Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 100
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ١ۚ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
اَوَلَمْ : کیا نہ يَهْدِ : ہدایت ملی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَرِثُوْنَ : وارث ہوئے الْاَرْضَ : زمین مِنْۢ بَعْدِ : بعد اَهْلِهَآ : وہاں کے رہنے والے اَنْ : کہ لَّوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہتے اَصَبْنٰهُمْ : تو ہم ان پر مصیبت ڈالتے بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں کے سبب وَنَطْبَعُ : اور ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے ہیں
کیا ان لوگوں کو جو اہلِ زمین کے (مرجانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں، یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں۔ اور ان کے دلوں پر مہر لگادیں کہ کچھ سن ہی نہ سکیں
اولم یہد للزین یرثون الارض من بعد اہلہا ان لو نشآء اصبنہم بذنوبہم وتطبع علی قلوبہم فہم لا یسمعون۔ اور کیا ان لوگوں کو جو اس زمین پر سابق باشندوں کی جگہ رہتے ہیں ان واقعات نے یہ بات ہنوز نہیں بتائی کہ اگر ہم چاہتے تو ان کے جرائم کی پاداش میں ان کو تباہ کر ڈالتے۔ ہم ان کے دلوں پر بند لگائے ہوئے ہیں اسی لئے وہ (حق کی آواز) نہیں سنتے۔ یرثون الارض زمین کے وارث ہوتے ہیں یعنی سکونت کے اعتبار سے (ملک مراد نہیں ہے) من بعد اہلہا یعنی پچھلے باشندوں کی ہلاکت کے بعد۔ چونکہ اس جگہ ہدایت کا معنی ہے بیان کرنا اس لئے یَہْدِکے بعد لام آیا ہے ان لَّو اَنْ مخففہ ہے اور اس کے بعد والا جملہ (بتاویل مفرد ہو کر) یَہْدِکا فاعل ہے۔ اصبناہُم یعنی عذاب اور سزا میں ان کو پکڑ لیتے بذنوبہمان کے گناہوں کے بدلے میں۔ ونطبع علی قلوبہم اس جملہ کا عطف اس مفہوم پر ہے جو اولم یہد للذین سے مستفاد ہو رہا ہے یعنی وہ غفلت کرتے ہیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگا دیتے ہیں۔ زجاج نے کہا یہ جملہ بالکل علیحدہ ہے (سابق پر عطف نہیں ہے واؤ استینافیہ ہے۔ عاطفہ نہیں ہے) فہم لا یسمعونپس وہ ڈرانے کو نہیں سنتے اور نصیحت کو نہیں قبول کرتے۔
Top