Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 18
ذٰلِكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَیْدِ الْكٰفِرِیْنَ
ذٰلِكُمْ : یہ تو ہوا وَاَنَّ : یہ کہ اللّٰهَ : اللہ مُوْهِنُ : سست کرنیوالا كَيْدِ : مکر۔ داؤ الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
(بات) یہ (ہے) کچھ شک نہیں کہ خدا کافروں کی تدبیر کو کمزور کر دینے والا ہے
ذلکم یہ ‘ یعنی خوب صورت آزمائش ‘ یا دشمنوں کو قتل کرنا ‘ یا ان پر کنکریاں پھینکنا۔ ذٰلکم خبر ہے ‘ اس کا مبتداء محذوف ہے ‘ یعنی مقصود یہ تھا۔ وان اللہ موھن کید الکافرین۔ یعنی کافروں کے داؤ کو کمزور کردینا بھی مقصود تھا۔ اس جملہ کا عطف ذٰلکم پر ہے (گویا المقصود مبتداء محذوف ہے اور ذٰلکم سے الکافرینتک اس کی خبر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کی آزمائش اور کافروں کی بیخ کنی اس جہاد کی غرض تھی) ۔ محمد بن اسحاق اور امام احمد نے حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ بن صعیر عذری کی روایت سے اور ابن جریر و ابن المنذر نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ (بدر کے دن) جب باہم مقابلہ پر صف آرائی ہوئی اور ایک فریق دوسرے کے قریب پہنچ گیا تو ابوجہل نے کہا : اے اللہ ! ہم میں سے جو بھی رشتۂ قرابت کو قطع کرنے والا اور بری باتیں (باپ دادا کے خلاف) لانے والا ہو ‘ کل صبح تو اس کو ہلاک کر دے۔ گویا ابوجہل نے خود اپنے خلاف فتح کی دعاء کی ‘ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top