Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ : اور وزن يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : حق فَمَنْ : تو جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : میزان (نیکیوں کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہوں گے وہ تو نجات پانے والے ہیں
والوزن یومئذ الحق اور ٹھیک ٹھیک تول اس روز ہوگی۔ یعنی جس روز پیغمبروں سے اور ان کی امتوں سے سوال ہوگا۔ اس روز میزان عدل سے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن ضرور ہوگا۔ الوزنمبتدا ہے اور یومئذخبر اور الحقمبتدا کی صفت۔ الحق سے مراد ہے ٹھیک برابر یا الحق خبر ہے اور مبتدا محذوف ہے یعنی وہ حق ہے اس میں کوئی شک نہیں اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ حدیث جبرئیل ( علیہ السلام) میں حضرت عمر بن خطاب کی روایت سے آیا ہے کہ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا محمد ﷺ ایمان (سے مراد) کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ کو اس کے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں کو مانو اور جنت و دوزخ اور میزان پر یقین رکھو اور مرنے کے بعد حشر جسمانی کو تسلیم کرو اور اس بات پر ایمان رکھو کہ ہر اچھی بری چیز قدر (الٰہی) کے اندر ہے (یعنی اللہ کی تقدیر سابق سے کوئی چیز خارج نہیں) اگر تم نے ایسا کرلیا تو بس قطعی مؤمن ہو۔ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا جی ہاں آپ نے سچ فرمایا۔ رواہ البیہقی فی البعث عن ابن عمر۔ ابن مبارک نے الزہد میں اور اجری نے الشریعۃ میں حضرت سلمان کی روایت سے اور ابوالشیخ نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ میزان کی ایک زبان اور دو پلڑے ہوں گے۔ وزن کس چیز کا اور کس طرح ہوگا اس کے متعلق علماء کے اقوال مختلف ہیں بعض علماء نے کہا اعمال نامے تولے جائیں گے۔ ترمذی ابن ماجہ ابن حبان حاکم اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے لکھا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کے ایک آدمی کو سب کے سامنے لایا جائے گا اور اس کے ننانوے اعمال نامے کھولے جائیں گے ہر اعمال نامہ کی لمبائی بقدر رسائی نگاہ ہوگی اللہ اس سے فرمائے گا کیا تجھے اس میں سے کسی بات کا انکار ہے ‘ کیا میرے نگراں محرروں نے (لکھنے میں) کچھ تیری حق تلفی کی ہے وہ شخص جواب دے گا ‘ نہیں۔ میرے مالک (حق تلفی نہیں کی) اللہ فرمائے گا کیوں نہیں ‘ تیری ایک نیکی ہمارے پاس موجود ہے اور آج تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا اس کے بعد ایک چھوٹا پرچہ نکالا جائے گا جس میں اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ لکھا ہوگا وہ شخص عرض کرے گا میرے مالک ان دفتروں کے مقابلہ میں اس چھوٹے پرچہ کی کیا حقیقت ہے اللہ فرمائے گا تجھ پر ظلم نہیں ہوگا پھر تمام دفاتر اعمال ایک پلڑے میں اور وہ چھوٹا پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا اور اعمال ناموں والا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا اور پرچہ والا پلڑا بھاری نکلے گا اللہ کے نام سے کوئی چیز بھاری نہیں۔ امام احمد نے حسن سند سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ترازوئیں قائم کی جائیں گی پھر ایک آدمی کو لا کر ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے گا اور اس چیز کو بھی اس پلڑے میں رکھ دیا جائے گا جس میں اس کے اعمال کا گنتی کے ساتھ اندراج کیا گیا تھا ترازو اس کو لے کر جھک جائے گی نتیجہ میں اس کو دوزخ کی طرف بھیج دیا جائے گا جونہی اس کی پشت پھرائی جائے گی۔ رحمن کی طرف سے ایک منادی بلند آواز سے پکارے گا جلدی نہ کرو ابھی اس کا کچھ رہ گیا ہے چناچہ ایک چھوٹا پرچہ لایا جائے گا جس میں لا الہ الا اللہ لکھا ہوگا۔ وہ پرچہ (دوسرے پلڑے میں) اس آدمی کے ساتھ رکھ دیا جائے گا فوراً ترازو ادھر کو جھک جائے گی۔ ابن ابی الدنیا نے حضرت عبداللہ بن عمرو کا بیان نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ کی طرف سے حضرت آدم کے ٹھہرنے کا ایک خاص مقام ہوگا دو سبز کپڑے پہنے وہ ایسے معلوم ہوں گے جیسے کوئی کھجور کا لمبا درخت۔ اپنی جگہ کھڑے کھڑے دوزخ کی طرف جانے والوں کو دیکھتے ہوں گے اسی اثناء میں امت محمدیہ کے ایک شخص کو دوزخ کی طرف لے جاتا دیکھ کر پکاریں گے۔ احمد۔ میں جواب دوں گا ابوالبشر میں یہ ہوں حضرت آدم ( علیہ السلام) کہیں گے تمہاری امت کے اس آدمی کو دوزخ کی طرف لے جایا جا رہا ہے میں یہ سنتے ہی فوراً جلد جلد تیاری کر کے فرشتوں کے پیچھے جاؤں گا اور کہوں گا اے اللہ کے قاصدو ٹھہر جاؤ فرشتے کہیں گے ہم سخت خو اور طاقتور ہیں اللہ جو حکم دیتا ہے اس کے خلاف نہیں کرسکتے جیسا حکم ملتا ہے ویسا ہی کرتے ہیں (راوی نے کہا) جب رسول اللہ ﷺ ناامید ہوجائیں گے تو بائیں ہاتھ کی مٹھی میں ریش مبارک پکڑ کر عرش کی طرف رخ کر کے عرض کریں گے میرے مالک تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے میری امت میں رسوا نہ کرے گا فوراً عرش سے ندا آئے گی۔ محمد کا کہنا مانو اور مقام (میزان) کی طرف اس بندہ کو واپس لے آؤ (حضور نے فرمایا ( پھر میں پورے برابر ایک سفید پرچہ اپنی گود سے نکال کر بسم اللہ کہہ کر ترازو کے دائیں پلڑے میں ڈالوں گا جس سے نیکیوں کا پلڑہ جھک جائے گا فوراً ندا ہوگی کامیاب ہوگیا۔ اس کی کوشش کامیاب ہوگئی (اس کی نیکیوں کا وزن) بھاری نکلا اس کو جنت کو لے جاؤ وہ شخص (فرشتوں سے) کہے گا اے میرے رب کے کارندو ذرا ٹھہر جاؤ میں اس معزز بندہ سے کچھ دریافت کرلوں جس کی بارگاہِ الٰہی میں اتنی عزت ہے پھر ( رسول اللہ کی طرف رخ کر کے) کہے گا آپ پر میرے ماں باپ قربان۔ آپ کون ہیں آپ کا چہرہ کتنا حسین اور آپ کے اختلقف کتنے اعلیٰ ہیں آپ نے مجھے لوٹا دیا اور میری آبرو پر رحم فرمایا میں جواب دوں گا۔ میں تیرا نبی محمد ﷺ ہوں اور یہ تیری وہ درودیں تھیں جو تو مجھ پر پڑھتا تھا آڑے وقت میں یہ تیرے کام آئیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ (اعمال کو نہیں) اشخاص کو تولا جائے گا صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کچھ بڑے قد آور موٹے آدمی قیامت کے دن ایسے ہوں گے کہ اللہ کے نزدیک ان کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا پھر حضور ﷺ نے آیت (فلا نقیم لہم یوم القیمۃ وزنا) تلاوت فرمائی۔ ابو نعیم اور اجری نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تشریح کے ذیل میں فرمایا کہ (بعض) طاقتور قوی الجثہ بہت کھانے پینے والے آدمیوں کو ترازو میں رکھا جائے گا۔ تو ان کا وزن جو برابر بھی نہیں نکلے گا۔ فرشتہ ایسے ستر ہزار آدمیوں کو ایک دم دھکا دے کر دوزخ میں پھینک دے گا۔ بعض علماء کا قول ہے کہ اعمال کو مجسم بنا دیا جائے گا اور پھر ان کو تولا جائے گا۔ کیونکہ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں (لیکن) میزان میں بھاری (اور) اللہ کو پیارے ہیں سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ سبحان اللّٰہ العظیم وبحمدہ اصبہانی نے الترغیب میں حضرت ابن عمر کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے سبحان اللہ ترازو کے آدھے پلڑے کو اور الحمد للہ پوری ترازو کو بھر دے گا۔ مسلم نے حضرت ابو مالک اشعری کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا طہارت نصف ایمان ہے اور الحمدللہ ترازو کو پُر کر دے گا۔ ابن عساکر نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی ترغیب کی روایت کی طرح حدیث نقل کی ہے۔ بزار اور حاکم نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت نوح ( علیہ السلام) نے اپنی وفات کے وقت دو بیٹوں کو بلایا اور فرمایا میں تم کو لا الٰہ الا اللہ (کے یقین رکھنے اور اعتراف کرنے) کا حکم دیتا ہوں کیونکہ آسمانوں اور زمین کو مع اس کی موجودات کے اگر میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں لا الہ الا اللہ کو رکھا جائے تو یہ (موخر الذکر) پلڑا بھاری پڑے گا۔ ابویعلی ‘ ابن حبان اور حاکم نے حضرت ابو سعید ؓ خدری کی روایت سے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ نے (حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے) فرمایا موسیٰ ( علیہ السلام) اگر تمام آسمان اور میرے علاوہ ان کی ساری موجودات اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں ہوں اور دوسرے پلڑے میں لا الہ الا اللہ ہو تو یہ ان (آسمان و زمین) کو لے جھکے گا (یعنی ان کا پلڑا اونچا ہوجائے گا) طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمام آسمان و زمین اور ان کے اندر کی موجودات اور دونوں کے درمیان کی کائنات اور زمینوں کے نیچے کی مخلوقات سب کو لا کر میزان کے ایک پلڑے میں اور لا الہ الا اللہ کی شہادت دوسرے پلڑے میں رکھ دی جائے تو یہ ان سب سے وزنی ہوگی۔ ابو داؤد ‘ ترمذی اور ابن حبان نے حضرت ابو داؤد کی روایت سے لکھا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حسن اخلاق سے زیادہ بھاری ‘ میزان میں کوئی چیز نہیں (ہو گی) بزار ‘ طبرانی ‘ ابویعلی ‘ ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے حسن سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (حضرت ابوذر ؓ سے) فرمایا ابوذر ؓ : کیا میں تجھے دو خصلتیں ایسی بتاؤں جو پشت پر تو ہلکی ہیں (یعنی جن کو اٹھانا آسان ہے) مگر میزان میں تمام دوسری چیزوں سے بھاری ہوں گی حضرت ابوذر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ضرور ارشاد فرمائیے۔ فرمایا حسن خلق اور زیادہ خاموشی کو اختیار کر قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان دونوں کے برابر مخلوق کا کوئی عمل نہیں۔ امام احمد (رح) نے الزہد میں حازم نامی ایک شخص کی روایت سے لکھا ہے کہ حضور اقدس ﷺ : کی خدمت میں ایک شخص (بیٹھا) رو رہا تھا اتنے میں حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) اترے اور پوچھا یہ کون ہے حضور ﷺ نے فرمایا فلاں شخص ہے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا اولاد آدم ( علیہ السلام) کے تمام اعمال کا وزن ہوسکتا ہے صرف رونے کا وزن نہیں ہوسکتا اللہ ایک آنسو سے آگ کے سمندر کو بجھا دے گا۔ بیہقی نے حضرت معقل بن یسار کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب آنکھ آنسو بہاتی ہے تو اللہ تمام جسم کو (اس کی وجہ سے) دوزخ پر حرام کردیتا ہے اور جب قطرہ رخسار پر بہتا ہے تو اس چہرہ پر بدرونقی اور ذلت نہیں چھائے گی ہر چیز (یعنی عمل) کا ایک اندازہ اور وزن ہے مگر کسی قوم میں سے اگر کوئی شخص (اللہ کے سامنے اس کے خوف سے) روتا ہے تو اس کا ایک آنسو آگ کے سمندروں کو بجھا دیتا ہے۔ میں کہتا ہوں مذکورۂ بالا احادیث سے بظاہر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ نفس اعمال کا وزن کیا جائے گا لیکن ان ہی احادیث کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اعمال ناموں کا اور اعمال کرنے والوں کا وزن کیا جائے گا۔ اعمال کو مجسم بنا کر تولنے کا ثبوت مندرجۂ ذیل روایات سے ملتا ہے۔ بیہقی نے شعب الایمان میں (بطریق سدی صغیر از کلبی از ابو صالح) حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ میزان کی ایک زبان اور دو پلڑے ہوں گے نیکیاں اور بدیاں اس میں تولی جائیں گی۔ نیکیوں کو حسین ترین شکل میں لا کرمیزان کے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا اور بدیوں کے پلڑے سے اس کا وزن زیادہ نکلے گا تو اس خوبصورت شکل کو لے کر جنت کے اندر اس کے مقام پر رکھ دیا جائے گا۔ پھر مؤمن سے کہا جائے گا اپنے عمل سے جا کر مل جا مؤمن جنت کی طرف چلا جائے گا اور وہاں اپنا مقام اپنے عمل کی وجہ سے پہچان لے گا (کیونکہ اس کا عمل حسین شکل میں وہاں پہلے سے موجود ہوگا) اور بدیوں کو مکروہ ترین شکل میں لا کر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا۔ یہ پلڑا ہلکا نکلے گا اور باطل کا وزن ہلکا ہوتا ہی ہے پھر اس کو جہنم میں اس کے مقام پر پھینک دیا جائے گا اور اس (گناہگار ‘ بدکار) سے کہا جائے گا ‘ جا دوزخ میں اپنے عمل سے جا کر مل جا وہ دوزخ میں چلا جائے گا اور اپنے عمل کو دیکھ کر ہی اپنا مقام اور طرح طرح کے ان عذابوں کو پہچان جائے گا جو اللہ نے اس کے لئے فراہم کر رکھے ہوں گے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا جو لوگ جمعہ کے دن (جمعہ کی نماز کے بعد) اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں اور اپنے اپنے مقاموں کو پہچان لیتے ہیں۔ دوزخی اور جنتی دوزخ اور جنت کے اندر اپنے اعمال کی موجودگی کی وجہ سے اپنے اپنے مقاموں کو ان نمازیوں سے بھی زیادہ جانتے ہوں گے چونکہ اس حدیث کی روایت سدی صغیر کے طریق سند سے ہے اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے۔ ابن مبارک نے حماد بن ابی سلیمان کا بیان نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کو اپنا عمل حقیر دکھائی دے گا اتنے میں ایک چیز بادل کی طرح آکر میزان کے پلڑے میں گرجائے گی اور (فرشتہ یا کوئی اور) کہے گا یہ وہی نیکی ہے جس کی تعلیم تو لوگوں کو دیتا تھا۔ تیرے بعد وہ نیکی نسل در نسل چلتی رہی (یہاں تک کہ آج) اسی کا تجھے اجر دیا جا رہا ہے ابن عبدالرزاق نے ابراہیم نخعی کی روایت سے بھی یہ قول نقل کیا ہے۔ طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان ہے میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے جو شخص کسی جنازہ کے ساتھ جائے گا اس کے لئے میزان میں (نیکی کے) دو قیراط جو کوہ کے برابر ہوں گے رکھے جائیں گے۔ اصبہانی نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرض نماز کا اللہ کے نزدیک ایک وزن ہے جو شخص فرض نماز میں کچھ کمی کرے گا اس سے اس کمی کی حساب فہمی ہوگی ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ فرض نماز میں اگر کچھ نقصان ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) فرماتا ہے دیکھو میرے بندہ کے کچھ نوافل ہیں اگر کچھ نوافل ہوئے تو فرض کی کمی نوافل سے پوری کردی جاتی ہے۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل سے تعلق رکھنے والے جسم کا وزن کیا جائے گا طبرانی نے الاوسط میں حضرت جابر ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن بندہ کی ترازو میں سب سے پہلے اس نفقہ کو رکھا جائے گا جو بندہ نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا ہوگا۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جس نے اللہ کے وعدہ کو سچا جانتے ہوئے اور ایمان رکھتے ہوئے کوئی گھوڑا (اپنے جہاد یا دوسرے مسلمان مجاہد کے لئے) روک رکھا ہوگا تو اس گھوڑے کا کھانا پینا لید اور پیشاب (سب کچھ) قیامت کے دن اس کی میزان (کے نیکیوں کے پلڑے) میں رکھا جائے گا۔ طبرانی نے حضرت علی ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کوئی گھوڑا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے باندھ رکھا تو گھوڑے کا چارہ اور نشانات قدم قیامت کے دن اس کی (نیکیوں کی) میزان میں رکھے جائیں گے۔ اصفہانی نے حسن سند سے حضرت علی ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا اٹھو اور اپنی قربانی (ذبح) ہونے کے وقت اس کے پاس خود موجود رہو جو قطرہ اس کے خون کا ٹپکے گا وہ تمہارے لئے ہر گناہ کی مغفرت کا سبب ہوگا۔ خوب سن لو اس کا خون اور گوشت لا کر ستر گنا کر کے تمہاری میزان میں (قیامت کے دن وزن کے وقت) رکھ دیا جائے گا۔ یہ سن کر ابو سعید نے عرض کیا یا رسول اللہ : ﷺ کیا یہ حکم آل محمد ﷺ کے لئے مخصوص ہے فرمایا آل محمد ﷺ کے لئے بھی ہے اور عام مسلمانوں کے لئے بھی۔ بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے اور ابن حبان نے حضرت ابوذر ؓ کی روایت سے اور ابن عساکر نے ضعیف سند سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے وضو کر کے صاف کپڑے سے (وضو کا پانی) پونچھ لیا تو کوئی ہرج نہیں اور اگر ایسا نہیں کیا (یعنی وضو کا پانی نہ پونچھا) تو یہ افضل ہے کیونکہ قیامت کے دن دوسرے اعمال کے ساتھ وضو کو بھی طلب کیا جائے گا ابن ابی شیبہ نے مصنف میں لکھا ہے کہ سعید بن مسیب نے وضو کے بعد رومال کو پسند نہیں کیا اور فرمایا اس کا بھی (نیکیوں کے ساتھ) وزن کیا جائے گا۔ طبرانی نے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا میں نے ایک اونٹنی اللہ کی راہ میں دے دی پھر اس کا بچہ خرید لینے کا ارادہ کیا اور رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا فرمایا رہنے دو ‘ قیامت کے دن یہ اور اس کی اولاد سب تمہاری میزان میں آئے گی۔ ذہبی نے حضرت عمران بن حصین کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن علماء کی روشنائی اور شہیدوں کے خون کا وزن کیا جائے گا۔ علماء کی روشنائی شہیدوں کے خون سے بھاری نکلے گی۔ فمن ثقلت موازنیہ فاولئک ہم المفلحون سو جن لوگوں (کی نیکیوں) کے پلڑے بھاری ہوں گے تو ایسے ہی لوگ (پورے پورے) کامیاب ہوں گے۔ موازین موزون کی جمع ہے یعنی تولے جانے والے اعمال مراد ہیں نیکیاں مجاہد کا یہی قول ہے یا موازین میزان کی جمع ہے اور اس سے مراد ہے میزان کا نیکیوں والا پلڑا۔ اس توجیہ پر یہ ماننا پڑے گا کہ آیت کی روشنی میں ہر شخص کی میزان جدا جدا ہے۔ المفلحون سے مراد یہ ہے کہ وہی لوگ نجات اور ثواب پائیں گے (باقی مسلمان گناہگار جن کی مغفرت ہوجائے گی وہ اگرچہ عذاب سے نجات پالیں گے مگر چونکہ ان کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی اس لئے ثواب نہیں پائیں گے) ۔
Top