Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 12
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ١۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں نے تَبَوَّؤُ : انہوں نے قرار پکڑا الدَّارَ : اس گھر وَالْاِيْمَانَ : اور ایمان مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے يُحِبُّوْنَ : وہ محبت کرتے ہیں مَنْ هَاجَرَ : جس نے ہجرت کی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَا يَجِدُوْنَ : اور وہ نہیں پاتے فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : اپنے سینوں (دلوں) حَاجَةً : کوئی حاجت مِّمَّآ : اس کی اُوْتُوْا : دیا گیا انہیں وَيُؤْثِرُوْنَ : اور وہ اختیار کرتے ہیں عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَلَوْ كَانَ : اور خواہ ہو بِهِمْ خَصَاصَةٌ ڵ : انہیں تنگی وَمَنْ يُّوْقَ : اور جس نے بچایا شُحَّ نَفْسِهٖ : بخل سے اپنی ذات کو فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور (ان لوگوں کے لئے بھی) جو مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (یعنی مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے (اور) جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش (اور خلش) نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو۔ اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ مراد پانے والے ہیں
والذین تبو وا الدار والایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ولا یجدون فی صدورھم حاجۃ مما اوتوا و یوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون . ” اور ان لوگوں کا بھی حق ہے جو دارالسلام (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان مہاجروں کے آنے سے پہلے جاگزین تھے (اور) جو مہاجر ان کے پاس ہجرت کر کے آتے ہیں ‘ ان سے یہ محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ ملتا ہے اس سے یہ لوگ اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے اور ان کو اپنے سے مقدم رکھتے ہیں۔ خواہ ان پر (خود) فاقہ ہی ہو اور جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے ‘ پس وہی لوگ کامیاب ہیں۔ “ بخاری (رح) نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے حدیث مذکور ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے ‘ انصار نے درخواست کی کہ ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان کھجور کے درخت بانٹ دیجئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : نہیں (بلکہ) تم ہماری جگہ محنت کرو اور ہم پھولوں میں تم کو (برابر کا) شریک بنا لیں گے۔ انصار نے کہا : بسر و چشم۔ آیت کے نزول کا ذکر اس سلسلہ میں صحیح نہیں ہے۔ تَبَوَّؤُ الدَّارَ : یعنی دار ہجرت میں مقیم رہے اور ایمان پر جمے رہے ‘ ایمان کو انصار کی قرار گاہ اس لیے فرمایا کہ انصار برابر ایمان پر قائم رہے (کبھی قرار گاہ ایمان سے نہ ہٹے) ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الایمان فعل محذوف کا مفعول ہو یعنی انہوں نے ایمان کو خالص رکھا۔ یا الایمان سے پہلے لفظ دار محذوف ہے یعنی دارالایمان میں وہ جمے رہے۔ دارالایمان سے مراد ہے مدینہ طیبہ ‘ مدینہ کو دارالایمان کہنے کی یہ وجہ ہے کہ مدینہ مظہر ایمان ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مدینہ کا نام طابہ مقرر کیا ہے۔ (مسلم) حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینہ بھٹی کی طرح ہے۔ میل کچیل کو باہر کردیتا ہے اور پاک صاف کو نکھار دیتا ہے۔ (متفق علیہ) حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بھی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔ (مسلم) مِنْ قَبْلِھِمْ : یعنی مہاجرین کی ہجرت سے پہلے۔ بعض مفسرین کے نزدیک من قبلھم کا تعلق تبوؤُ الدار سے ہے۔ حَاجَۃً : بعض علماء نے کہا : جس چیز کی احتیاج ہو اس کو حاجت کہتے ہیں اس جگہ مضاف محذوف ہے۔ یعنی وہ اپنے دلوں میں کسی حاجت کی طلب نہیں پاتے۔ بعض نے کہا : حاجت سے مراد ہیں وہ تمام باتیں جن کا باعث حاجت ہوتی ہے یعنی مال کی طلب ‘ حسد ‘ غصہ وغیرہ۔ مِمَّا اُوْتُوْا : یعنی اس مال فے کی وجہ سے جو مہاجرین کو دیا گیا اور انصار کو نہیں دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بنی نضیر کا سارا متروکہ مال مہاجرین کو تقسیم کردیا تھا اور سوائے تین انصاریوں کے کسی انصاری کو اس میں سے کچھ نہیں دیا اور انصار کو اس سے خوشی ہوئی ہے (ناگواری نہیں ہوئی) محمد بن یوسف صالحی نے سبیل الرشاد میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ بنی عوف بن عمرو کی بستی سے منتقل ہو کر مدینہ تشریف لائے (تو آپ ﷺ کے ساتھ) مہاجرین بھی منتقل ہو کر مدینہ آگئے۔ ان مہاجرین کو مہمان رکھنے کے متعلق انصار کا باہم اختلاف ہوگیا۔ تمام انصار نے چاہا کہ مہاجرین ان کے گھروں میں اتریں۔ آخر نوبت قرعہ اندازی تک پہنچی اور جس انصاری کا نام قرعہ میں نکل آیا وہ اپنے مہمان کو گھر لے گیا۔ اس طرح مہاجرین انصار کے گھروں اور مالوں میں مقیم (شریک) ہوگئے۔ بنی نضیر کا مال غنیمت جب رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ آیا تو آپ ﷺ نے ثابت بن قیس بن شماس کو طلب فرمایا اور حکم دیا : میرے پاس اپنی قوم والوں کو بلا لاؤ۔ ثابت نے عرض کیا : کیا خزرج کو ؟ فرمایا : (نہیں بلکہ) تمام انصار کو۔ حسب الحکم ثابت نے (تمام) اوس اور خزرج والوں کو بلا لیا (جب سب آگئے تو) حضور ﷺ نے کلام شروع کیا اور اللہ کی حمد وثناء کی پھر انصار کا اور مہاجرین کے ساتھ انصار کے حسن سلوک کا اور اپنے مکانوں اور مالوں میں مہاجرین کو جگہ دینے کا اور مہاجرین کے لیے انصار کے ایثار کرنے کا ذکر کیا ‘ اس کے بعد فرمایا : اللہ نے بنی نضیر کا جو متروکہ مال مجھے عنایت فرمایا ہے ‘ اگر تم چاہو تو میں وہ متروکہ مال تم کو اور مہاجروں کو (برابر) تقسیم کر دوں ؟ اس صورت میں مہاجرین ان حالات پر قائم رہیں گے جن پر اب ہیں یعنی تمہارے گھروں اور تمہارے مالوں میں سکونت و شرکت اور اگر تم پسند کرو تو میں یہ مال انہیں کو دے دوں (تم کو نہ دوں) اس صورت میں وہ تمہارے گھروں کو چھوڑ دیں گے اور چلے جائیں گے۔ یہ تقریر سن کر حضرت سعد ؓ بن عبادہ اور سعد ؓ بن معاذ نے باہم مشورہ کے بعد عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ ﷺ یہ مال مہاجرین کو ہی تقسیم کردیں اور جیسے وہ اب ہمارے گھروں میں رہتے ہیں آئندہ بھی رہیں گے (دونوں سرداروں کا فیصلہ سن کر) انصار نے پکار کر کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم اسپر راضی ہیں ‘ ہم کو یہ منظور ہے۔ حضور ﷺ نے دعا کی : اے اللہ ! انصار پر رحمت (نازل) فرما۔ اس کے بعد بنی نضیر کا جو متروکہ مال اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو عنایت فرمایا تھا وہ آپ ﷺ نے تقسیم کردیا ‘ صرف مہاجرین کو عطا فرمایا اور انصار میں سے سوائے دو محتاج آدمیوں کے اور کسی کو نہیں دیا۔ ایک سہل بن حنیف دوسرے ابو دجانہ۔ البتہ سعد بن معاذ کو ابن ابی الحقیق کی تلوار عنایت کردی ‘ اس تلوار کی بڑی شہرت تھی۔ بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار سے فرمایا : تمہارے مہاجر بھائیوں کے پاس مال نہیں ہے ‘ اگر تمہاری مرضی ہو تو یہ (بنی نضیر کا متروکہ) مال تم کو اور ان کو میں تقسیم کر دوں اور جو تمہارا مال اب تقسیم شدہ ہے وہ بھی تمہارے اور ان کے درمیان بانٹ دوں ؟ اور اگر تم چاہو تو اپنا مال اپنے پاس رکھ لو (مہاجرین کو اس میں سے کچھ نہ دو ) اور یہ کُل مال فے میں انہیں کو بانٹ دوں (تم کو کچھ نہ دوں) انصار نے جواب دیا : حضور ﷺ ! یہ مال فے تو آپ ﷺ انہیں کو تقسیم کردیں اور ہمارے مال میں سے جتنا آپ ﷺ چاہیں بانٹ کر ان کو دے دیں۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ : یعنی اپنے مکانوں اور مالوں کے لیے مہاجرین کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں ‘ یہاں تک کہ جس انصاری کی دو بیبیاں تھیں ‘ اس نے ایک کو طلاق دے کر اپنے مہاجر بھائی کا اس سے نکاح کردیا۔ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ : خواہ ان کو کیسا ہی فاقہ اور محتاجی ہو۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ بنی نضیر (کی جلا وطنی) کے دن رسول اللہ ﷺ نے انصار سے فرمایا : باقی روایت اس طرح ہے جس طرح بلاذری نے بیان کیا۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ مجھے (فاقہ کی) سختتکلیف ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی بیبیوں کے گھر کسی کو بھیجا (کہ جو کچھ موجود ہو لے آئے) لیکن کسی بی بی کے گھر میں کچھ نہیں ملا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا کوئی ہے جو آج رات اس کی مہمانی کرے (یعنی کھانا کھلا دے) اللہ کی رحمت اس پر ‘ فوراً ایک انصاری کھڑا ہوگیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اس کی ضیافت کروں گا۔ چناچہ مہمان کو لے کر یہ صاحب اپنے گھر پہنچے اور بی بی سے کہا : یہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا مہمان ہے ‘ اس سے بچا کر کوئی چیز نہ رکھنا۔ بی بی نے کہا : خدا کی قسم ! میرے پاس تو سوائے بچوں کے کھانے کے اور کچھ نہیں ہے۔ انصاری نے کہا : جب بچے شام کا کھانا مانگیں تو حیلہ بہانہ کر کے ان کو سلا دینا اور پھر آکر چراغ بجھا دینا۔ ہم (دونوں) آج رات بھوکے رہیں گے ( اور بچوں کا کھانا مہمان کو کھلا دیں گے) بی بی نے ایسا ہی کیا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ بیوی نے کھانا تیار کیا اور بچوں کو سلا دیا ‘ پھر چراغ کی بتی درست کرنے کے بہانے سے اٹھی اور چراغ بجھا دیا اور (مہمان کے ساتھ دونوں جھوٹ موٹ کھانے میں شریک ہوگئے) مہمان پر ظاہر کرتے رہے کہ ہم کھانے میں شریک ہیں (لیکن کھایا کچھ نہیں) دونوں رات بھر خالی پیٹ رہے ‘ صبح کو وہ انصاری خدمت گرامی میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ فلاں مرد اور فلاں عورت سے بہت خوش ہوا ‘ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ مسدد نے مسند میں اور ابن المنذر نے ابو المتوکل کی روایت سے لکھا ہے کہ وہ صاحب حضرت ثابت ابن قیس بن شماس تھے ‘ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ واحدی نے بروایت محارب بن دثار حضرت ابن عمر کا بیان نقل کیا ہے کہ ایک صحابی کے پاس بکری کی سری بطور ہدیہ بھیجی گئی۔ انہوں نے فرمایا : میرا فلاں بھائی اور اس کے بچے اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ چناچہ ان بزرگ نے وہ سری دوسرے (مسلمان) کو بھیج دی اور پھر انہوں نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو ‘ اسی طرح وہ سری سات گھروں کا چکر کاٹ کر پھر جہاں سے چلی تھی ‘ وہیں لوٹ آئی اس پر یہ آیت : وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلُوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ : نازل ہوئی۔ بخاری نے حضرت انس بن مالک کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین میں جاگیریں عطا فرمانے کے لیے انصار کو طلب فرمایا ‘ انصار نے عرض کیا : ہمارے بھائی مہاجرین کے لیے بھی جاگیریں کاٹ دی جائیں تو ہم بھی اپنے لیے جاگیریں کٹوا لیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : (جب تم اتنا ایثار کر رہے ہو کہ بغیر مہاجرین کے جاگیریں نہیں لینا چاہتے) تو مجھ سے (قیامت کے دن) ملاقات کرنے کے وقت تک صبر رکھنا کیونکہ اس کا اثر میرے بعد تم پر پڑے گا (یعنی تمہاری حق تلفی کی جائے گی اور مہاجرین کو تم پر ترجیح دی جائے گی ‘ مگر تم صبر کرنا) ۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : نفس کو مال سے محبت اور خرچ کرنے سے نفرت ہوتی ہے ‘ اسی محبت و نفرت کا اس پر غلبہ رہتا ہے جو لوگ نفس کے ان تقاضوں کے خلاف عمل کرتے ہیں ‘ وہی حقیقت میں فلاح یاب ہیں۔ شح کا معنی ہے بخل اور حرص (قاموس) جوہری نے صحاح میں شح کا معنی لکھا ہے : بخل مع حرص۔ بغوی نے لکھا ہے کہ علماء کے نزدیک شح اور بخل میں فرق ہے۔ ایک شخص نے حضرت ابن مسعود ؓ سے کہا : مجھے اندیشہ ہے کہ (قیامت کے دن) میں تباہ ہوجاؤں گا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : کیا بات ہے ‘ یہ اندیشہ تم کو کیسے ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا : میں سن رہا ہوں کہ اللہ فرما رہا ہے : وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : اور میں انتہائی بخیل ہوں ‘ میرے ہاتھ سے کوئی چیز نکل نہیں پاتی۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : یہ وہ شح نہیں ہے جس کا ذکر اللہ نے فرمایا ہے ‘ شح تو یہ ہے تم اپنے بھائی کا مال ناجائز طور پر کھا جاؤ۔ ہاں ! یہ بخل ضرور ہے اور بخل بھی بری چیز ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : کوئی شخص اپنا مال روک کر رکھے تو یہ شح نہیں ہے۔ شح تو یہ ہے کہ دوسرے کے مال کو (ناجائز طور پر) آدمی لالچ کی نظر سے دیکھے۔ سعید بن جبیر نے فرمایا : شح (کا معنی) یہ ہے کہ آدمی حرام مال حاصل کرے اور زکوٰۃ نہ دے بعض اہل علم کا قول ہے کہ شح کا معنی ہے : ایسی شدید حرص جو ممنوعات کے ارتکاب کا موجب ہوتی ہے۔ ابن زید نے کہا : جس چیز (کو لینے) کی اللہ نے ممانعت کردی ہے اس کو نہ لے اور جس چیز کو دینے کا حکم دیا ہے اس کو روک رکھنے کا موجب بخل نہ ہو ایسے آدمی کو شح نفس سے محفوظ کہا جائے گا۔ (یعنی شح نفس سے بچنے کا یہی مفہوم ہے) ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ظلم کرنے سے پرہیز رکھو کیونکہ قیامت کے دن ظلم تاریکیاں ہو (جائے) گا اور شح سے بچو ‘ شح نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ کردیا۔ اسی کے باعث انہوں نے آپس میں خونریزیاں کیں اور حرام کو حلال بنا لیا۔ (رواہ مسلم و احمد) حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : میں نے حضور ﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ کی راہ میں (اٹھتا ہوا) غبار اور (دوزخ کا) دھواں کسی بندہ کے جوف میں کبھی یکجا نہ ہوگا (یعنی جس مجاہد کے دماغ میں جہاد میں اٹھتا ہوا غبار پہنچ جائے گا اس کے دماغ میں دوزخ کا دھواں نہیں جائے گا) اور کسی ایک بندہ کے دل میں کبھی شح اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے (یعنی شح تقاضاء ایمان کے خلاف ہے) ۔ (رواہ البغوی و کذا رواہ النسائی)
Top