برابر حصہ دیا۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو دوسروں پر فضیلت اور سبقت اسلامی اور پختگی حاصل ہے۔ آپ ان کی فضیلت اور اسلامی سبقت اور تقدم کو تقسیم میں ملحوظ رکھتے تو بہتر تھا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : میں اس بات کو خوب جانتا ہوں مگر اس کا ثواب تو (آخرت میں) اللہ دے گا اور یہ تقسیم معاشی ہے اس میں برابری ‘ کمی بیشی (بعض کو بعض پر ترجیح دینے) سے بہتر ہے۔ جب حضرت عمر کا دور خلافت آیا اور فتوحات کا مال آیا تو آپ نے تقسیم میں فضیلت اسلامی کا لحاظ رکھا اور فرمایا : جو لوگ رسول اللہ ﷺ سے لڑے ان کو میں ان لوگوں کے برابر نہیں قرار دے سکتا جو رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب رہ کر آپ کے دشمنوں سے لڑے۔ چناچہ جن انصار و مہاجرین کو سبقت اسلام اور فضیلت حاصل تھی ان میں سے شرکاء بدر کو پانچ ہزار عطا کیے اور جن کو شرکاء بدر کی طرح صرف اسلامی برتری حاصل تھی ان کو ان کے فضائل کے مطابق حصہ دیا۔ امام ابو یوسف (رح) نے لکھا ہے کہ مجھ سے عفرہ کے غلام عمر نے اور بعض دوسرے لوگوں نے کہا کہ جب حضرت عمر کے پاس فتوحات کا مال (بکثرت) آیا تو فرمایا : اس مال کی تقسیم کے متعلق ابوبکر کی ایک رائے تھی اور میری رائے ان سے الگ ہے۔ جو لوگ رسول اللہ ﷺ سے لڑے ‘ ان کو میں ان لوگوں کے برابر نہیں رکھ سکتا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہ کر (دشمنوں سے) لڑے۔ چناچہ آپ نے مہاجرین و انصار میں سے ہر اس شخص کو جو غزوۂ بدر میں شریک رہا تھا ‘ چار چار ہزار دیئے اور سوائے حضرت صفیہ ؓ اور حضرت جویریہ ؓ کے حضور ﷺ کی ہر بی بی کو بارہ ہزار دیئے۔ حضرت صفیہ ؓ اور حضرت جویریہ کو صرف چھ چھ ہزار دیئے ‘ ان دونوں بیبیوں نے لینے سے انکار کردیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میں نے دوسری بیبیوں کو جو دوگنا حصہ دیا ہے ‘ وہ ان کی ہجرت کی وجہ سے دیا ہے ‘ ان کو فضیلت ہجرت حاصل تھی) دونوں بیبیوں نے فرمایا : یہ وجہ نہیں بلکہ ترجیح کی یہ وجہ ہے کہ آپ کے خیال میں رسول اللہ ﷺ کی نظر میں ان کو ہم پر برتری حاصل تھی حالانکہ حضور ﷺ کی نظر میں ہمارا بھی وہی مرتبہ تھا جو ان کا تھا۔ یہ جواب سن کر حضرت عمر ؓ نے ان کے لیے بھی بارہ بارہ ہزار کردیئے اور رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس کو بھی بارہ ہزار روپے دیئے۔ حضرت اسامہ بن زید کو چار ہزار دیئے اور حضرت عبداللہ بن عمر کو تین ہزار۔ عبداللہ ؓ نے عرض کیا : ابّا ! اسامہ کو مجھ سے ایک ہزار زائد کیوں دیئے ؟ اسامہ کے باپ کو کوئی ایسی فضیلت حاصل نہ تھی جو میرے باپ کو حاصل نہ ہو اور نہ اسامہ کو کوئی ایسی برتری حاصل ہے جو مجھے حاصل نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اسامہ کا باپ تیرے باپ سے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ پیارا تھا اور اسامہ ؓ حضور ﷺ کی نظر میں تجھ سے زائد محبوب تھا۔ حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ کو پانچ پانچ ہزار دیئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک ان کا مرتبہ اونچا تھا (باقی) انصار و مہاجرین کے لڑکوں کو دو ‘ دو ہزار دیئے لیکن جب عمرو بن ابی سلمہ سامنے سے گزرے تو فرمایا : ان کو ایک ہزار بڑھا دو ۔ اس پر محمد بن عبدالرحمن بن جحش نے کہا : ان کے باپ ابو سلمہ کو وہ فضیلت حاصل نہیں تھی جو ہمارے باپ کو حاصل نہ ہو اور نہ ان کو کوئی ایسی برتری حاصل ہے جو ہم کو نہ ملی ہو (پھر یہ حصہ میں بیشی کیوں کی گئی ؟ ) فرمایا : ابوسلمہ ؓ (کے بیٹے ہونے) کی وجہ سے تو میں نے ان کو دو ہزار دیئے اور حضرت ام سلمہ کی وجہ سے ایک ہزار (زائد دے دیئے) اگر تیری ماں بھی حضرت امّ سلمہ ؓ کے ہم پلہ ہوتی تو تجھے بھی ایک ہزار زائد دے دیتا۔ باقی لوگوں کو آپ نے آٹھ آٹھ سو دیئے۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ اپنے بھائی کو لے کر آئے تو ان کو بھی آٹھ سو سے دیئے۔ نضر بن انس ؓ سامنے سے گزرے تو فرمایا : ان کو دو ہزار دے دو ۔ جنگ احد میں ان کے باپ کا (وہ) کارنامہ تھا ‘ جو دوسروں کا نہیں ہوا (شکست کے بعد) انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا : رسول اللہ ﷺ کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا : میرے خیال میں حضور ﷺ کو شہید کردیا گیا۔ یہ بات سن کر انہوں نے تلوار سونت لی اور نیام توڑ کر کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ شہید ہوگئے مگر اللہ تو زندہ ہے وہ تو نہیں مرے گا۔ یہ کہہ کر (مشرکوں سے) اتنا لڑے کہ شہید ہوگئے اور یہ فلاں فلاں مقام پر بکریاں چرا رہا تھا۔ حضرت عمر ؓ اپنے دور خلافت میں مال کی تقسیم اسی طرح کرتے رہے۔ امام ابو یوسف (رح) نے لکھا ہے کہ مجھ سے محمد بن اسحاق نے بروایت ابوجعفر بیان کیا حضرت عمر ؓ نے جب تقسیم مال کا ارادہ کیا اور آپ کی رائے دوسروں کی رائے کے مقابلہ میں آخری تھی تو لوگوں نے کہا کہ پہلے آپ اپنی ذات سے شروع کیجیے (یعنی پہلے اپنا حصہ مقرر کیجئے) فرمایا : نہیں۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے اقرب فالاقرب کے طریقہ سے تقسیم شروع کی۔ پہلے حضرت عباس ؓ سے ‘ پھر حضرت علی ؓ سے شروع کیا۔ اس طرح پانچ اصول تک ترتیب وار تقسیم کی ‘ یہاں تک کہ عدی بن کعب تک پہنچ گئے ‘ ہم سے مخالد بن سعید نے شعبی کا بیان نقل کیا اور شعبی نے ایسے شخص کا حوالہ دیا جو حضرت عمر ؓ کے دور میں موجود تھا کہ جب فارس اور روم کی فتوحات ہوئیں (اور مسلسل بکثرت مال آنے لگا) تو حضرت عمر ؓ نے کچھ صحابیوں کو جمع کر کے دریافت کیا ‘ آپ حضرات کی کیا رائے ہے ؟ میرا خیال تو یہ ہے کہ سالانہ لوگوں کے وظائف مقرر کر دوں اور سال بھر تک مال خزانہ میں جمع کرتا ہوں ‘ اس میں بڑی برکت ہوگی۔ صحابہ ؓ نے جواب دیا : آپ جب چاہیں کریں ‘ انشاء اللہ آپ کو اللہ کی طرف سے توفیق نصیب ہوگی۔ اس کے بعد آپ نے (سالانہ) عطیات مقرر کردیئے اور فرمایا : آغاز تقرر کس سے کروں ؟ عبد بن عوف نے کہا : اپنی ذات سے شروع کیجئے ‘ فرمایا : نہیں۔ خدا کی قسم ! (ایسا نہیں کروں گا) بلکہ بنی ہاشم سے شروع کروں گا جو رسول اللہ ﷺ کا (قریبی) قبیلہ ہے۔ چناچہ جو ہاشمی بدر میں شریک ہوئے تھے ان میں سے ہر ایک کو خواہ وہ غلام ہو (یعنی بنی ہاشم کا آزاد کردہ عجمی غلام یا عربی بہرحال) ہر ایک کے پانچ ہزار مقرر کیے۔ حضرت عباس ؓ کے بارہ ہزار مقرر ہوئے۔ بنی ہاشم کے بعد بنی امیّہ کے وظائف مقرر کیے۔ بنی امیّہ میں سے بھی ان لوگوں کو مقدم رکھا جو شرکاء بدر تھے اور بنی ہاشم سے قریب ترین رشتہ رکھتے تھے ان میں سے بھی ہر ایک کے پانچ ہزار مقرر کیے۔ انصار میں سے ہر ایک کے چار ‘ چار ہزار مقرر کیے ‘ انصاریوں میں سے پہلے محمد بن مسلمہ کا وظیفہ مقرر ہوا۔ امہات المؤمنین میں سے ہر ایک کے دس ہزار لیکن حضرت عائشہ ؓ کے بارہ ہزار مقرر کیے۔ حبش کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے ہر ایک کے چار ہزار اور عمرو بن ابو سلمہ کے چار ہزار مقررر ہوئے کیونکہ حضرت امّ سلمہ کا بیٹا ہونے کی وجہ سے آپ کو ترجیح حاصل تھی۔ عبداللہ بن جحش نے کہا : آپ نے ان کو ہم پر کیوں فضیلت دی ؟ پورا سوال و جواب بیان سابق میں ذکر کردیا گیا ہے چونکہ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کو رسول اللہ ﷺ سے قرب مرتبہ حاصل تھا۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک کے لیے پانچ ہزار مقرر کیا۔ پھر دوسرے لوگوں کے لیے عربی ہوں یا آزاد کردہ عجمی تین سو اور چار سو کا وظیفہ معین کیا گیا۔ مہاجرین اور انصار کی عورتوں کا وظیفہ چھ سو ‘ چار سو ‘ تین سو اور دو سو مقرر ہوا۔ کچھ مہاجرین کا وظیفہ دو ہزار ہوا۔ برقیل جب مسلمان ہوگئے تو ان کا وظیفہ بھی دو ہزار مقرر ہوگیا۔ برقیل نے کہا : میری زمین میرے ہی قبضہ میں رہنے دیجئے ‘ میں اس کا خراج ویسے ہی ادا کروں گا جیسے پہلے ادا کیا جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اس کی درخواست منظور کرلی۔ امام ابو یوسف (رح) نے لکھا ہے ‘ مجھ سے محمد بن عمرو بن علقمہ نے بحوالہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف حضرت ابوہریرہ کا بیان نقل کیا ہے ‘ اس روایت میں آیا ہے کہ مہاجرین کا پانچ پانچ ہزار اور انصار کا تین تین ہزار اور امہات المؤمنین کا بارہ بارہ ہزار وظیفہ مقرر کیا۔ جب حضرت زینب ؓ بنت جحش کا وظیفہ ان کی خدمت میں پہنچا تو فرمایا : امیر المؤمنین کی اللہ مغفرت کرے اس روپیہ کی تقسیم تو میری ساتھ والیاں (یعنی دوسری امہات المؤمنین) مجھ سے زیادہ اچھی کرسکتی تھیں (حضرت زینب سمجھیں کہ یہ بار ہزار درہم مجھے اس لیے دیئے گئے ہیں تاکہ میں دوسری بیبیوں کو تقسیم کر دوں) لانے والے نے کہا : یہ ساری رقم تو آپ کی ہے۔ چناچہ وہ روپیہ آپ کے سامنے ڈال دیا گیا اور آپ نے اس کو کپڑے سے ڈھانک دیا۔ پھر جو عورت آپ کے پاس موجود تھی ‘ اس سے فرمایا : اس کپڑے کے اندر ہاتھ ڈال اور جتنا ہاتھ میں آجائے اتنا اتنا (دوسری عورتوں کو) بانٹ دے۔ وہ عورت اسی طرح بانٹنے لگی۔ آخر اس تقسیم کنندہ عورت نے کہا : شاید آپ مجھے بھول گئیں حالانکہ آپ پر میرا حق (زائد) ہے۔ فرمایا : کپڑے کے نیچے جو باقی رہا ہے وہ تو لے لے۔ اس نے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو 85 درہم نکلے۔ اس کے بعد حضرت زینب ؓ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی : اے اللہ ! اس سال کے بعد کبھی عمر کا عطیہ مجھے نہ پائے (یعنی میں اگلے سال تک زندہ نہ رہوں) چناچہ امہات المؤمنین میں سب سے پہلے حضرت زینب ؓ کی موت ہوئی اور آپ ؓ رسول اللہ ﷺ سے جا ملیں۔ ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت زینب بن جحش تمام بیبیوں سے زائد سخی تھیں۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت زید بن ثابت کو انصار کی تقسیم کا ذمہ دار بنا دیا۔ حضرت زید نے سکان عوالی مدینہ سے تقسیم کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے بنی عبدالاشہل کو دیا پھر قبیلہ اوس کو دیا کیونکہ ان کے گھر دوری پر تھے۔ اوس کے بعد قبیلہ خزرج کو۔ سب سے آخر میں آپ کا خود نمبر آیا۔ ان کا قبیلہ بنی مالک بنی نجار تھا۔ بنی نجار مسجد کے گردا گرد رہتے تھے۔ امام ابو یوسف (رح) نے لکھا ہے : مجھ سے مدینہ کے ایک شیخ نے بحوالہ اسماعیل بن سائب بن یزید بیان کیا اور اسماعیل نے اپنے باپ کی روایت سے کہا کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب فرما رہے تھے ‘ قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ اس مال میں ہر شخص کا حق ہے۔ میں دیتا ہوں اور روکتا ہوں اور سوائے مملوک غلام کے اور کسی کا دوسرے سے زیادہ حق نہیں ہے اور میں بھی تم میں سے ایک فرد ہوں لیکن کتاب اللہ کی رو سے لوگوں کے مراتب مختلف ہیں ‘ کوئی موروث اسلام ہے ‘ کسی کو تقدم اسلامی حاصل ہے ‘ کوئی غنی ہے کوئی محتاج۔ خدا کی قسم ! اگر میں زندہ رہا تو ضرور ایسا ہوگا کہ کوہ صفاء پر جانور چرانے والے کو اس مال میں سے اس کا حصہ اس کی جگہ پر پہنچ جائے گا ‘ بغیر اس کے کہ (اپنے حصہ کی طلب میں) اس کا چہرہ سرخ ہو۔ قبائل حمیر کا رجسٹر اندراج الگ تھا۔ حضرت عمر ؓ سپہ سالار اعظم کا حصہ تو آٹھ اور سات ہزار کے درمیان مقرر کردیتے تھے تاکہ ان کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل اور متعلقہ امور کی درستی ہو سکے۔ پیدا ہوتے ہی بچہ کا وظیفہ مقرر کردیا جاتا تھا ‘ نو خیز شباب ہونے پر دو سو وظیفہ ہوجاتا تھا اس سے آگے بڑھتا تھا تو اتنا ہی وظیفہ بڑھا دیا جاتا تھا۔ جب حضرت عمر ؓ نے دیکھا کہ مال بہت ہوگیا تو فرمایا : آئندہ سال اس تاریخ تک اگر میں زندہ رہا تو پچھلی جماعتوں کو ان کی اولاد سے ملا دوں گا یہاں تک کہ وظیفہ میں سب برابر ہوجائیں گے لیکن آپ کی وفات اس تاریخ کے آنے سے پہلے ہی ہوگئی۔ مسئلہ جو مال بغیر لڑائی کے حکومت اسلامیہ کو مل جائے جیسے : 1) جزیہ ‘ 2) تجارت کا عشر (ٹیکس یعنی 10 / 1) ‘ 3) وہ مال جو ڈر کے مارے کافر چھوڑ گئے ہوں ‘ 4) کافروں سے مصالحت کرنے کی بنا پر جو مال مسلمانوں کو کافروں سے حاصل ہوا ہو ‘ 5) زمین کا خراج ‘ 6) مرتد کا مال جس کو قتل کردیا گیا ہو یا وہ مرگیا ہو ‘ 7) لاوارث ذمی میت کا مال ‘ 8) بنی تغلب کی زکوٰۃ۔ کیا ان تمام اقسام کے مال کا خمس (پانچواں حصہ) نکالا جائے گا یا نہیں ؟ ائمہ کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک کی رائے ہے کہ خمس نہیں نکالا جائے گا بلکہ مسلمانوں کے سماجی و اجتماعی مصالح کے لیے کل مال صرف کیا جائے گا جیسے سرحدوں کی حفاظت و بندش ‘ پلوں کی تعمیر ‘ قاضیوں اور محتسبوں اور گورنروں اور کارندوں کی تنخواہیں اور بقدر کفایت علماء کے وظائف اور فوجیوں کی اور ان کے اہل و عیال کی معاشی ضرورتوں کی تکمیل۔ امام احمد کا بھی قوی الروایت قول یہی ہے۔ (کذا فی الہدایۃ) تجنیس میں ہے ‘ معلمین اور متعلمین کے وظائف اس مال سے دیئے جائے گے ‘ تمام طالب علم اسی حکم میں شامل ہیں۔ امام شافعی کا قدیم قول تھا کہ خمس صرف اس مال کا نکالا جائے گا جو کافر ڈر کر چھوڑ بھاگے ہوں باقی اقسام میں خمس نہیں نکالا جائے گا لیکن آخری قول یہ ہے کہ تمام اقسام کا خمس نکالا جائے گا پھر خمس کے پانچ حصے کیے جائیں گے۔ ایک حصہ (یعنی کل مال کا 25/1) بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو دیا جائے گا۔ مالدار اور نادار کی ان میں تفریق نہ ہوگی ‘ سب کو دیا جائے گا۔ ہاں ! مذکر کا مؤنث سے دوگنا حصہ ہوگا۔ دوسرا حصہ یتیموں کا ہوگا۔ یتیم اس نابالغ بچہ کو کہتے ہیں جس کا باپ مرگیا ہو۔ امام شافعی (رح) کے قول مشہور کی بناء پر یتیم کا حصہ اس وقت ہوگا جب وہ محتاج ہو۔ تیسرا حصہ مسکینوں کا اور چوتھا حصہ مسافروں کا ہوگا۔ برقول شافعی ان چاروں اصناف کو دینا ضروری ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سب کو دینا ضروری نہیں بلکہ ان میں سے جو صنف اس مقام میں ہو ‘ اسی کو دینا کافی ہے۔ رہا پانچ سہام میں سے پانچواں حصہ تو وہ مسلمانوں کے (عمومی اور مشترک) مصالح میں صرف کیا جائے گا۔ مثلاً سرحدوں کی حفاظت اور استحکام۔ قاضیوں کی تنخواہیں اور علماء کے وظائف ‘ ان میں بھی جو احوال اور ضرورت کے لحاظ سے اہم ہوگا اس کو دیا جائے گا۔ رہے باقی چار خمس (یعنی 5/4 یا پچیس میں سے بیس سہام) تو زیادہ ظاہر یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کی معاشی امداد میں صرف ہوگا جن کی معاشی کفالت ضروری ہے۔ یعنی وہ مجاہدین جو جہاد کے لیے تیار کیے گئے ہوں اور جہاد پر ان کو لگایا گیا ہو ‘ ان کے ناموں کا ایک رجسٹر رکھا جائے گا اور بقدر کفایت ہر ایک کو دیا جائے گا۔ ان میں قریش کا نمبر اوّل ہوگا اور قریش میں سے بھی بنی ہاشم اور بنی مطلب کو مقدم رکھا جائے گا۔ پھر بنی عبد شمس کا پھر بنی نوفل کا پھر بنی عبدالعزیٰ کا۔ اس کے بعد قریش کی دوسری شاخوں کا نمبر آئے گا اور دوسری شاخوں میں وہ لوگ واجب التقدیم ہوں گے جو رسول اللہ ﷺ سے قرب اور قرابت رکھتے ہوں گے۔ اس کے بعد انصار کو پھر باقی عرب کو پھر عجم کو تقسیم کیا جائے گا۔ رجسٹر میں ان لوگوں کے ناموں کا اندراج نہیں ہوگا جو نابینا ہوں یا اپاہج ہوں یا جہاد کرنے اور دشمن سے لڑنے کے قابل نہ ہوں۔ اگر چاروں خمس (یعنی پچیس میں کے بیس) جہادی دستوں کے مصارف سے زائد ہوں تو ہر ایک کی محنت اور ذمہ داری کو ملحوظ رکھ کر انہی کو تقسیم کردیئے جائیں گے۔ مناسب یہ ہے کہ اس کا کچھ حصہ گھوڑوں کی خریداری اور سرحدوں کے استحکام کے لیے صرف کیا جائے۔ مذکورۂ بالا طریق تقسیم تو اموال منقولہ کے متعلق تھا ‘ زمین اور غیر منقولہ جائیداد کا حکم الگ ہے۔ صحیح مسلک یہ ہے کہ (باغ ‘ زمین ‘ کنویں وغیرہ) غیر منقولہ جائیداد کو وقف کردیا جائے اور اس سے جو کچھ حاصل ہو ‘ اس کو منقولہ اموال کی طرح تقسیم کیا جائے۔ (کذا فی المنہاج) جمہور ائمہ (ابوحنیفہ ‘ مالک ‘ احمد رحمہم اللہ تعالیٰ ) کے قول کی تائید محمد بن یوسف صالحی کے اس بیان سے ہوتی ہے جو سبیل الرشاد میں ذکر کیا گیا ہے اور اس میں بنی نضیر کے مال کا حکم نقل کیا گیا ہے۔ محمد ابن یو سف نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے خدمت گرامی میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ (بنی نضیر کے متروکہ مال میں) کیا آپ تقسیم سہام خمس نہیں کریں گے ؟ فرمایا : اللہ نے جس مال کو مؤمنوں کے سہام سے الگ رکھا ہے میں اس کو اس مال کی شکل نہیں دے سکتا جس میں تقسیم سہام ہوتی ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ امام شافعی (رح) جو جزیہ کو پانچ سہام پر تقسیم کرنے کے قائل ہیں ‘ علماء کے نزدیک امام کا یہ قول خلاف اجماع ہے۔ کرخی نے لکھا ہے کہ اس قول کا کوئی قائل نہیں ‘ نہ امام شافعی (رح) سے پہلے کسی نے یہ قول کہا ‘ نہ آپ کے زمانہ میں ‘ نہ آپ کے بعد۔ امام شافعی (رح) نے صرف مال غنیمت پر قیاس کیا ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر ؔ کے مجوسیوں سے اور نجرانؔ کے عیسائیوں سے جزیہ لیا اور اہل یمن پر جزیہ مقرر کیا مگر کسی روایت میں یہ نہیں آیا کہ اس جزیہ کو آپ نے پانچ سہام پر تقسیم کیا ہو ‘ اگر حضور ﷺ نے ایسا کیا ہوتا تو ضرور روایت میں آتا۔ ابوداؤد نے ضعیف سند سے بیان کیا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے گورنروں کو لکھ بھیجا کہ عمر ؓ بن خطاب نے جو حکم دیا ‘ مسلمانوں نے اس کو مبنی بر انصاف اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے موافق جانا ‘ واللہ اعلم۔
Top