Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تَتَّقُوا : تم ڈروگے اللّٰهَ : اللہ يَجْعَلْ : وہ بنادے گا لَّكُمْ : تمہارے لیے فُرْقَانًا : فرقان وَّيُكَفِّرْ : اور دور کردے گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہاری برائیاں وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخشدے گا تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِيْمِ : بڑا
مومنو! اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے امر فارق پیدا کردے گا (یعنی تم کو ممتاز کردے گا) تو وہ تمہارے گناہ مٹادے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اور خدا بڑا فضل والا ہے
یایھا الذین امنوا ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا اے ایمان والو ! اگر تم ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تم کو ایک فیصلہ کی چیز عنایت کر دے گا۔ یعنی ایک بصیرت قلبی عطا فرمائے گا جس سے تم حق و باطل میں تمیز کرلو گے۔ فراست مؤمن کا لفظ جو حدیث میں آیا ہے ‘ اس سے یہی قلبی بصیرت مراد ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا : مؤمن کی فراست سے ڈرو ‘ وہ اللہ کے نور یعنی خداداد نور بصیرت سے دیکھتا ہے۔ رواہ البخاری فی التاریخ والترمذی عن ابی سعید الخدری والطبرانی وابن عدی عن ابی امامۃ وابن جریر عن ابن عمر۔ دوسری حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : خواہ مفتی تجھے فتویٰ دے چکے ہوں (مگر تو پھر بھی) اپنے دل سے فتویٰ طلب کر۔ رواہ البخاری فی التاریخ عن وابصۃ بسند حسن۔ یہ قلبی فتویٰ اسی وقت ہوتا ہے جب نفس تمام بری باتوں سے پاک ہوگیا ہو اور قلب کی نفسانیت فنا ہوچکی ہو ‘ حقیقت تقویٰ اس وقت ظاہر ہوتی ہے۔ صوفیہ کی اصطلاح میں اسی کو (باطنی) کشف کہتے ہیں۔ یا فرقان سے مراد وہ نصرت ہے جس سے اہل حق اور باطل پرستوں میں فرق ہوجاتا ہے ‘ اہل ایمان کو باعزت اور اہل کفر کو ذلیل کردیا جاتا ہے۔ مجاہد نے کہا : یعنی اللہ تعالیٰ دونوں جہان میں متقیوں کیلئے تمام خطرات اور ہولناکیوں سے بچاؤ کا راستہ بنا دے گا۔ مقاتل بن حیان نے کہا کہ دین میں شبہات و شکوک واقع ہونے سے محفوظ رہنے کا طریقہ بتادے گا۔ مقاتل کا قول اول الذکر تفسیر کے قریب ہے (جس میں فرقان سے بصیرت قلبی مراد قرار دی گئی ہے) عکرمہ نے نجات اور ضحاک نے ثبات فرقان کا ترجمہ کیا ہے۔ ابن اسحاق نے کہا : یعنی حق و باطل میں فیصلہ کر دے گا جس سے تمہاری حقانیت ظاہر اور تمہارے مخالفوں کی باطل پرستی ثابت ہوجائے گی۔ فرقان (لغوی اعتبار سے) مصدر ہے ‘ جیسے رجحان اور نقصان۔ ویکفر عنکم سیئتکم ویغفرلکم وا اللہ ذوالفضل العظیم۔ اور تمہارے گناہ اتار دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ یعنی تمہارے گذشتہ گناہ مٹا دے گا ‘ ان پر پردہ ڈال دے گا اور اپنی نعمتیں تم کو بخش دے گا۔ بزار نے حضرت انس کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابن آدم کے تین رجسٹر سامنے لائے جائیں گے : ایک رجسٹر نیک اعمال کا ‘ دوسرا رجسٹر اس کے گناہوں کا اور تیسرے رجسٹر میں اللہ کی نعمتوں کا اندراج ہوگا جو اللہ نے اپنے بندہ کو عنایت کی ہوں گی۔ پھر انعامات کے رجسٹر میں سے کسی حقیر ترین نعمت کو حکم ہوگا : تو اپنے مقابل کسی عمل صالح کو وصول کرلے (یعنی اللہ کی اس حقیر ترین نعمت کا مقابلہ بندہ کے نیک عمل سے کیا جائے گا) تو اس نعمت کے مقابل تمام نیک اعمال بھی پورے نہ اتریں گے۔ نعمت کہے گی : تیری عزت کی قسم ! میں نے تو پورے اعمال کو بھی اپنے مقابل نہیں پایا۔ نیک اعمال سب ختم ہوگئے ‘ تمام گناہ باقی ہیں اور دوسری نعمتیں بھی موجود ہیں۔ اب اگر اللہ کو کسی بندہ پر رحم کرنا مقصود ہوگا تو فرمائے گا : میرے بندے ! میں نے تیری نیکیاں چندگنی کردیں ‘ تیری بداعمالیاں معاف کردیں اور تجھے اپنے انعام سے سرفراز کردیا (گویا نیک اعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اللہ کے انعام و رحمت سے بندہ کی بخشش ہوگی۔ طبرانی نے حضرت واسلہ بن اسقع کی روایت سے بیان کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ ایک ایسے بندہ کو قبر سے اٹھائے گا جس کا (اس کے اعمال نامہ میں) کوئی گناہ درج نہ ہوگا۔ اللہ اس سے فرمائے گا : (تیرا کوئی گناہ درج نہیں ‘ تو بےگناہ ہے) اب بتا ‘ تجھے تیرے نیک اعمال کے مطابق جزا دی جائے یا میں اپنے انعام کی وجہ سے تجھے ثواب دوں ؟ تجھے دونوں باتوں میں سے کونسی بات پسند ہے ؟ بندہ عرض کرے گا : پروردگار ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے تیری کوئی نافرمانی نہیں کی ‘ اسلئے میری نیکیوں کا ثواب عطا فرما۔ اللہ فرمائے گا : میرے بندے کی نیکیوں کا میری نعمتوں سے مقابلہ کرو۔ نتیجہ میں کوئی نیکی ایسی نہ بچے گی کہ جس کے مقابل بندہ کو نعمت نہ دے دی گئی ہو (ایسی حالت میں تمام نیکیوں کا معاوضہ دنیوی نعمتوں کی شکل میں مل چکا ہوگا اور کوئی نیکی قابل ثواب باقی نہ رہے گی ‘ ناچار ہو کر) بندہ عرض کرے گا : اپنی رحمت اور انعام سے مجھے ثواب عطا فرما۔ اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ تم میں سے کسی شخص کو اس کا (نیک) عمل نہیں بچائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ بھی (اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پائیں گے) فرمایا : نہ میں بھی بغیر اس کے کہ اللہ مجھے اپنی رحمت و فضل سے ڈھانک لے۔ متفق علیہ من روایۃ ابی ہریرۃ۔ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : راستی اختیار کرو اور (پوری راستی ممکن نہ ہو تو) راستی کے قریب آجاؤ اور بشارت پاؤ کیونکہ تم میں سے کسی کے اعمال تو جنت میں لے جانے والے نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ بھی (اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جائیں گے) فرمایا : نہ میں بھی بغیر اس کے کہ اللہ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانک لے۔ اسی کی طرف اللہ نے اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے : اللہ بڑے فضل والا ہے۔ یعنی اللہ نے نیک اعمال کے اجر کا جو وعدہ کیا ہے ‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمہارا تقویٰ موجب اجر ہے بلکہ یہ تو محض اللہ کا کرم اور مہربانی ہے (کہ اس نے نیک اعمال کو نجات کا ذریعہ بنا دیا ہے ورنہ تمام نیک اعمال تو اس قابل بھی نہیں کہ اللہ کے دنیوی احسانات کا بدل ہو سکیں) جیسے کوئی آقا کسی کام کے کرنے پر اپنے غلام کیلئے کوئی انعام مقرر کر دے (تو یہ محض اس کی مہربانی ہوگی) ورنہ اس خدمت کی انجام دہی تو غلام کیلئے ویسے بھی ضروری ہوتی ہے۔ بعض اہل تفسیر نے یُکْفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ اللہ تمہارے صغیرہ گناہ ساقط کر دے گا اور کبیرہ گناہ معاف فرما دے گا۔
Top