Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
(ان لوگوں کو اپنے گھروں سے اسی طرح نکلنا چاہیئے تھا) جس طرح تمہارے پروردگار نے تم کو تدبیر کے ساتھ اپنے گھر سے نکالا اور (اس وقت) مومنوں ایک جماعت ناخوش تھی
كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ : جیسا آپ کے رب نے آپ کے گھر (اور بستی) سے مصلحت کے ساتھ (بدر کی طرف) آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی۔ کَمَا اَخْرَجَکَ- کَمََایا مبتداء محذوف کی خبر ہے۔ مطلب اس طرح ہوگا : مال انفال کا اللہ اور رسول ﷺ کے اختیار میں ہونا اور رسول اللہ ﷺ کا سب کو برابر تقسیم کرنا اور جہادی جنگی جوانوں پر اس تقسیم کا گراں گذرنا ایسا ہی ہے جیسے تم کو جب اللہ نے مدینہ سے نکالا تھا اور تم بدر کی طرف روانہ ہوئے تھے اور بعض لوگوں کو بدر کی جنگ کیلئے جانا گراں گذرا تھا ‘ یا فعل محذوف کے مصدر کی صفت ہے ‘ یعنی لوگوں کی ناگواری کے باوجود مال غنیمت کا اختیار اللہ اور رسول ﷺ کے ہاتھ میں ہونا اسی طرح ثابت ہے جیسے بدر کو جہاد کیلئے جانے کی بعض لوگوں کی طرف سے ناگواری کے باوجود اللہ تعالیٰ تم کو مدینہ سے (بدر کی طرف) لے گیا تھا (مطلب یہ کہ بدر کو جنگ کیلئے جانا بعض لوگوں کو اپنی بےبضاعتی اور نہتے ہونے کی وجہ سے جس طرح ناگوار تھا مگر اللہ کے فرمان کے مطابق تم مدینہ سے چل دئیے اور نتیجہ فتح کی صورت میں نکلا ‘ اسی طرح اب مال غنیمت کی تقسیم کا اختیار اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہونا اور سب کو برابر برابر تقسیم ہونا تم کو گراں گذرتا ہے مگر نتیجہ اس کا بھی اچھا نکلے گا) کذا قال المرد مِنْم بَیْتوکَ سے مراد یا تو یہ ہے کہ اللہ نے تم کو تمہارے اس گھر سے جو مدینہ میں ہے ‘ باہر نکالا ‘ یا بیت سے مراد ہی مدینہ ہے کیونکہ مدینہ رسول اللہ ﷺ کی ہجرت گاہ تھا اور ہجرت کے بعد آپ کا مسکن تھا۔ مدینہ کو آپ کے ساتھ وہی خصوصیت تھی جو کسی گھر کو اپنے مالک کے ساتھ ہوتی ہے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک اصل کلام اس طرح تھا : لوگ خواہ گوارا نہ کریں مگر آپ مال غنیمت کے سلسلہ میں وہی رفتار اختیار کریں جس کا حکم اللہ نے دیا ہے جیسے لوگوں کی ناگواری کے باوجود اللہ کے حکم کے مطابق آپ (جہاد کیلئے) مدینہ سے نکلے تھے۔ غزوۂ بدر ابن عقبہ اور ابن عابد نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک قافلہ جس میں ہزار اونٹوں پر بڑا قیمتی تجارتی سامان لدا ہوا ہے ‘ ابوسفیان بن حرب کی نگرانی میں شام سے آ رہا ہے اور کوئی قریشی مرد یا عورت ایسا نہیں بچا ہے جس کے پاس ایک مثقال بھی ہو اور اس نے اس تجارت میں حصہ نہ لیا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اس قافلہ میں پچاس ہزار دینار ہیں اور ستر آدمی ساتھ ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ‘ حضرت عبد اللہ بن زبیر ‘ محمد بن اسحاق اور سدی کا بیان ہے کہ ابو سفیان چالیس سواروں کے ساتھ شام سے واپس آ رہا تھا۔ یہ چالیس سوار قریش کے بڑے لوگ تھے جن میں عمرو بن عاص اور مخرمہ بن نوفل زہری بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو باہر نکل چلنے کی دعوت دی اور فرمایا : قریش کا یہ قافلہ ہے جس میں قریش کا بہت مال ہے۔ چلو نکل چلیں ‘ شاید اللہ تم کو ان کا مال غنیمت عطا فرما دے۔ لوگوں نے دعوت قبول کی۔ کچھ لوگ ہلکے (یعنی بغیر ساز و سامان اور اسلحہ کے) تھے اور کچھ بھاری (ساز و سامان اور اسلحہ کے ساتھ) بہت سے لوگ ساتھ نہیں بھی گئے مگر ان کو قابل ملامت نہیں قرار دیا گیا کیونکہ ان کو خیال بھی نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی لڑائی پیش آئے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی کچھ زیادہ پرواہ نہیں کی اور فرمایا : جس کے پاس سواری موجود ہو ‘ وہ ہماررے ساتھ سوار ہو کر چلے۔ کچھ لوگوں نے اجازت طلب کی کہ ہماری سواریاں بالائی مدینہ میں ہیں ‘ ہم جا کرلے آئیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : نہیں ‘ صرف وہ شخص جائیں جن کی سواریاں اس وقت موجود ہوں۔ مدینہ سے روانہ ہونے سے دس روز پہلے رسول اللہ ﷺ نے طلحہ بن عبیدا اللہ اور سعید بن زید کو شام کے راستہ کی طرف قافلہ کی ٹوہ لگانے کیلئے بھیج دیا تھا۔ یہ دونوں حضرات سرزمین خوار میں پہنچ کر کشد بن مالک جہنی کے پاس مقیم ہوئے۔ کشد نے دونوں کو اپنی ذمہ داری میں اپنے پاس چھپا کر رکھا لیا۔ جب قافلہ گزر گیا تو دونوں حضرات کشد کے گھر سے باہر آگئے اور کشد ان کو مقام ذوالمروہ تک پہنچا گیا۔ دونوں بزرگ جب رسول اللہ ﷺ کو قافلہ کی اطلاع دینے پہنچے تو حضور ﷺ مدینہ سے نکل رہے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کا قبضہ ینبوع پر ہوگیا تو آپ ﷺ نے کشد کو ینبوع جاگیر میں کاٹ دیا تھا۔ کشد نے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں تو بوڑھا ہوں (آج مرا کل دوسرا دن) میرے بھتیجے کے نام یہ جاگیر کر دیجئے۔ حضور ﷺ نے کشد کے بھتیجے کے نام ینبوع کی جاگیر کردی ‘ پھر اس سے عبدالرحمن بن سعد بن زرارہ نے خرید لی (رواہ عمر بن شیبۃ) ادھر بنی خدام کے ایک آدمی نے مقام زرقاء میں پہنچ کر ابو سفیان کو اطلاع دے دی کہ رسول اللہ ﷺ قافلہ کی واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ابو سفیان ساتھیوں کو لے کر ڈرتے ڈرتے تاک گھات کیلئے نکلا۔ حجاز کے قریب پہنچا تو تجسس احوال کرنے لگا۔ جو سوار ملتا ‘ اس سے خبر دریافت کرتا۔ آخر ایک سوار سے اس کو اطلاع ملی کہ رسول اللہ ﷺ قافلہ کیلئے نکل چکے ہیں۔ ابو سفیان کو اندیشہ پیدا ہوگیا اور اس نے ضمضم بن عمرو غفاری کو بیس دینار مزدوری دے کر مکہ کو بھیجا اور اس سے کہہ دیا کہ مکہ میں پہنچنے کے وقت اونٹ کے کان کاٹ کر کجاوہ الٹا باندھ لینا اور آگے پیچھے سے اپنا کرتہ پھاڑ لینا (فریاد کرنا) اور قریش سے جا کر کہنا کہ اپنے مال کی حفاظت کیلئے باہر آجائیں اور ان کو یہ بھی بتادینا کہ محمد اپنے ساتھیوں سمیت قافلہ کو لوٹنے کے درپے ہیں۔ ضمضم فوراً مکہ کو چل دیا اور جیسا ابو سفیان نے حکم دیا تھا ‘ ویسا ہی کیا۔ عاتکہ بنت عبدالمطلب کا خواب ابن اسحاق نے بروایت عروہ اور بیہقی نے بروایت ابن شہاب اور ابن اسحاق اور حاکم اور بیہقی نے بالاتفاق عکرمہ کی روایت سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے اور موسیٰ بن عقبہ کا بھی یہی بیان ہے کہ ضمضم کے پہنچنے سے تین رات پہلے عاتکہ بنت عبدالمطلب نے ایک خواب دیکھا ‘ صبح کو اس خواب سے ان کو بڑی فکر ہوگئی۔ انہوں نے اپنے بھائی عباس بن عبدالمطلب کو بلوایا اور کہا : بھائی ! میں نے ایک خوفناک خواب دیکھا ہے ‘ قریش پر کوئی مصیبت اور آفت آنے والی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عباس نے خواب پوچھا تو عاتکہ نے کہا : میں اس شرط پر تم سے بیان کرسکتی ہوں کہ تم کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا کیونکہ لوگ اگر اس کو سن لیں گے تو ہم کو دکھ پہنچائیں گے اور ناگوار باتیں سنائیں گے۔ حضرت عباس نے ظاہر نہ کرنے کا وعدہ کرلیا۔ عاتکہ نے کہا : میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار آیا اور وادی کے اوپر پہنچ کر بہت زیادہ چیخ کر تین مرتبہ کہا : اے غدارو ! اپنی قتل گاہوں کی طرف تین دن کے اندر نکلو۔ لوگ اس کے پاس جمع ہوگئے۔ وہاں سے وہ مسجد میں آیا ‘ لوگ پیچھے پیچھے آئے اور مسجد میں پہنچ کر اس کا اونٹ سیدھا کھڑا ہوگیا اور کعبہ کے اوپر پہنچ کر اس نے تین چیخیں ماریں اور کہا : اے غدارو ! تین دن کے اندر اپنی قتل گاہوں کی طرف نکلو۔ پھر (وہاں سے چل دیا اور) کوہ ابو قبیس پر پہنچ کر اس نے وہی کہا کہ اے غدارو ! اپنی قتل گاہوں کی طرف تین دن کے اندر نکلو۔ اس کے بعد اس نے ایک بہت بڑا پتھر اکھاڑ کر نیچے کو لڑکھایا ‘ پتھر لڑکھتا ہوا آیا جس کی گڑگڑاہٹ شدید تھی۔ نیچے پہنچ کر پارہ پارہ ہوگیا اور آپ کی قوم کے ہر گھر میں اس کا ٹکڑا (اڑ کر) جا پہنچا۔ آپ کی قوم کا کوئی گھر اور کوئی کوٹھڑی ایسی نہیں بچی کہ اس میں پتھر کا ٹکڑا نہ پہنچا ہو۔ حضرت عباس نے کہا : وا اللہ ! یہ خواب ہی ہے (تخیل نہیں ہے) اس کو پوشیدہ رکھنا اگر قریش کو اس کی اطلاع پہنچ گئی تو وہ ہم کو دکھ دیں گے۔ اس کے بعد حضرت عباس ‘ عاتکہ کے پاس سے چلے آئے اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدالشمس سے ملاقات کی اور چونکہ ولید ‘ حضرت عباس کا دوست تھا ‘ اسلئے حضرت عباس نے اس سے اس خواب کا ذکر کردیا لیکن چھپائے رکھنے کی تاکید کردی۔ ولید نے اپنے باپ عتبہ سے اس کا ذکر کردیا اور عتبہ نے اس کا چرچا کردیا۔ اس طرح بات مکہ میں پھیل گئی اور قریش آپس میں اس کا چرچا کرنے لگے۔ حضرت عباس کا بیان ہے : صبح کو میں کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ ابوجہل بن ہشام قریش کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا وہاں عاتکہ کے خواب کا تذکرہ کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا : ابو الفضل ! طواف سے فارغ ہو کر ہماری طرف آجانا۔ میں فارغ ہو کر وہاں پہنچ کر ان لوگوں کے پاس بیٹھ گیا۔ ابوجہل بولا : اے اولاد عبدالمطلب ! یہ نبیہ تم میں کب سے پیدا ہوگئی ؟ میں نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ اس نے کہا : عاتکہ کا خواب۔ میں نے کہا : عاتکہ کا خواب کیا ہے ؟ ابوجہل بولا : اے اولاد عبدالمطلب ! تم کو اسی پر بس نہیں ہوا کہ تمہارے مرد نبی بن گئے ‘ اب تمہاری عورتیں بھی نبیہ ہونے لگیں۔ ابن عقبہ کی روایت میں ابوجہل کے یہ الفاظ آئے ہیں : اے بنی ہاشم ! تم فقط اپنے مردوں کے جھوٹ بولنے سے خوش نہ تھے کہ اب تم عورتوں کی دروغ بافی بھی پیش کرنے لگے۔ ہم اور تمہارے اسلاف ریس کے دو گھوڑوں کی طرح تھے (مقابلہ پر دوڑ رہے تھے) جو کوشش کرنے والا تھا ‘ آگے نکل رہا تھا۔ جب دونوں فریق ایک جیسے رہے تو اب تم نے کہا : ہم میں ایک نبی ہے اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اب تم کہنے لگے ہم میں سے ایک نبیہ بھی ہے۔ قریش کے اندر کوئی گھرانا مجھے ایسا معلوم نہیں ‘ نہ مرد نہ عورت کہ تم سے زیادہ جھوٹا ہو۔ ابوجہل نے اس طرح حضرت عباس کو سخت دکھ پہنچایا اور بولا : عاتکہ کہتی ہے کہ میں نے خواب میں ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ تین دن کے اندر نکلو۔ ہم بھی تین دن کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر عاتکہ کا قول صحیح ہے تو ایسا ہوجائے گا اور اگر تین دن گذر گئے اور ایسی کوئی بات نہ ہوئی تو ہم لکھ کر لگا دیں گے کہ تمہارا خاندان عرب میں سب سے بڑھ کر جھوٹا ہے۔ حضرت عباس کا بیان ہے کہ اس کو جواب دینے کیلئے میرے پاس بہت کچھ تھا مگر میں نے کچھ نہیں کہا اور عاتکہ کے خواب دیکھنے کا انکار کردیا۔ ابن عقبہ کی روایت میں آیا ہے کہ حضرت عباس نے ابوجہل کو یہ جواب دیا تھا : کیا اب تو باز رہے گا (یا نہیں) جھوٹ تیرے اور تیرے خاندان والوں کے اندر ہے۔ حاضرین نے کہا : ابوالفضل ! تم تو جاہل اور ایسے بیوقوف و احمق نہ تھے۔ ابن عابد کی روایت بھی اسی طرح ہے ‘ بلکہ اس میں ایک گالی کا ذکر مزید آیا ہے۔ حضرت عباس کو اس خبر کے افشا کرنے سے بڑا دکھ پہنچا۔ حضرت عباس کا بیان ہے : شام ہوئی تو خاندان عبدالمطلب کی کوئی عورت ایسی نہ بچی جس نے مجھ سے آکر یہ نہ کہا ہو کہ آپ نے خود موقع دیا کہ اس خبیث فاسق نے پہلے آپ کے مردوں کی بوٹیاں نوچیں ‘ پھر آپ لوگوں کی عورتوں پر بھی نکتہ چینی کی۔ تم سنتے رہے ‘ تمہارے پاس اس کی بات سے بڑھ کر کوئی چیز جواب دینے کیلئے ہی نہیں تھی۔ میں نے کہا : خدا کی قسم ! مجھ سے یہ حرکت ہوگئی۔ جو الفاظ میں نے اس سے سنے ‘ اس سے بڑھ کر میری طرف سے اس کیلئے کچھ نہیں تھا لیکن اب میں اس کے درپے رہوں گا ‘ اگر دوبارہ اس نے کچھ کیا تو میں تمہاری طرف سے اس سے بھگتنے کیلئے کافی ہوں۔ اس کے بعد میں مسجد میں آیا اور اس کو وہاں دیکھا اور خدا کی قسم ! قصداً اس کی طرف جانے لگا تاکہ جو کچھ وہ کہہ چکا ہے ‘ دوبارہ کہے اور میں اس سے لپٹ جاؤں۔ ابوجہل تھا بڑا چالاک ‘ چست ‘ قوی ‘ تیز زبان ‘ تیزنظر (مجھے دیکھ کر) فوراً دوڑتا ہوا مسجد کے دروازہ سے نکل گیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا : اس پر اللہ کی لعنت ‘ یہ حرکت اس نے اس ڈر سے کی کہ میں بھی اس کو گالیاں دوں گا۔ بات واقع میں یہ ہوئی کہ مجھے تو سنائی نہ دی مگر اس نے ضمضم بن عمرو کی آواز سن لی ‘ ضمضم اپنے اونٹ پر کھڑا وادی کے اندر چیخ رہا تھا۔ اس نے اونٹ کے کان کاٹ دئیے تھے ‘ کجاوہ کا رخ الٹ کر رکھ دیا تھا ‘ اپنا کرتہ چاک کردیا تھا اور کہہ رہا تھا : اے گروہ قریش ! اے خاندان لوی بن غالب ! اپنے لدے ہوئے اونٹوں کی خبر لو۔ تمہارے مال ابوسفیان کے ساتھ ہیں ‘ محمد اور ان کے ساتھی ان کو لوٹنے کے درپے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تم ان کو پا نہیں سکتے ‘ دہائی ہے دہائی۔ خدا کی قسم ! میرا خیال ہے کہ تم ان کو نہ پہنچ پاؤ گے۔ یہ سن کر قریش خوف زدہ ہوگئے اور عاتکہ کے خواب سے ڈر گئے۔ حضرت عباس کا بیان ہے : اس آواز نے ابوجہل کیلئے میری طرف متوجہ ہونے کا موقع نہیں چھوڑا اور میں اس کی طرف سے رک گیا۔ اس پر عاتکہ نے یہ شعر کہے : کیا خواب سچا نہ تھا ‘ اس کی تصدیق لے کر تو تمہارے پاس ایک بھاگا ہوا شکست خوردہ آدمی آگیا۔ میں نے جھوٹ نہیں کہا ‘ تو نے مجھے جھوٹا کہا۔ جو خود جھوٹا ہے ‘ وہ میری اس سچی بات کو جھوٹا کہتا ہے۔ لوگوں نے جلد جلد تیاری کی اور کہا : محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ ابن حضرمی کے قافلہ کی طرح ہوگا ‘ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ خدا کی قسم ! ان کو کچھ اور ہی نتیجہ معلوم ہوگا۔ غرض لوگ یا تو خود جانے کیلئے نکل کھڑے ہوئے ‘ یا اپنی جگہ کسی کو بھیج دیا اور دو یا تین دن میں تیاری کرلی۔ جو طاقتور تھے ‘ انہوں نے کمزوروں کی مدد کی۔ اگر کسی کا مسلمان ہوجانا قریش کو معلوم تھا ‘ یا محمد ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے دوست ہونے کا کسی پر شبہ تھا ‘ یا خاندان بنی ہاشم کا کوئی فرد تھا ‘ ایسے سب لوگوں کو انہوں نے ساتھ لیا۔ چناچہ عباس بن عبدالمطلب ‘ نوفل بن حارث ‘ طالب بن ابی طالب ‘ عقیل بن ابی طالب اور ان کے ساتھ دوسرے لوگ روانہ ہوگئے۔ ابولہب صرف ایسا شخص تھا جو نہ خود گیا ‘ نہ اپنی جگہ کسی کو بھیجا ورنہ ہر قریشی کو یا خود جانا پڑا یا اپنی جگہ دوسرے کو بھیجنا پڑا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ابولہب نے بھی اپنی جگہ عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا۔ حضرت عاص آخر میں مسلمان ہوگئے تھے۔ حضرت عاص پر ابولہب کا چار ہزار درہم کا سودی قرض تھا ‘ اس رقم کو مزدوری میں منہا کرنے کی شرط پر ابولہب نے اپنی جگہ اس کو بھیج دیا اور اسکے مصارف کی کفالت کی۔ ابولہب کے نہ جانے کی وجہ صرف عاتکہ کا خواب تھا ‘ وہ کہتا تھا : عاتکہ کے خواب نے ہاتھ باندھ دئیے۔ امیہ بن خلف ‘ عتبہ بن شیبہ ‘ زمعہ بن اسود ‘ عمیر بن وہب اور حکیم بن حزام وغیرہ نے ہبل بت کے پاس جا کر تیروں سے فال نکالی ‘ فال میں ممانعت کا تیر نکلا جس کی وجہ سے ان لوگوں نے نہ جانے کا پختہ ارادہ کرلیا مگر ابوجہل نے مجبور کر کے ان کی رائے بدل دی۔ امیہ بن خلف بہت بھاری بدن کا موٹا بوڑھا آدمی تھا ‘ جب اس نے نہ جانے کا ارادہ کرلیا تو عتبہ بن ابی معیط کے پاس گیا ‘ عتبہ اپنی قوم کے حلقہ میں مسجد کے اندر بیٹھا ہوا تھا۔ انگیٹھی سب کے سامنے سلگ رہی تھی ‘ انگیٹھی لا کر امیہ کے سامنے رکھ دی گئی ‘ پھر عتبہ نے امیہ سے کہا : ابوعلی ! تم تو عورت ہو (بھاری بھرکم بدن ہے جس کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوسکتے) امیہ نے کہا : اللہ تیرا برا کرے ‘ تو نے بری بات کہی۔ اس کے بعد یہ بھی تیاری کر کے لوگوں کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ ابن اسحاق وغیرہ نے لکھا ہے : جب لوگ تیاری کرچکے اور روانگی کا ارادہ کرلیا اور جو اچھی بری سواریاں تھیں ‘ ان پر سوار ہوگئے اور گانے والی باندیوں کو اور ان کے تنبلوں کو بھی ساتھ لے لیا تو اس وقت سوچا کہ ہمارے اور بنی بکر بن عبدمناۃ بن کنانہ کے درمیان تو خوں ریز جنگ ہے ‘ طرفین ہے ‘ باہم قصاص کے مطالبات ہیں۔ اندیشہ ہے کہ اگر ہم گئے تو ہمارے پیچھے (ہمارے گھروں پر) وہ حملہ نہ کردیں۔ قریب تھا کہ یہ خیال کر کے وہ جانا ملتوی کردیں مگر ابلیس مردود سراقہ بن مالک کنانی کی شکل میں ان کے سامنے آگیا۔ سراقہ ‘ بنی کنانہ کے سرداروں میں سے تھا اور کہنے لگا : میں تمہارا ذمہ دار ہوں ‘ بنی کنانہ کی طرف سے تمہارے پیچھے کوئی ناگوار حرکت سرزد نہ ہوگی۔ اس ضمانت کے بعد نو سو پچاس سپاہیوں کی جماعت روانگی کیلئے نکل کھڑی ہوئی۔ بعض روایات میں ہزار کی تعداد آئی ہے۔ اس کے ساتھ دو سو گھوڑے اور چھ سو زرہیں تھیں۔ قریش کا ہر خاندان روانہ ہوگیا ‘ صرف بنی عدی کے خاندان میں سے کوئی شخص شریک نہیں ہوا اور کوئی نہیں گیا۔ ابن عقبہ اور ابن عابد کا بیان ہے کہ ابلیس بھی مشرکوں کے ساتھ نکلا اور وعدہ دلاتا رہا کہ تمہارے پیچھے بنی کنانہ بھی تمہاری مدد کیلئے آنے والے ہیں اور میں ضامن ہوں کہ آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ تمام لوگ روانہ ہو کر مقام مرالظہران میں فروکش ہوئے۔ ابوجہل نے دس اونٹ ذبح کئے اور لشکرگاہ میں کوئی ڈیرہ خیمہ ایسا نہ بچا کہ وہاں تک اونٹوں کا خون نہ پہنچا ہو۔ ضمضم بن عمرو کو دکھائی دیا کہ وادی مکہ میں اوپر سے نیچے تک خون ہی خون بہہ رہا ہے۔ عسیف میں پہنچ کر امیہ بن خلف نے نو اونٹ ذبح کئے۔ قدید میں پہنچے تو سہیل بن عمرو نے دس اونٹ ذبح کئے ‘ سہیل آخر میں مسلمان ہوگئے تھے۔ قدید سے روانہ ہو کر سمندر کی جانب مختلف چشموں پر ان کا قیام ہوا اور عقبہ بن ابی معیط نے دس اونٹ ذبح کئے ‘ پھر صبح کو ابواء میں پہنچے تو حجاج کے دونوں بیٹوں بنیہ اور منیہ نے دس ‘ دس اونٹ ذبح کئے۔ اس کے بعد لوگوں نے اپنا اپنا کھانا خود کھانا شروع کیا (اور مہمانی کا کھانا ختم کردیا گیا) جحفہ میں عشاء کو پہنچے اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا۔ بیہقی نے ابن شہاب اور ابن عقبہ اور عروہ بن زبیر کی روایت سے لکھا ہے کہ جب سب لوگ جحفہ میں فروکش ہوئے تو ان کے ساتھ بنی مطلب بن مناۃ کے خاندان کا ایک شخص بھی تھا جس کا نام جہیم بن صلت بن مخزمہ تھا ‘ یہ شخص آخر میں حنین کی جنگ کے وقت مسلمان ہوگیا تھا۔ یہ شخص کچھ نیم خوابی کی حالت میں سر رکھے ہوئے تھا ‘ یعنی کچھ کچھ غافل تھا کہ اچانک اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا : کیا تم نے اس سوار کو دیکھا جو ابھی ابھی میرے پاس کھڑا تھا۔ لوگوں نے کہا : تو پاگل ہے ‘ کوئی بھی نہ تھا۔ جہیم نے کہا : ابھی ایک سوار کھڑا تھا اور کہہ رہا تھا : ابوجہل اور عتبہ بن ربیعہ اور شبیہ اور زمعہ اور ابو البختری اور امیہ بن خلف مارے گئے۔ جہیم نے کچھ اور سرداران قریش کے بھی نام لئے تھے جو بدر میں مارے گئے۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس نے اپنے اونٹ کے سینہ پر تلوار ماری اور زخمی کر کے لشکر میں چھوڑ دیا اور لشکرگاہ میں کوئی ڈیرہ ایسا نہیں بچا کہ اس اونٹ کا خون وہاں نہ پہنچا ہو۔ جہیم کے ساتھ بولے : تو شیطان کا بازیچہ بن گیا۔ یہ بات ابوجہل تک بھی پہنچا دی گئی ‘ ابوجہل بولا : پہلے تو بنی ہاشم کے جھوٹ سے تمہارا واسطہ پڑا تھا ‘ اب بنی مطلب کے جھوٹ میں بھی مبتلا ہوگئے۔ دوسری جانب رسول اللہ ﷺ نے اپنی جگہ نماز کیلئے ابن اُمّ مکتوم کو قائم کیا اور مدینہ سے روانہ ہوگئے ‘ پھر مقام روحاء سے ابولبابہ کو واپس کردیا اور مدینہ پر اپنا نائب ان کو بنا دیا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ 12؍رمضان المبارک کو ہفتہ کے دن مدینہ سے روانہ ہوئے تھے۔ ابن ہشام نے 8؍رمضان بیان کیا ہے۔ مدینہ سے ایک میل نکل کر چاہ ابوعتبہ پر پہنچ کر لشکر قائم کیا اور جو لوگ کم عمر تھے ‘ ان کو واپس کردیا۔ واپس ہونے والوں میں عبد اللہ بن عمر ‘ اسامہ بن زید ‘ رافع بن خدیج ‘ براء بن عازب ‘ اسید بن حضیر ‘ زید بن ارقم ‘ زید بن ثابت اور عمیر بن ابی وقاص تھے۔ عمیر رونے لگے ‘ آخر حضور ﷺ نے ان کو شریک رہنے کی اجازت دے دی اور بدر کی لڑائی میں سولہ سال کی عمر میں آپ شہید ہوگئے۔ حضور ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ چاہ سقیا کا پانی پئیں اور خود بھی اس کنویں کا پانی پیا اور سقیا کے گھروں کے پاس نماز پڑھی اور سقیا سے روانگی کے وقت قیس بن ابی صعصعہ کو مسلمانوں کی گنتی کرنے کا حکم دیا۔ قیس نے سب لوگوں کو ابوعتبہ کے کنویں کے پاس کھڑا کر کے گنتی کی اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کردیا کہ یہ سب 313 ہیں۔ حضور ﷺ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا : طالوت کے ساتھیوں کی بھی یہی شمار تھی۔ اس روز حضور ﷺ نے مدینہ کیلئے دعا کی اور عرض کیا : اے اللہ ! ابراہیم تیرا بندہ ‘ تیرا خلیل اور تیرا نبی تھا ‘ اس نے مکہ والوں کیلئے دعا کی تھی۔ میں محمد بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ‘ میں مدینہ والوں کیلئے تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو ان کے صاع (چار سیر کا ایک ناپ) اور ان کے مد (ایک سیر کے برابر ناپ) اور ان کے پھلوں میں برکت عطا فرما (یعنی ان کی کھیتی باڑی اور باغوں کی پیداوار میں برکت عطا کر) اے اللہ ! تو مدینہ کی محبت ہم کو عطا کر اور مدینہ کے آب و ہوا کی خرابی (بخار ‘ ملیریا وغیرہ) کو خم میں منتقل کر دے۔ جس طرح تیرے خلیل ابراہیم نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا ‘ میں بھی مدینہ کی دونوں سوختہ ‘ پتھریلی زمینوں کے درمیانی علاقہ کو حرم قرار دیتا ہوں (مدینہ کے دونوں جانب پتھریلی ‘ گرم تپتی ہوئی زمین ہے ‘ مدینہ دونوں کے درمیان واقع ہے) حبیب بن اساف اگرچہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر مال غنیمت کے لالچ میں اپنے قبیلہ خزرج کی مدد کیلئے چلے آئے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ہمارے ساتھ وہی جائے جو مسلمان ہو ‘ کوئی غیرمسلم نہ جائے۔ یہ سن کر حضرت حبیب مسلمان ہوگئے اور کسوٹی پر بہت اچھے اترے ‘ آپ نے اچھے کارنامے انجام دئیے۔ سقیا کی آبادی سے اتوار کی رات کو روانہ ہوئے اور روانگی کے وقت دعا کی : اے اللہ ! یہ برہنہ پا ہیں ‘ ان کو سواری عطا کر۔ یہ برہنہ بدن ہیں ‘ ان کو لباس عنایت کر۔ یہ بھوکے ‘ ہیں ان کو پیٹ بھر کھانا مرحمت کر۔ یہ نادار ہیں ‘ ان کو اپنی مہربانی سے مالدار بنا دے۔ کل ستر اونٹ ساتھ تھے ‘ باری باری سے لوگ انہی پر سوار ہوتے رہے۔ امام احمد اور ابن سعد نے حضرت ابن مسعود کا بیان نقل کیا ہے : ہم بدر کے زمانہ میں تین آدمی ایک ایک اونٹ پر تھے۔ ابو لبابہ اور حضرت علی ‘ رسول اللہ ﷺ کے ہم سواری تھے ‘ دونوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ سوار ہوجائیں ‘ ہم پیدل چلیں گے۔ فرمایا : تم پیدل چلنے پر مجھ سے زیادہ قوت نہیں رکھتے اور میں ثواب کا امیدوار تم سے کم نہیں ہوں۔ صاحب البدایہ والعیون کا بیان ہے کہ ابولبابہ کے ہم رکاب ہونے کا واقعہ اس وقت کا تھا جب روحاء سے مدینہ کو ان کو واپس نہیں بھیجا گیا تھا ‘ روحاء سے روانگی کے بعد تو رسول اللہ ﷺ کے ہم سواری حضرت علی اور حضرت زید تھے۔ اس لشکر کے پاس صرف دو گھوڑے تھے ‘ ایک گھوڑا مقداد بن اسود کا اور ایک گھوڑا زبیر بن عوام کا۔ ابن سعد کی روایت میں آیا ہے کہ تین گھوڑے ساتھ تھے ‘ تیسرا گھوڑا مرثد بن ابی مرثد غنوی کا تھا۔ مقام تربان میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے فرمایا ہرن کو دیکھو۔ سعد نے تیر چلہ پر چڑھایا اور رسول اللہ ﷺ نے پیچھے سے کھڑے ہو کر اپنی ٹھوڑی حضرت سعد کے مونڈھے اور کان کے درمیان رکھی اور فرمایا : تیر چلا۔ اے اللہ ! اس کے تیر کو نشانہ پر صحیح بٹھا دے۔ چناچہ تیر ہرن کے سینہ پر لگ گیا۔ حضور ﷺ مسکرا دئیے۔ حضرت سعد دوڑتے ہوئے گئے اور ہرن کو پکڑ لیا۔ کچھ جان باقی تھی ‘ حضرت سعد ذبح کر کے اس کو اٹھا کرلے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ساتھیوں کو بانٹ دینے کا حکم دیا ‘ چناچہ وہ گوشت سب کو تقسیم کردیا گیا۔ پھر چلتے چلتے مقام ذوسنجسج پر جا کر اترے ‘ یہ مقام بھی روحاء کے درمیان ہی واقع تھا ‘ پھر یہاں سے کوچ کر کے موڑ پر پہنچ کر مکہ کا راستہ بائیں کو چھوڑ دیا اور دائیں ہاتھ کو نازیہ پر بدر کے ارادہ سے چل دئیے۔ نازیہ کے کنارے کنارے چل کر وادی زحفان کو طے کیا۔ وادی زحفان ‘ نازیہ اور مقام السفراء کے درمیان تھی ‘ پھر مضیق السفراء پر پہنچے اور وہاں سے نشیب میں چل دئیے۔ جب صفراء کے قریب پہنچے تو ابوسفیان کی خبر معلوم کرنے کیلئے بسیس بن عمر جہنی کو اور عدی بن زغباء کو بدر کی طرف روانہ کیا۔ بسیس ‘ بنی ساعدہ کے معاہد تھے اور عدی ‘ بنی نجار کے حلیف تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ صفراء سے بائیں ہاتھ کو چل کر وادی ذفران کے دائیں جانب چلتے رہے اور وادی کے اندر کچھ حصہ طے کر کے پڑاؤ ڈالا تو اطلاع ملی کہ قریش اپنے قافلہ کی حفاظت کیلئے روانہ ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے مشورہ لیا (کہ اب کیا کیا جائے ؟ ) مہاجرین نے بطور مشورہ کچھ اچھا کلام کیا۔ اوّل حضرت ابوبکر کھڑے ہو کر اچھا بولے ‘ پھر حضرت عمر نے بھی کھڑے ہو کر اچھی گفتگو کی ‘ پھر حضرت مقداد بن اسود کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ نے آپ کو جو حکم دیا ہے ‘ آپ اس پر چلئے ‘ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ خدا کی قسم ! ہم وہ بات نہیں کہیں گے جو حضرت موسیٰ کی قوم نے حضرت موسیٰ سے کہی تھی کہ تم اور تمہارا رب جا کر لڑیں ‘ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں (آگے نہیں بڑھیں گے) آپ اور آپ کا رب چل کر لڑیں۔ ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہیں ‘ آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہو کر دشمنوں سے لڑیں گے۔ قسم ہے اس خدا کی جس نے آپ کو حقانیت کے ساتھ بھیجا ہے ! اگر آپ ہم کو برک الغماد کو لے جائیں تو آپ کی ہمراہی میں ہم وہاں بھی تلواروں سے اس وقت تک لڑیں گے جب تک وہاں پہنچ نہ جائیں۔ یہ سن کر آپ کا چہرۂ مبارک شگفتہ ہوگیا۔ پھر حضرت مقداد کے حق میں کچھ کلمات خیر فرمائے اور دعا کی۔ اس کے بعد تیسری بار لوگوں سے مشورہ لیا۔ اب انصار سمجھے کہ روئے خطاب ہماری طرف ہے کیونکہ انہی کی تعداد زیادہ تھی ‘ اس پر حضرت سعد بن معاذ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور کا خطاب ہم سے ہے۔ فرمایا : ہاں۔ حضرت سعد نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم آپ پر ایمان لا چکے ‘ آپ کو سچا مان چکے۔ ہم نے اقرار کرلیا کہ جو کچھ آپ لائے ہیں ‘ وہ حق ہے۔ ہم نے آپ سے مضبوط وعدہ کرلیا اور عہد و پیمان دے دیا کہ جو کچھ آپ حکم دیں گے ‘ ہم سنیں گے اور بجا لائیں گے۔ اب جو کچھ آپ چاہیں ‘ وہ کریں۔ یا رسول اللہ ﷺ ! شاید آپ کو یہ اندیشہ ہو کہ انصار صرف اپنی بستیوں میں ہی آپ کی مدد کریں گے (باہر نکل کر نہیں کریں گے) تو میں انصار کی طرف سے عرض کرتا ہوں اور جواب دیتا ہوں کہ آپ جہاں چاہیں ‘ سفر کریں ‘ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ جس سے جوڑ کرنا چاہیں ‘ جوڑ کریں اور جس سے توڑنا چاہیں ‘ تعلق توڑیں۔ ہمارے مالوں میں سے جتنا چاہیں ‘ لے لیں اور جتنا چاہیں ‘ ہم کو دے دیں۔ آپ جو مال ہمارے پاس چھوڑ دیں گے ‘ وہ ہماری نظر میں لئے ہوئے مال سے زیادہ محبوب نہ ہوگا۔ آپ جو حکم دینا چاہیں دیں ‘ ہم آپ کے حکم پر چلیں گے۔ خدا کی قسم ! اگر آپ ہم کو لے کر برک غمدان یا برک الغماد پہنچنا چاہیں گے تو ہم آپ کے ساتھ چلیں گے اور اگر سمندر ہمارے سامنے ہوگا تو آپ کے ساتھ اس میں بھی گھس جائیں گے اور ہم میں سے کوئی شخص پیچھے نہیں رہے گا۔ اگر کل دشمن سے مقابلہ ہوجائے تو ہم کو ناگوار نہ ہوگا۔ ہم لڑائی میں تجربہ کار ہیں ‘ امید ہے کہ ہماری (جنگی) کارگذاریوں سے اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ ایک کام کیلئے نکلے ہوں اور اللہ دوسری بات پیدا کر دے۔ پس اللہ کا نام لے کر ہم کو لے کر چلئے ‘ ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے رہیں گے اور حضرت موسیٰ کی قوم کی طرح نہ ہوں گے جنہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جائیں اور جا کر لڑیں ‘ ہم تو یہاں سے آگے بڑھنے والے نہیں ‘ بلکہ آپ اور آپ کا رب چلیں اور دشمن سے لڑیں ‘ ہم آپ کے ساتھ ہیں ‘ ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ حضرت سعد کی یہ تقریر سن کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ چمکنے لگا اور فرمایا : اللہ کے نام پر چلو اور خوش ہو ‘ اللہ نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں اس وقت بھی گویا ان لوگوں کی قتل گاہوں کو دیکھ رہا ہوں (کہ ان میں سے کون کس جگہ مارا جائے گا) ۔ بعض مسلمانوں کو دشمن سے مڈبھیڑ پسند نہ تھی۔ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَاور بلاشبہ مسلمانوں کا ایک گروہ ناپسند کرتا تھا۔ بیضاوی نے لکھا ہے : واؤ حالیہ ہے اور پورا جملہ اَخْرَجَکَ کے کاف سے حال ہے ‘ یعنی جس حالت میں کہ مسلمانوں کے ایک فریق کو ناپسند تھا کہ اللہ نے تم کو مدینہ سے نکالا۔
Top