Tafseer-e-Mazhari - Nooh : 28
رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا۠   ۧ
رَبِّ اغْفِرْ لِيْ : اے میرے رب بخش دے مجھ کو وَلِوَالِدَيَّ : اور میرے والدین کو وَلِمَنْ : اور واسطے اس کے دَخَلَ : جو داخل ہو بَيْتِيَ : میرے گھر میں مُؤْمِنًا : ایمان لا کر وَّلِلْمُؤْمِنِيْنَ : اور مومنوں کو وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتوں کو وَلَا : اور نہ تَزِدِ : تو اضافہ کر الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو اِلَّا تَبَارًا : مگر ہلاکت میں
اے میرے پروردگار مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو ایمان لا کر میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو معاف فرما اور ظالم لوگوں کے لئے اور زیادہ تباہی بڑھا
رب اغفرلی ولو الدی . حضرت نوح کے باپ کا نام لمک بن منوشلخ اور ماں کا نام سمجار بنت اتوش تھا اور دونوں مؤمن تھے (پیغمبر کسی کافر کے لیے دعاء مغفرت نہیں کرسکتا) ۔ ولمن دخل بیتی . بیت سے مراد ہے گھر اور بقول ضحاک مسجد اور بعض کے نزدیک کشتی تھی۔ مؤمنا . اس قید کے لگانے سے ابلیس (دعاء مغفرت سے) خارج ہوگیا کشتی میں وہ بھی آگیا تھا مگر کافر تھا۔ وللمومنین والمومنت . قیامت تک آنے والے تمام مؤمن مرد اور عورتیں اس میں داخل ہیں۔ ولا تزد الظالمین . الظٰلمین سے مراد ہیں کافر۔ الا تبارا . یعنی ہلاکت۔ اللہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی (اور اس قوم کے تمام کافر تباہ کردیئے گئے۔ ) الحمد اللہ سورة نوح کی تفسیر کا ترجمہ مکمل ہوا .............. 1 ؂ اہل سنت کا قول ہے کہ گمراہ کرنے والا اور ہدایت دینے والا محض خدا ہے ‘ کوئی سوائے خدا کے کسی کو نہ گمراہ کرسکتا ہے نہ ہدایت یاب کرسکتا ہے اور یضلوا کا لفظ بظاہر اس کے خلاف ہے ‘ اس لیے حضرت مفسر (رح) نے فرمایا کہ گمراہ کرنے سے مراد ہے گمراہ کرنے کا ارادہ کرنا۔
Top