Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 56
اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتَّ : تم نے معاہدہ کیا مِنْهُمْ : ان سے ثُمَّ : پھر يَنْقُضُوْنَ : توڑ دیتے ہیں عَهْدَهُمْ : اپنا معاہدہ فِيْ : میں كُلِّ مَرَّةٍ : ہر بار وَّهُمْ : اور وہ لَا يَتَّقُوْنَ : ڈرتے نہیں
جن لوگوں سے تم نے (صلح کا) عہد کیا ہے پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں اور (خدا سے) نہیں ڈرتے
الذین عادھت منھم ثم ینقضون عھدھم فی کل مرۃٍ وھم لا یتقون۔ جن سے آپ نے عہد لے لیا مگر پھر وہ اپنے معاہدہ کو ہر بار توڑتے رہے اور (عہدشکنی سے) ڈرتے نہیں۔ الذین عاھدت ‘ کفروا سے بدل بعض ہے ‘ یعنی یوں تو عموماً کفر برا ہے مگر خصوصیت کے ساتھ مذمت کے قابل شکست معاہدہ کرنے والے کافر ہیں اور اگر حضرت سعید بن جبیر کی روایت کو صحیح مان لیا جائے تو یہ آیت گذشتہ آیت سے بدل کل ہوگی ‘ یعنی کافروں سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو عہد شکن ہیں۔ مراد یہ کہ یہودیوں کے چھ قبائل بدترین جانور ہیں جنہوں نے بار بار نقض معاہدہ کیا (معاہدہ مصدر ہے اور اس کے مفعول پر من نہ آنا چاہئے ‘ عَاھَدْتَّھُمْہونا چاہئے لیکن) چونکہ معاہدہ کے اندر اخذ (لینے) کا مفہوم ہے ‘ اسلئے من استعمال کیا گیا (معاہدہ کرنے کا معنی ہے کسی سے عہد لینا اور اس کا اس سے عہد لینا) ۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ معاہدہ شکن کافروں سے مراد بنی قریظہ کے خاندان کے یہودی ہیں۔ دو ورق پر رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان (آشتی ‘ محبت اور اخوت کی) ایک تحریر لکھی تھی جس میں یہودیوں سے مصالحت کا بھی ذکر تھا اور یہودیوں سے معاہدہ کیا گیا کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رکھے جائیں گے اور ہر فریق کا نفع و نقصان دوسرے فریق کا فائدہ اور ضرر مانا جائے گا (یعنی یک جہتی کے ساتھ رہیں گے ‘ کوئی کسی کو نہیں ستائے گا لیکن یہودیوں نے یہ معاہدہ توڑ ڈالا اور رسول اللہ ﷺ سے لڑنے کیلئے ہتھیار دے کر مشرکوں کی مدد کی ‘ پھر کہنے لگے : ہم سے چوک اور غلطی ہوگئی ‘ ہم دوبارہ معاہدہ کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔ کعب بن اشرف نے مکہ جا کر کافروں کی موافقت کی اور خندق کے دن کافر ‘ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ھم لا یتقونکا معنی یہ ہے کہ باوجودیکہ اپنی اولاد کی شناخت کی طرح یقینی طور پر رسول اللہ ﷺ کو پہچانتے ہیں ‘ پھر بھی انکار رسالت کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ سے کئے ہوئے ہر معاہدہ کو توڑ دیتے ہیں۔ عبد بن حمید ‘ ابن جریر اور ابو نعیم نے بیان کیا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل ‘ حضرت بشیر بن براء اور حضرت داؤد بن سلمہ نے یہودیوں سے فرمایا : اے گروہ یہود ! اللہ سے ڈرو اور مسلمان ہوجاؤ۔ ہم جب مشرک تھے تو محمد ﷺ کا نام لے کر تم ہم پر فتحیاب ہونے کی دعا کیا کرتے تھے اور ہم سے کہتے تھے کہ ان کی بعثت ہونے والی ہے اور آپ کے اوصاف بھی بیان کیا کرتے تھے۔ ا اللہ نے کافروں کو بدترین چوپائے بلکہ بدترین خلق فرمایا اور کافروں میں سے بدترین وہ کافر ہیں جو کفر پر جمے رہتے ہیں اور کفر پر راسخ رہنے والوں میں بھی سب سے برے وہ ہیں جو عہد شکن ہیں۔
Top