Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 30
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ١ؕ وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ
وَاِذْ
: اور جب
يَمْكُرُ بِكَ
: خفیہ تدبیریں کرتے تھے آپ کے بارہ میں
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جنہوں نے
كَفَرُوْا
: کفر کیا (کافر)
لِيُثْبِتُوْكَ
: تمہیں قید کرلیں
اَوْ يَقْتُلُوْكَ
: یا قتل کردیں تمہیں
اَوْ يُخْرِجُوْكَ
: یا نکال دیں تمہیں
وَيَمْكُرُوْنَ
: اور وہ خفیہ تدبیریں کرتے تھے
وَيَمْكُرُ اللّٰهُ
: اور خفیہ تدبیریں کرتا ہے اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
خَيْرُ
: بہترین
الْمٰكِرِيْنَ
: تدبیر کرنے والا
اور (اے محمدﷺ اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر تو) وہ چال چل رہے تھے اور (اُدھر) خدا چال چل رہا تھا۔ اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے
واذ یمکربک الذین کفروا اور (یاد کرو) جب کہ کافر تمہارے متعلق خفیہ سازش کر رہے تھے۔ اس آیت کا عطف اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌپر ہے ‘ یعنی وہ وقت بھی یاد کرو جب تمہاری تعداد کم تھی اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب کفار تمہارے متعلق خفیہ اسکیمیں بنا رہے تھے۔ یہ پوشیدہ اسکیمیں مکہ میں بنائی گئی تھیں (یعنی ہجرت سے پہلے) اور یہ سورت مدنی ہے۔ ابن اسحاق ‘ عبدالرزاق ‘ امام احمد ‘ ابن جریر ‘ ابونعیم ‘ ابن المنذر اور طبرانی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے اور عبدالرزاق و عبد بن حمید نے قتادہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب انصار مسلمان ہوگئے تو قریش کو خیال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پیرو اور ساتھی دوسرے شہر کے کچھ لوگ ہوگئے اور غیروں کا ایک جتھا ان کا ساتھی بن گیا۔ پھر انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہجرت کر کے کچھ مسلمان انصار کے پاس پہنچ گئے اور ان کو ٹھہرنے کی جگہ بھی مل گی اور ٹھہرانے والے بھی اور حمایت کرنے والے بھی ہیں۔ یہ دیکھ کر ان کو اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ بھی انصار کے پاس چلے جائیں گے اور ان سے مل کر ہم سے لڑنے کو تیار ہوجائیں گے ‘ اسلئے پنچایت گھر میں جو قصی بن کلاب (قریش کے مورث اعلیٰ ) کا گھر تھا ‘ سب کا اجتماع ہوا۔ قریش ہر کام کا مشورہ اسی دار النّدْوَہ (پنچایت گھر) میں جمع ہو کر کرتے تھے ‘ چناچہ سب یہیں اکٹھے ہوئے۔ اسی یوم الاجتماع کو یوم الزحمت کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ جمع ہی تھے کہ ابلیس ایک سال خوردہ بڑے بوڑھے کی شکل میں چادر اوڑھے دروازہ پر آکر کھڑا ہوگیا۔ لوگوں نے دروازہ پر کھڑا دیکھا تو پوچھا : یہ کون بوڑھا آدمی ہے ؟ شیخ نے جواب دیا : نجد کا رہنے والا ایک بوڑھا ہے جس نے سنا تھا کہ آپ لوگ ایک مہم میں مشورہ کرنے یہاں جمع ہوئے ہیں ‘ اسلئے وہ بھی تمہاری باتیں سننے چلا آیا ‘ امید ہے کہ آپ اس میں اچھی رائے اور خیرخواہی پائیں گے۔ لوگوں نے کہا : بہت اچھا ‘ اندر آجاؤ۔ بوڑھا اندر آگیا۔ وہاں قریش کے سردار عتبہ بن ربیعہ ‘ شیبہ بن ربیعہ ‘ طعیمہ بن عدی ‘ نضر بن حارث بن کلدہ ‘ ابو البختری بن ہشام ‘ زمعہ بن اسود ‘ ابوجہل بن ہشام ‘ حجاج کے دونوں بیٹے نبیہ اور منبہ ‘ امیہ بن خلف ‘ ابو سفیان 1 بن حرب ‘ جبیر 2 بن مطعم اور حکیم 3 بن حزام جمع تھے۔ مؤخر الذکر تینوں حضرات آخر میں مشرف باسلام بھی ہوگئے (باقی اشخاص کافر رہے اور اکثر بدر میں مارے گئے) ان کے علاوہ بھی قریش اور دوسرے قبائل کے کچھ اشخاص تھے جو قابل ذکر نہیں۔ حاضرین میں سے ایک شخص بولا : آپ لوگوں کو اس شخص کے حالات معلوم ہی ہیں۔ میرے خیال میں کچھ بعید نہیں کہ یہ شخص اپنے پیروؤں کو جو غیر لوگ ہیں ‘ ساتھ لے کر ہم پر حملہ کر دے ‘ اسلئے باہم مشورہ کرلو اور کسی رائے پر متفق ہوجاؤ۔ ایک شخص نے جس کا نام سہیلی نے بروایت عبدالسلام ‘ ابوالبختری بن ہشام بتایا ہے ‘ کہا : اس کو زنجیروں میں باندھ کر کسی گھر میں بند کر دو اور دروازہ مقفل کر دو ‘ یہاں تک کہ وہ موت جو اس جیسے دوسرے گذشتہ شعراء زہیر ‘ نابغہ وغیرہ کو آئی ‘ اس کو بھی (قیدخانہ کے اندر) آجائے۔ شیخ نجدی بولا : بخدا ! یہ رائے تمہارے لئے سودمند نہیں۔ اگر تم اس کو مکان کے اندر بند بھی کر دو گے تب بھی بند دروازوں کے اندر سے اس کا حکم اس کے ساتھیوں تک پہنچ جائے گا اور بہت ممکن ہے کہ وہ تم سے لڑ کر اور غالب آکر اس کو تم سے چھین لیں۔ حاضرین نے کہا : شیخ نے سچ کہا۔ ایک اور شخص نے کہا (سہیلی نے اس کا نام ابو الاسود ربیعہ بن عمر بتایا ہے جو قبیلۂ بنی عامر بن لوی کا ایک فرد تھا) ہم اپنے اندر سے اس کو نکال دیں ‘ جہاں چاہے چلا جائے ‘ جو چاہے کرے ‘ ہم کو ضرر نہ پہنچائے گا۔ وہ ہم سے غائب ہوجائے گا اور ہم کو اس سے فراغت ہوجائے گی تو ہم اپنے معاملات کی درستی کرلیں گے اور (زائل شدہ) اتحاد کو ٹھیک کرلیں گے۔ شیخ نجدی بولا : یہ رائے بھی ٹھیک نہیں۔ تم واقف ہو کہ اس کی باتیں کیسی اچھی ہوتی ہیں ‘ اس کی گفتگو میں کیسی مٹھاس ہوتی ہے۔ جو چیز یہ پیش کرتا ہے ‘ وہ دلوں میں اتر جاتی ہے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو وہ چلا جائے گا اور کچھ لوگوں کے دلوں کو لبھا کر ‘ سب کو ساتھ لا کر تم کو روند ڈالے گا اور اقتدار تمہارے ہاتھوں سے چھین کر جیسا سلوک کرنا چاہے گا ‘ تمہارے ساتھ کرے گا۔ لہٰذا اس کے علاوہ کوئی اور بات سوچو۔ ابوجہل نے کہا : میری ایک رائے ہے جس سے تم لوگ ابھی تک واقف نہیں ہو۔ لوگوں نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ ابوجہل نے کہا : میرا خیال ہے کہ ہم ہر قبیلہ سے ایک جیالا شریف نوجوان لیں ‘ پھر ہر جوان کے ہاتھ میں تلوار دے دیں اور سب مل کر یکدم اس پر ٹوٹ پڑیں ‘ سب تلواریں یکبارگی پڑیں اس طرح قتل کر کے ہم کو اس کی طرف سے چین مل جائے گا۔ بنی عبدمناف ساری قوم سے تو لڑ نہ سکیں گے اور قتل کا جرم تمام قبائل پر عائد ہوگا ‘ لامحالہ خون بہا لینے پر راضی ہوجائیں گے ‘ ہم سب مل کر خون بہا ادا کردیں گے۔ یہ مشورہ سن کر شیخ نجدی بولا : بات تو یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی رائے نہیں ہوسکتی۔ پھر اس نے مندرجۂ ذیل دو شعر پڑھے اَلرَأئے رَایَان رایٌ لیس یغَرِفہ ھادو رای کنصل السیف معروف یکون اولہٗ عز ومکرمۃ یومًا واٰخرہ حمد وتشریف رائے دو طرح کی ہوتی ہے ‘ ایک وہ رائے جس کو کوئی راہنما نہیں جانتا (یعنی غیر معروف ‘ ناپسندیدہ رائے) اور دوسرے معروف (ممتاز) رائے تلوار کے پھل کی طرح (روشن چمکدار) جس کے آغاز میں عزت اور بزرگی ہوتی ہے اور انجام میں تعریف و تعظیم۔ غرض اسی رائے پر متفق ہو کر مجمع برخاست ہوگیا۔ اس مشورہ کی اطلاع حضرت جبرئیل نے رسول اللہ ﷺ کو دے دی اور کہہ دیا کہ جس بستر پر آپ رات کو (روز) سوتے ہیں ‘ آج رات اس بستر پر نہ رہنا۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے نکل جانے کی اجازت دے دی۔ رات کا اندھیرا ہوا تو قریش رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر اس انتظار میں جمع ہوگئے کہ آپ سو جائیں تو وہ حملہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی ان کی موجودگی محسوس کرلی اور حضرت علی سے فرمایا : میری سبز حضرمی چادر اوڑھ کر میری جگہ میرے بستر پر لیٹ جاؤ ‘ ان کی طرف سے تم کو کوئی دکھ نہیں پہنچے گا۔ رسول اللہ ﷺ وہی سبز حضرمی چادر اوڑھ کر سویا کرتے تھے۔ باہر سب جمع ہوگئے تو ابوجہل نے کہا : محمد ﷺ کہتے ہیں کہ اگر تم ان کی پیروی کرو گے تو عرب و عجم کے بادشاہ ہوجاؤ گے۔ پھر مرنے کے بعد تم کو زندہ کیا جائے گا اور اردن کے باغوں کی طرح تم کو باغ ملیں گے اور اگر تم ان کے حکم پر نہیں چلو گے تو ان کے ہاتھوں قتل کئے جاؤ گے۔ پھر مرنے کے بعد تم کو زندہ کیا جائے گا اور آگ میں جلایا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ مٹھی میں خاک لئے مکان سے برآمد ہوئے اور فرمایا : ہاں ‘ میں یہ بات کہتا ہوں اور تو مقتولین میں سے ایک ہوگا۔ اللہ نے قریش کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ رسول اللہ ﷺ ان کو دکھائی نہ دئیے۔ آپ ہر ایک کے سر پر کچھ کچھ مٹی ڈالتے اور یٰس والْقُرْاٰنِ الْحَکِیْم ... لَا یُبْصِرُوْنَ 5 تک پڑھتے چلے گئے۔ کوئی بھی ایسا نہ بچا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے سر پر خاک نہ ڈالی ہو۔ پھر باہر آکر آپ جہاں جانا چاہتے تھے ‘ چلے گئے۔ جب حضور ﷺ تشریف لے گئے تو کوئی بیرونی شخص قریش کے پاس آیا اور اس نے کہا : یہاں کس کا انتظار کر رہے ہو ؟ قریش نے کہا : محمد ﷺ کا۔ آنے والے نے کہا : اللہ نے تم کو ناکام کردیا۔ خدا کی قسم ! وہ تو تمہارے سامنے سے نکل گئے اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہ بچا کہ انہوں نے اس کے سر پر خاک نہ ڈال دی ہو۔ اب وہ اپنے کام کو جا چکے ‘ تم سوچ لو کہ تم کو اب کیا کرنا ہے۔ یہ سن کر ہر ایک نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا تو سر پر خاک دکھائی دی۔ پھر اندر جھانکنے لگے تو وہاں رسول اللہ ﷺ کی چادر اوڑھے کوئی شخص دکھائی دیا۔ کہنے لگے : خدا کی قسم ! محمد ﷺ تو یہ چادر اوڑھے سو رہے ہیں۔ اسی حالت میں صبح ہوگئی تو حضرت علی ؓ بستر سے اٹھ بیٹھے۔ اس وقت کہنے لگے : بیشک اس شخص نے سچ کہا تھا۔ یہاں سے نکل کر رسول اللہ ﷺ غار ثور کی طرف تشریف لے گئے۔ باقی قصہ سورة توبہ میں انشاء اللہ آئے گا۔ حاکم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت علی نے اپنی جان کا ایثار کیا اور رسول اللہ ﷺ کا لباس پہن کر آپ کی جگہ سو گئے۔ مشرک رسول اللہ ﷺ کو تاک رہے تھے مگر وہاں حضور ﷺ کی جگہ حضرت علی تھے اور حضرت علی کو ہی وہ رسول اللہ ﷺ سمجھے ہوئے تھے۔ حضرت علی سوتے میں جب کروٹ لے کر سیدھے ہوئے تو مشرکوں کو حضرت علی کی شکل نظر آئی۔ کہنے لگے : تو بڑا کمینہ ہے ‘ تیرا ساتھی تو کروٹ نہیں لیتا تھا اور تو (سوتے میں) کروٹ لیتا ہے ‘ ہم پہچان نہ سکے (چادر کے اندر تجھے دیکھ کر غلط سمجھے) ۔ حاکم نے حضرت علی بن حسین (یعنی امام زین العابدین) کا قول نقل کیا ہے کہ (آیت مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَأَ مَرْضَات اللّٰہِ کا مصداق حضرت علی ہی ہیں) حضرت علی نے ہی اللہ کی خوشنودی طلب کرنے کیلئے اپنی جان فروخت کی یا خریدی اور اسی کے متعلق مندرجۂ ذیل اشعار فرمائے وقیت بنفسی خیر من وطی الحصٰی ومن طاف بالبیت العتیق وبالحجر رسول اٰلہ اخاف ان یمکر وابہ فنجاہ ذوالطول الا لٰہ من المکر وبات رسول اللہ فی الغار اٰمنا موقًّی وفی حفظ الالٰہ وفی ستر وبت ارا عیہم وما یتھمونہ وقد وطنت نفسی علی القتل والاسر جن لوگوں نے (بطحاء کی) پتھریوں کو روندا اور کعبہ اور سنگ اسود کا طواف کیا ‘ ان میں سب سے برتر ہستی کو اپنی جان کی پیشکش کر کے میں نے بچایا جو اللہ کے رسول تھے۔ مجھے اندیشہ تھا کہ مشرک ان پر خفیہ داؤ نہ کریں ‘ آخر مشرکوں کے داؤ سے قدرت والے اللہ نے ان کو بچا لیا۔ رسول اللہ ﷺ رات بھر غار کے اندر بےفکری کے ساتھ محفوظ اللہ کی حفاظت و پناہ میں رہے اور میں نے رات بھر مشرکوں کی اور ان کی سازش کی تاک جھانک رکھی اور اپنی جان کو مارے جانے اور قید ہونے پر جمائے رکھا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے : مشرکوں کے اسی اجتماع اور واقعات کے متعلق آیت وَاِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاالخ نازل ہوئی۔ لیثبتوک تاکہ تم کو گرفتار کر کے ‘ باندھ کے قید کردیں جس طرح ابو الحقیق کی رائے تھی۔ او یقتلوک یا تم کو قتل کردیں ‘ جیسے ابوجہل کی رائے تھی اور شیطان نے اس کو پسند کیا تھا۔ او یخرجوک ط یا تم کو (مکہ سے) نکال باہر کردیں ‘ جیسے ابوالاسود کی رائے تھی۔ ویمکرون ویمکر اللہ ط اور وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا۔ مکرکا (لغوی) معنی ہے کسی تدبیر سے دوسرے کو اس کے مقصد سے پھیر دینا۔ مکر کی دو قسمیں ہیں : اچھا ‘ برا۔ اگر اچھا فعل مقصود ہو تو اچھا مکر ہے اور برا فعل مقصود ہو تو برا مکر ہے (گویا مکر کی اچھائی برائی مقصد کی اچھائی برائی سے وابستہ ہے) مکر کی ابتدائی نسبت اللہ کی طرف صحیح نہیں کیونکہ مطلق مکر سے برے مکر کی طرف ذہنی انتقال ہوسکتا ہے ‘ ہاں اگر دوسروں کے مکر کے مقابل اللہ کی طرف مکر کی نسبت کی جائے تو درست ہے (یعنی دوسروں کا مکر جب مذموم اور برا ہوگا اور اس کے مقابل اللہ کی طرف مکر کی نسبت کی جائے گی تو لامحالہ اللہ کا مکر اچھا ہی ہوگا اور برا مکر ہونے کا وہم بھی نہ ہو سکے گا) ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ قریش سازشیں کر رہے تھے کہ محمد ﷺ کی دعوت اکارت جائے اور اللہ کا نور بجھ جائے اور اللہ تدبیر کر رہا تھا کہ اس کا نور پھیل جائے اور کام پورا ہوجائے اور اللہ کے دشمن تباہ ہوجائیں۔ وا اللہ خیر الماکرین۔ اور سب سے مستحکم اور بہتر تدبیر کرنے والا اللہ ہے کیونکہ اللہ کی ہر تدبیر اور عمل اچھا اور خیر ہی خیر ہے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک اللہ کے مکر کا معنی ہے مشرکوں کی سازشوں کو ناکام بنا دینا۔ بعض اہل تفسیر نے کہا کہ مشرکوں کے مکر کے بدلہ کو اللہ کا مکر کہا گیا ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ مکر اللہ کا معنی ہے : بندہ کو ڈھیل دینا اور دنیوی سامان وعیش پر اس کو قابو عطا کرنا۔ اسی لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ جس کو دنیوی فراخی حاصل ہو اور وہ اس فراخ حالی کو اللہ کا مکر (ڈھیل) نہ سمجھے ‘ وہ فریب خوردہ ہے۔ ابن جریر نے عبید بن عمیر کی سند سے مطلب بن وداعہ کا قول نقل کیا ہے کہ ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : تمہاری قوم تمہارے متعلق کیا مشورہ کرتی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ مجھے قید کرنے ‘ یا قتل کرنے ‘ یا جلا وطن کرنے کا مشورہ کر رہے ہیں۔ ابو طالب نے کہا : تم کو یہ کس نے بتایا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : میرے رب نے۔ ابو طالب نے کہا : تمہارا رب بہت اچھا ہے ‘ تم اس کے خیر خواہ رہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں اس کا خیرخواہ رہوں ‘ وہ تو خود میرا خیرخواہ ہے۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ ابن کثیر نے لکھا ہے : اس روایت میں ابوطالب کا ذکر غریب بلکہ منکر ہے۔ یہ واقعہ تو ہجرت کی رات کا ہے جبکہ ابوطالب کے انتقال کو تین سال گذر چکے تھے۔ ابن جریر نے حضرت سعید بن جبیر کی روایت سے لکھا ہے کہ بدر کے دن عقبہ بن ابی معیط ‘ طعیمہ بن عدی اور نضر بن حارث گرفتارہونے کے بعدمارے گئے۔ نضر بن حارث کو حضرت مقداد نے گرفتار کیا تھا۔ جب نضر کو قتل کرنے کا حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا تو حضرت مقداد نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو میرا (قیدی) ہے۔ فرمایا : یہ اللہ کی کتاب کے متعلق ایسی باتیں کہتا تھا (یعنی پارینہ داستان اور اساطیر الاوّلین کہتا تھا ‘ لہٰذا اس کا قتل ضروری ہے) اسی کے متعلق آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top