Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 18
فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِۙ
فَاَصْبَحَتْ : تو ہوگیا وہ باغ كَالصَّرِيْمِ : جڑکٹا۔ مانند جڑ کئے کے
تو وہ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی
فاصبحت کالصریم . اور وہ اجڑی ہوئی کھیتی یا اجڑے ہوئے باغ کی طرح ہوگیا۔ صریم بروزن فصیل بمعنی مفعول وہ باغ جس کے پھل توڑ لیے گئے ہوں ‘ کوئی پھل باقی نہ رہا ہو۔ یا صریم سے مراد ہے رات۔ یعنی وہ باغ سوختہ ہو کر رات کی طرح ہوگیا۔ یا دن مراد ہے یعنی وہ باغ بالکل سوکھ کر دن کی طرح سفید ہوگیا۔ اَصْرمٌ کا معنی ہے قطع ہوجانا ‘ کٹ جانا ‘ رات دن سے اور دن رات سے منقطع ہوتا ہے اس لیے ہر ایک کو صریم کہا جاتا ہے۔ حسن بصری (رح) نے فرمایا : اس باغ سے ہر اچھائی اور خوبی منقطع ہوگئی یعنی اس میں کچھ نہیں رہا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا : بنی خزیمہ کے محاورہ میں صریم سیارہ راکھ کو کہتے ہیں یعنی وہ باغ سیاہ راکھ کی طرح ہوگیا۔
Top