Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
(لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے (اور) مہربان ہیں
لقد جاء کم رسول من انفسکم (اے لوگو ! ) تمہارے پاس ایک عظیم الشان رسول آیا ہے جو تمہاری جنس (بشر) سے ہے۔ مِّنْ اَنْفُسِکُمْکا مطلب یہ ہے کہ تمہاری ہی جنس سے ہیں ‘ اسمٰعیلی نسل سے ہیں ‘ تم ان کے حسب نسب کو جانتے ہو۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : عرب کے ہر قبیلہ سے رسول اللہ ﷺ کا نسبی تعلق تھا۔ امام جعفر صادق نے فرمایا : حضرت آدم سے لے کر آخری دور تک رسول اللہ ﷺ (کے سارے آباؤ اجداد) جاہلیت کے نکاح کے طریقوں سے پاک رہے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں جاہلیت کے طریق زناء سے نہیں پیدا ہوا ‘ بلکہ اسی نکاح کے ذریعے سے پیدا ہوا جیسا اسلامی نکاح ہوتا ہے۔ (1) [ جاہلیت کے نکاح کے مختلف طریقے ہوتے تھے۔ طلعت حرب نے دول العرب والسلام میں دور جاہلیت کے نکاح کے بیان میں ان کو مفصل لکھا ہے۔ ایک طریقہ تو یہی تھا جو اسلام میں رائج تھا ‘ دوسرا طریقہ نکاح سفاع کا تھا ‘ تیسرا طریقہ نکاح بغایا کا تھا۔ یہ بھی دستور تھا کہ سوتیلا بڑا بیٹا اپنی سوتیلی بیوہ ماں پر چادر ڈال دیتا تھا یا اپنے کسی چھوٹے بھائی کے حق میں دستبردار ہوجاتا تھا۔ اس کو بھی ازواج کا ایک طریقہ مانا جاتا تھا۔] عزیز علیہ ما عنتم جس کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے۔ مَا عَنِتُّمْمیں مَا زائد ہے (مصدر کے معنی میں ہے) یعنی تمہارا دشواری اور دکھ میں پڑجانا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : تمہارا گمراہ ہوجانا۔ قتیبی نے کہا : وہ چیز رسول پر شاق ہے جو تم کو دشواری میں ڈال دے اور تم کو دکھ پہنچائے۔ اس صورت میں مَا موصولہ ہوگا۔ حریص علیکم وہ تم پر (یعنی تمہارے مؤمن ہوجانے اور تمہارے احوال کے ٹھیک ہوجانے کے) بڑے حریص (خواہشمند) ہیں۔ بالمؤمنین رء وف رحیم۔ (بالخصوص) ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ رافت کا معنی ہے رحمت کی زیادتی۔ اس صورت میں رحیمٌسے رَءُوْفٌ کی تقدیم محض مقطع آیت کی رعایت کی وجہ سے ہوگی۔ بعض کے نزدیک یہ مطلب ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمانبرداروں کیلئے رَءُوْفٌاور گناہگاروں کیلئے رحیم ہیں۔
Top