Tafseer-e-Mazhari - Al-Haaqqa : 17
وَّ الْمَلَكُ عَلٰۤى اَرْجَآئِهَا١ؕ وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ
وَّالْمَلَكُ : اور فرشتے عَلٰٓي اَرْجَآئِهَا : اس کے کناروں پر ہوں گے وَيَحْمِلُ : اور اٹھائے ہوئے ہوں گے عَرْشَ رَبِّكَ : تیرے رب کا عرش فَوْقَهُمْ : اپنے اوپر يَوْمَئِذٍ : اس دن ثَمٰنِيَةٌ : آٹھ (فرشتے)
اور فرشتے اس کے کناروں پر (اُتر آئیں گے) اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اُٹھائے ہوں گے
والملک علی ارجاءھا . آسمان کے جو اطراف اور کنارے پھٹ جانے کے بعد باقی رہیں گے ‘ ان پر فرشتے ہوں گے ‘ ملک سے فرشتوں کی جنس مراد ہے (کوئی خاص فرشتہ مراد نہیں ہے) ۔ و یحمل عرش ربک . اور تمہارے رب کے عرش (تخت) کو اٹھائے ہوں گے تخت کی نسبت اللہ کی طرف تخت کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے ہے اور یہ وجہ بھی ہے کہ عرش ‘ خصوصی طور پر تجلی گاہ نور ہے۔ فوقھم یومئذ ثمانیۃ . اپنے اوپر یا ان فرشتوں کے اوپر جو آسمان کے کناروں پر ہوں گے آٹھ ملائکہ (یعنی قیامت کے دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر یا اطراف آسمان پر مقیم ملائکہ کے اوپر) اللہ کے عرش کو اٹھائے ہوں گے۔ ابوداؤد اور ترمذی نے حضرت ابن عباس ؓ بن عبدالمطلب کا قول نقل کیا ہے۔ عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں بطحا میں ایک گروہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فرما تھے۔ ایک بادل گزرنے لگا ‘ لوگوں نے اسکی طرف دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اس کو کیا کہتے ہو ؟ لوگوں نے جواب دیا : سحاب (ابر) فرمایا : اور مزن (بھی) ؟ لوگوں نے کہا : مزن بھی (کہتے ہیں) فرمایا : اور عنان بھی (کہتے ہو) ؟ لوگوں نے کہا : عنان بھی (کہتے ہیں) فرمایا : کیا تم کو معلوم ہے کہ آسمان و زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں۔ فرمایا : دونوں کے درمیان فاصلہ اکہتر یا بہتر یا تہتر سال (کی راہ کا) ہے اور نچلے آسمان سے اوپر والا آسمان بھی ایسا ہی (یعنی اتنی ہی دور) ہے یہاں تک کہ آپ نے سات آسمان شمار کیے (اور فرمایا) پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے جس کے زیریں اور بالائی (سطح) کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا ایک آسمان کا دوسرے آسمان سے ہے۔ پھر سمندر کے اوپر آٹھ پہاڑی بکرے ہیں ‘ جن کے کھروں اور کو لہوں (سرینوں) کا فاصلہ دو آسمانوں کی درمیانی مسافت کے برابر ہے ‘ اسکے اوپر عرش ہے جس کے اعلیٰ اور اسفل کا فاصلہ بھی دو آسمانوں کی درمیانی مسافت کے برابر ہے ‘ اسکے اوپر اللہ ہے۔ بغوی نے بھی یہ حدیث اسی طرح نقل کی ہے مگر زمین و آسمان کے درمیان کے فاصلہ کی مقدار اسی طرح ہر دو آسمانوں کے درمیانی فاصلہ کی مقدار پانچ سو برس کی راہ بتائی ہے۔ سمندر کے اعلیٰ و اسفل کا فاصلہ اور پہاڑی بکروں کے کھروں اور سرینوں کا درمیانی فاصلہ بھی اتنا ہی نقل کیا ہے۔ مسافت کا یہ اختلاف (شاید) چلنے والے کے اختلاف کے لحاظ سے ہو ‘ واللہ اعلم۔ بغوی نے بیان کیا ہے کہ حدیث میں آیا ہے عرش کو اٹھانے والے ملائکہ اب تو چار ہیں ‘ قیامت کے دن ان کی مدد کے لیے اللہ چار اور مقرر فرما دے گا۔ ان کی شکل بکروں جیسی ہے۔ حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک کی صورت مرد کی ‘ دوسرے کی شیر کی ‘ تیسرے کی بیل کی اور چوتھے کی گدھ کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت مذکور کی تفسیر میں فرمایا : قیامت کے دن عرش الٰہی کو آٹھ (ملائکہ) یعنی ملائکہ کی آٹھ جماعتیں اٹھائے ہوں گی جن کی گنتی سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔
Top