Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 6
یُجَادِلُوْنَكَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ كَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَؕ
يُجَادِلُوْنَكَ : وہ آپ سے جھگڑتے تھے فِي : میں الْحَقِّ : حق بَعْدَ : بعد مَا : جبکہ تَبَيَّنَ : وہ ظاہر ہوچکا كَاَنَّمَا : گویا کہ وہ يُسَاقُوْنَ : ہانکے جا رہے ہیں اِلَى : طرف الْمَوْتِ : موت وَهُمْ : اور وہ يَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے ہیں
وہ لوگ حق بات میں اس کے ظاہر ہوئے پیچھے تم سے جھگڑنے لگے گویا موت کی طرف دھکیلے جاتے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں
يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ : (اور) وہ اس مصلحت کے کام میں بعد اس کے کہ اس کا ظہور ہوگیا تھا (اپنے بچاؤ کیلئے) آپ سے (بطور مشورہ) اس طرح جھگڑا کر رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکے لئے جاتا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں : واؤ کا استیناف کیلئے اور کلام کا استینافیہ ہونا ظاہر ہے (واؤ حالیہ نہیں ہے) کیونکہ ذوالحال اور حال کا زمانہ ایک ہونا چاہئے (حالانکہ مسلمانوں کو مدینہ سے نکلنا ناگوار اور ناپسند نہیں تھا) بلکہ بنی نضیر کے ساتھ جب لڑائی پڑگئی تو اس وقت مسلمانوں کو مدینہ سے نکلنا ناپسند ہوا تھا (پہلی جنگ میں بکثرت زخمی اور شہید ہوگئے اور سب تھک کر چور چور ہوگئے تھے) قافلہ کی جستجو میں مدینہ سے نکلنے کی تو ان کو رغبت تھی کہ بغیر لڑے مال ہاتھ لگ جائے گا۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت ابو ایوب انصاری کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت ابو ایوب نے فرمایا : جب ہم ایک دو دن چلتے رہے (اور قافلہ کا پتہ نہ چلا) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان لوگوں سے (یعنی قریش سے) جنگ کرنے کے متعلق آپ لوگوں کی کیا رائے ہے (آگے بڑھ کر قریش سے جنگ کریں یا واپس مدینہ کو لوٹ جائیں) ان لوگوں کو تمہارے نکلنے کی اطلاع پہنچ گئی۔ ہم نے عرض کیا : بخدا ! ہم میں ان لوگوں سے لڑنے کی جان نہیں ہے ‘ ہمارا ارادہ تو قافلہ کا ہے۔ حضور ﷺ نے پھر فرمایا : تم لوگوں کی رائے جنگ کے متعلق کیا ہے ؟ ہم نے وہی پہلا جواب دے دیا۔ یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَاتَبَیَّنَیعنی آپ جہاد کو ترجیح دے رہے تھے اور حق بات ظاہر کر رہے تھے اور وہ قافلہ پر جا پڑنے کو پسند کر رہے تھے اور جھگڑا کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم کو ان سے مقابلہ کی طاقت نہیں ‘ ہمارا ارادہ تو قافلہ کا ہے اور یہ جھگڑا اس کے باوجود تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو فتحیاب ہونے کی اطلاع دے دی تھی کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ روحاء میں تھے تو حضرت جبرئیل نے نازل ہو کر اطلاع دے دی تھی کہ اللہ نے تم لوگوں سے دونوں گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کیا ہے ‘ یا قافلہ یا قریش (پر فتح) ۔ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ اس جملہ کا تعلق کارھوْنَ سے ہے ‘ یعنی ان کو جنگ و جہاد کی طرف جانا ایسا ناگوار تھا جیسے اس شخص کو موت کی طرف لے جایا جانا ناگوار ہوتا ہے جس کی آنکھوں کے سامنے موت کے اسباب گھوم رہے ہوں (اور وہ سمجھ رہا ہو کہ اس طرف جانے میں میری موت یقینی ہے) اس ناپسندیدگی کی وجہ یہ تھی کہ تعداد کم تھی اور تیاری مفقود تھی۔ حضرت ابن زید نے کہا کہ یجادلون کی ضمیر مشرکوں کی طرف راجع ہے۔ مشرک ‘ حق کے معاملہ میں آپ سے جھگڑا کرتے ہیں۔ حق کی طرف آنا ان کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے موت کی طرف کھینچ کرلے جایا جانا۔
Top