Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 3
وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ١ۙ۬ وَ رَسُوْلُهٗ١ؕ فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ١ؕ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ
وَاَذَانٌ
: اور اعلان
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ سے
وَرَسُوْلِهٖٓ
: اور اس کا رسول
اِلَى
: طرف (لیے)
النَّاسِ
: لوگ
يَوْمَ
: دن
الْحَجِّ الْاَكْبَرِ
: حج اکبر
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
بَرِيْٓءٌ
: قطع تعلق
مِّنَ
: سے
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرک (جمع)
وَرَسُوْلُهٗ
: اور اس کا رسول
فَاِنْ
: پس اگر
تُبْتُمْ
: تم توبہ کرو
فَهُوَ
: تو یہ
خَيْرٌ لَّكُمْ
: تمارے لیے بہتر
وَاِنْ
: اور اگر
تَوَلَّيْتُمْ
: تم نے منہ پھیرلیا
فَاعْلَمُوْٓا
: تو جان لو
اَنَّكُمْ
: کہ تم
غَيْرُ
: نہ
مُعْجِزِي اللّٰهِ
: عاجز کرنے والے اللہ
وَبَشِّرِ
: خوشخبری دو ( آگاہ کردو)
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
كَفَرُوْا
: انہوں نے کفر کیا
بِعَذَابٍ
: عذاب سے
اَلِيْمٍ
: دردناک
اور حج اکبر کے دن خدا اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ خدا مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی (ان سے دستبردار ہے) ۔ پس اگر تم توبہ کرلو تو تمھارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر نہ مانو (اور خدا سے مقابلہ کرو) تو جان رکھو کہ تم خدا کو ہرا نہیں سکو گے اور (اے پیغمبر) کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا دو
و اذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر (1)[ حسن سے یوم الحج الاکبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا : اس سال تھا جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اپنی جگہ حج کا قائد بنا کر بھیجا تھا اور حضرت ابوبکر نے سب کو حج کرایا تھا۔ حج کرنے والوں میں مسلمان بھی تھے اور مشرک بھی ‘ اسلئے اس کا نام بڑا حج رکھا گیا۔ یہ دن یہودیوں اور عیسائیوں کی عید کے دن کے مطابق پڑگیا تھا۔] اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑے حج کی تاریخوں میں عام لوگوں کے سامنے اعلان (کیا جاتا) ہے۔ اذان کا معنی ہے اعلان۔ وزن فعال بمعنی افعال آتا ہے ‘ جیسے امان بمعنی ایمان اور عطاء بمعنی اعطا۔ نماز کی بانگ کو اذان بھی اسی مناسبت سے کہا جاتا ہے۔ محاورہ میں بولا جاتا ہے : اٰذَنْتُہُ ‘ فَاَذِنَ میں نے اس کو اطلاع دے دی تو اس کو علم ہوگیا۔ اصل میں یہ لفظ اذن سے بنا ہے ‘ یعنی میں نے اس کے کان میں ڈال دی۔ اذان ترکیب عبارت کے لحاظ سے براءۃ کی طرح ہے۔ بغوی نے بروایت عکرمہ بیان کیا کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : یوم الحج الاکبر ‘ یوم عرفہ ہے۔ حضرت عمر ‘ حضرت عبد اللہ بن عمر ‘ حضرت عبد اللہ بن زبیر کی طرف بھی بغوی نے اس قول کی نسبت کی ہے۔ (2) [ شعبی کی روایت ہے کہ حضرت ابوذر اور حضرت زبیر میں سے کسی نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ‘ آپ منبر پر جمعہ کے دن یہ آیت پڑھ رہے تھے تو ایک نے دوسرے سے پوچھا تھا : یہ آیت کب نازل ہوئی ؟ نماز ختم ہونے کے بعد حضرت عمر نے فرمایا : تمہارا جمعہ نہیں ہوا۔ معاملہ کا رجوع ] عطاء ‘ طاؤس ‘ مجاہد اور سعید بن مسیب کا بھی یہی قول ہے۔ میں کہتا ہوں : اس تفسیر کا مدار رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان پر ہے کہ حج عرفہ ہے۔ اخرجہ احمد و ابو داؤد والترمذی والنسائی وابن حبان والحاکم والدارقطنی والبیہقی من حدیث عبدالرحمن بن معمر۔ ابن ابی حاتم نے حضرت مسور بن مخرمہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عرفہ کا دن حج اکبر کا دن ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ علماء کی ایک جماعت کا قول ہے : یوم الحج الاکبر سے مراد قربانی کا دن ہے۔ یحییٰ بن خزاز کا بیان ہے کہ حضرت علی سفید خچر پر سوار ہو کر قربانی کے دن جہانہ جانے کے ارادے سے برآمد ہوئے ‘ ایک آدمی نے آپ کی سواری کی لگام پکر کر یوم الحج الاکبر کے متعلق دریافت کیا۔ حضرت علی نے فرمایا : یہی دن ہے ‘ اب سواری کو چھوڑ دے۔ ترمذی نے لکھا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے یوم الحج الاکبر کے متعلق دریافت کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : قربانی کا دن۔ ابن جریر نے اس کی تائید میں حضرت ابن عمر کی روایت بھی نقل کی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایات سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ شعبی ‘ سعید بن جبیر اور سدی کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ حج وداع میں قربانی کے دن جمرات کے پاس کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ حج اکبر کا دن ہے۔ بغوی نے ابن جریج کی روایت سے بیان کیا ہے کہ مجاہد نے فرمایا : یوم الحج الاکبر حج کا پورا وقت ہے ‘ یعنی منٰی کے تمام ایام۔ سفیان ثوری بھی فرماتے تھے : یوم الحج الاکبر سے مرا داوقات حج اکبر ہیں ‘ یعنی منٰی کے تمام ایام جیسے یوم صفین ‘ یوم جمل ‘ یوم بعاث سے مراد (صرف ایک ایک دن نہیں بلکہ یوم سے مراد) وقت اور زمانہ ہے کیونکہ یہ لڑائیاں (صرف ایک دن میں ختم نہیں ہوگئیں بلکہ) چند روز تک قائم رہیں تھیں۔ عمرہ کو چونکہ چھوٹا حج کہا جاتا ہے ‘ اسلئے حج کے ساتھ اکبر کی صفت ذکر کردی (تاکہ عمرہ کا احتمال نہ رہے) زہری ‘ شعبی اور عطاء نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے۔ ان حضرات نے کہا : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن چار ماہ کا ذکر آیت میں ہے ‘ ان کا آغاز حج اکبر کے دن سے ہوا تھا۔ میں کہتا ہوں : آیت میں حج اکبر کے دن اعلان کئے جانے کا ذکر ہے ‘ اس اعلان کو چار مہینے کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا کہ آغاز کا دن یوم اعلان کو قرار دیا جاسکے (سیاحت کا اختیار چار مہینے تک دیا گیا ہے اور سیاحت کے آغاز اور انتہا کا کوئی دن نہیں بتایا گیا ‘ نہ مہینہ کی تعیین کی گئی ‘ نہ وقت کی) ۔ ان اللہ بری من المشرکین ورسولہ : (3) [ اس آیت میں وَرَسُوْلَہٗ لام کے جر کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے کہ ایک اعرابی ‘ حضرت عمر بن خطاب کے دور خلافت میں مدینہ میں آیا اور کہا : مجھے کوئی اللہ کا کلام پڑھا دے۔ محمد بن خطاب نے اس کو (سورت) برأت پڑھائی اور رسولہ کے لام کو زیر کے ساتھ پڑھا (جس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ مشرکوں سے اور اپنے رسول سے بری الذمی ہے) اعرابی بولا : جب اللہ اپنے رسول سے بری الذمہ ہے تو میں بھی اس سے بیزار ہوں جس سے اللہ بیزار ہے۔ یہ کہہ کر چل دیا۔ حضرت عمر نے اس کو بلوایا اور پوچھا : کیا اللہ کے رسول ﷺ سے اظہار بیزاری کر رہا ہے ؟ اعرابی نے کہا : امیر المؤمنین ! میں جب مدینہ میں آیا تو مجھے قرآن مجید سے کوئی واقفیت نہ تھی۔ میں نے خواہش کی کہ کوئی مجھے پڑھا دے۔ انہوں نے (یعنی محمد بن خطاب نے) مجھے سورت برأت پڑھائی اور اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْءٌٓ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلِہٖ پڑھا تو میں نے کہا : اللہ جس سے بری الزمہ ہے ‘ میں بھی بخدا ! اس سے بیزار ہوں۔ حضرت عمر نے یہ تقریر سن کر محمد بن خطاب کو حکم دیا کہ آئندہ صرف وہی شخص لوگوں کو (قرآن) پڑھائے جو زبان سے واقف ہو۔ اس کے بعد آپ نے ابو الاسود (دُؤَلی) کو حکم دیا اور انہوں نے فن نحو وضع کیا۔] کہ بیشک اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اللہ کا رسول ﷺ بھی۔ پہلا اعلان برأت صرف ان مشرکوں سے تھا جنہوں نے معاہدے کرنے کے بعد عہدشکنی کی تھی اور یہ اعلان برأت عام ہے۔ اس میں شکست معاہدہ کرنے والے کافروں سے بھی برأت کا اظہار کیا گیا ہے اور ان مشرکوں سے بھی جنہوں نے کوئی معاہدہ ہی نہیں کیا تھا ‘ اسی لئے الی الناس فرمایا۔ ہاں وہ مشرک اس اعلان برأت سے مستثنیٰ ہیں جنہوں نے معاہدہ کرنے کے بعد عہدشکنی نہیں کی ‘ ان کے متعلق فرمایا : فَاتِمُوْآ اِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْان کا معاہدہ پورا کرو۔ اور چونکہ اس آیت میں چار ماہ سیاحت کرنے کا کوئی حکم نہیں ‘ اسلئے یوم حج اکبر کو آغاز سیاحت کی تاریخ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ میں کہتا ہوں : آیت بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہِ اور اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْءٌٓ مِّنْ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلِہٗ کا نزول اگرچہ ان لوگوں کے حق میں ہوا جو غزوۂ تبوک کے زمانہ میں تھے ‘ ان میں سے کچھ لوگ تو وہ تھے جن کا مسلمانوں سے کوئی معاہدہ ہی نہ تھا اور کچھ وہ لوگ تھے جنہوں نے معاہدہ کرنے کے بعد شکست عہد کی تھی ‘ ان دونوں گروہوں سے اظہار برأت کردیا گیا اور چار ماہ تک چلنے پھرنے اور آزادی کے ساتھ بغیر خوف کے گھومنے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے ‘ مورد کی خصوصیت حکم کو خاص نہیں کردیتی ‘ لہٰذا مندرجۂ بالا دونوں فریقوں کیلئے جو سیاحت کی آزادی دی ہے اور قتال حرام کیا ہے ‘ یہ حکم ہر زمانہ میں قائم رہے گا ‘ اور چار مہینے لڑنا بھڑنا ناجائز قرار دیا جائے گا۔ اللہ نے فرمایا ہے : فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ الخ دوسری آیت میں مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۔ ایک شبہ : بعض لوگوں کا قول ہے کہ اشہر حرم (چار مہینے جن میں لڑنا حرام ہے) میں قتال بیشک بڑا جرم ہے مگر آیت قاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً سے اس حرمت کو منسوخ کردیا گیا۔ گویا اس آیت کا یہ مطلب ہوگیا کہ تمام مشرکوں سے لڑو ہر زمانہ میں ‘ خواہ غیر حرام مہینوں میں ہو یا اشہر حرم میں۔ یہ قول قتادہ ‘ عطاء خراسانی ‘ زہری اور سفیان ثوری کا ہے۔ ان حضرات کا استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین میں قبیلۂ ہوازن سے اور طائف میں قبیلۂ ثقیف سے جہاد کیا اور ان کا محاصرہ ماہ شوال کامل اور ذیعقدہ کے کچھ حصہ میں جاری رکھا۔ ہم کہتے ہیں : قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کو ناسخ قرار دینا غلط ہے بلکہ یہ آیت تو پوری آیت کا ایک جزء اور تکملہ ہے ‘ پوری آیت اس طرح ہے : اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتَاب اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا افِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ وَقَاتِلُوْا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً یہ پوری آیت ایک ہی وقت میں نازل ہوئی ‘ اسلئے اس کا کوئی جزء دوسرے جزء کا ناسخ نہیں ہوسکتا کیونکہ ناسخ کیلئے ضروری ہے کہ اس کا نزول منسوخ سے کچھ مدت کے بعد ہوا ہو (لہٰذا اشہر حرم کی حرمت کا نسخ قاتلوا المشرکین سے نہیں ہوسکتا۔ دونوں کے نزول کا وقت ایک ہی ہے) رہا تخصیص کا تصور ‘ تو اس جگہ وہ ممکن ہی نہیں ___ پھر کافَّۃً کی تفسیر میں یہ کہنا کہ ہر زمانہ میں قتال کرو ‘ یہ صریحی غلط ہے۔ کافَّۃً کا معنی تو یہ ہے کہ سب سے لڑو ‘ یہ مطلب نہیں کہ ہر زمانہ میں لڑو۔ کافَّۃً کا لفظ عموم افراد پر دلالت کر رہا ہے ‘ عموم اوقات کا مفہوم اس سے نہیں نکلتا۔ رہا شوال اور ذیعقدہ میں رسول اللہ ﷺ کا طائف میں محاصرہ کرنا تو یہ خبر آحاد سے ثابت ہے اور خبر آحاد ظنی ہوتی ہے ‘ اس سے حکم قرآن کا نسخ نہیں ہوسکتا۔ دیکھو ! سورة توبہ کا نزول تو طائف کے جہاد کے بعد ہوا اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے اسّی روز پہلے حج وداع میں قربانی کے دن خطبہ میں فرمایا تھا کہ زمانہ گھوم کر اسی ہیئت پر آگیا جس ہیئت پر آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے جن میں چار حرمت والے مہینے ہیں ‘ تین مہینے پے در پے ہیں : ذیعقدہ ‘ ذی الحجہ اور محرم اور چوتھا مہینہ رجب مضر کا ہے جو جمادی (الثانی) اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے۔ رواہ الشیخان فی الصحیحین من حدیث ابی بکرۃ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طائف میں بنی ثقیف کا ذیعقدہ میں محاصرہ رسول اللہ ﷺ کیلئے خصوصی جواز کے ماتحت ہو ‘ جس طرح حرم کے اندر رسول اللہ ﷺ کیلئے خاص طور پر کچھ دیر کیلئے جائز کردیا گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا : اللہ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے دن ہی اس شہر کو حرمت والا کردیا تھا ‘ پس اللہ کی دی ہوئی حرمت کی وجہ سے قیامت کے دن تک یہ شہر حرمت والا رہے گا۔ یہاں مجھ سے پہلے کسی کیلئے قتال کرنا جائز نہیں کیا گیا اور میرے لئے بھی یہاں دن میں ایک ساعت کیلئے قتال کرنا جائز کیا گیا تھا۔ رواہ الشیخان فی الصحیحین من حدیث ابن عباس۔ صحیحین میں حضرت ابو شریح عدوی کی روایت سے اس حدیث میں اتنا حصہ اور بھی آیا ہے : اگر اللہ کے رسول کے قتال سے کوئی شخص یہاں لڑنے کی اجازت سمجھنے لگے تو اس سے کہہ دو کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دے دی تھی ‘ تم کو نہیں دی اور رسول اللہ ﷺ کو بھی اجازت دن کے ایک ساعت کیلئے دی تھی۔ اب اس کی حرمت دوبارہ ویسی ہی ہوگئی جیسے کل تھی۔ قصّہ شوال 9 ھ میں جب یہ سورت نازل ہوئی تو حج کے اجتماع میں لوگوں کو سنانے کیلئے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو بھیجا۔ نسائی نے حضرت جابر کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا۔ ہم بھی آپ کے ساتھ گئے (مدینہ سے روانہ ہو کر) عرج میں پہنچے۔ صبح کی نماز کیلئے الصلٰوۃ خیر من النوم کی ندا ہوئی۔ حضرت ابوبکر تیار ہو کر (نماز کی) تکبیر کہنا ہی چاہتے تھے کہ پیچھے سے اونٹ کی آواز سنائی دی۔ آپ تکبیر کہنے سے رک گئے اور فرمایا : یہ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی جدعاء کی آواز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو خود حج کرنے کا خیال پیدا ہوگیا اور آپ تشریف لے آئے۔ اگر ایسا ہے تو ہم حضور ﷺ کے ساتھ نماز ادا کریں گے۔ اتنے میں حضرت علی اونٹنی پر سوار تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر نے دریافت کیا : کیا آپ امیر حج ہو کر آئے ہیں یا قاصد ہو کر ؟ حضرت علی نے جواب دیا : قاصد ہو کر۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے اسلئے بھیجا ہے کہ مواقف حج میں لوگوں کو سورة برأت پڑھ کر سنا دوں۔ 1  غرض ہم مکہ پہنچے اور یوم تردیہ سے ایک دن پہلے (یعنی 7؍ذی الحجہ کو) حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطاب کیا اور لوگوں کے سامنے آداب حج بیان کئے۔ جب خطبہ سے فارغ ہوگئے تو حضرت علی کھڑے ہوگئے اور آخر تک سورة برأت پڑھی۔ پھر ہم حضرت ابوبکر کے ساتھ نکل آئے۔ جب عرفہ کا دن ہوا تو پھر حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا اور آداب حج سکھائے اور جب آپ خطاب سے فارغ ہوگئے تو حضرت علی کھڑے ہوئے اور سورة برأت آخر تک پڑھ کر سنائی۔ پھر قربانی کا دن ہوا اور ہم چلے تو حضرت ابوبکر نے پھر لوگوں کو خطاب کیا ‘ روانگی اور قربانی کے احکام اور دوسرے مناسک حج بتائے اور آپ کے بعد حضرت علی کھڑے ہوئے اور لوگوں کو پوری برأت کی سورت پڑھ کر سنائی۔ پھر واپسی کا پہلا دن ہوا تو حضرت ابوبکر نے لوگوں کو خطاب کیا ‘ واپسی کی کیفیت اور پتھریاں مارنے کا طریقہ اور دوسرے آداب بیان کئے اور آپ کے بعد حضرت علی نے کھڑے ہو کر سورة برأت پوری پڑھ کر سنائی۔ (4) [ حضرت عروہ راوی ہیں کہ 9  ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آداب حج ان کو لکھ کر دے دئیے اور حضرت علی کو سورة برأت کی آیات دے کر حضرت ابوبکر کے ساتھ بھیج دیا اور ان کو حکم دے دیا کہ مکہ ‘ منٰی ‘ عرفات اور تمام مقامات حج میں اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد جو مشرک حج کرے گا یا جو برہنہ طواف کعبہ کرے گا ‘ اس (کی سلامتی) کا ذمہ دار نہ اللہ ہے نہ اللہ کا رسول۔ اور جس کا کوئی معاہدہ اللہ کے رسول سے ہوچکا ہے ‘ اس کیلئے رسول اللہ نے چار ماہ کا وقت مقرر کردیا۔ حضرت علی اونٹنی پر سوار ہو کر چل دئیے اور تمام مواقف حج میں جا کر علی الاعلان سب کو براءۃ من اللہ ورسولہ اور یا بنی اَدَمَ خُذُوا زینتَکُمْ عِنْدَ کُلَّ مَسْجِدٍپڑھ کر سنایا۔ ترمذی نے حضرت انس کی روایت سے لکھا ہے کہ (اول) رسول اللہ ﷺ نے (سورۂ ) برأت حضرت ابوبکر کو دے کر بھیجا تھا ‘ پھر واپس بلوا لیا اور فرمایا : یہ کام سوائے اس شخص کے جو میرے گھر والوں میں سے ہے ‘ اور کسی کیلئے زیبا نہیں۔ چناچہ حضرت علی کو آپ نے طلب فرما کر سورة برأت ان کو دے کر بھیجا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورة برأت (اوّل) حضرت ابوبکر کو دے کر مکہ والوں کے پاس بھیجا تھا ‘ پھر ان کے پیچھے حضرت علی کو بھیجا اور حضرت علی نے حضرت ابوبکر سے برأت کے اعلان کا اختیار لے لیا۔ حضرت ابوبکر کو کچھ اس کا احساس ہوا تو حضور ﷺ نے فرمایا : ابوبکر ! سوائے میری ذات یا میرے گھر والوں میں سے کسی شخص کے ‘ اور کوئی اس (خدمت) کو ادا نہیں کرسکتا (ورنہ عرب یقین نہیں کریں گے) ترمذی اور حاکم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے ‘ ترمذی نے اس روایت کو حسن اور حاکم نے صحیح بھی کہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو بھیجا اور حکم دیا کہ ان کلمات (آیات) کی منادی کریں ‘ پھر حضرت ابوبکر کے پیچھے حضرت علی کو انہی (آیات) کا اعلان کرنے کیلئے بھیج دیا۔ حسب الحکم دونوں حضرات گئے ‘ دونوں نے حج کیا اور ایام تشریق میں حضرت علی نے اعلان کیا : اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْءٌٓ مِّنْ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلِہٗ فَسِبْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھَر اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ کعبہ کا طواف کرے اور جنت میں سوائے مؤمن کے اور کوئی نہیں جائے گا۔ حضرت علی یہ اعلان کر رہے تھے ‘ پھر میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی یہی اعلان کیا۔] بغوی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سال حضرت ابوبکر کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آپ کے بعد حضرت علی کو اپنی عضباء اونٹنی پر سوار کر کے بھیجا تاکہ سورة برأت کا ابتدائی حصہ اجتماع حج میں لوگوں کو سنا دیں اور یہ بھی اختیار دے دیا کہ مکہ اور منٰی اور عرفات میں اعلان کردیں کہ (آئندہ) ہر مشرک سے اللہ اور اللہ کے رسول کی ذمہ داری اٹھ گئی اور کوئی شخص برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف نہ کرے۔ حضرت ابوبکر (حضرت علی کو اپنے پیچھے آتا دیکھ کر) لوٹ آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میری بابت کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے ؟ فرمایا : مناسب نہیں کہ اس (اعلان برأت) کو کوئی شخص بھی (لوگوں تک) پہنچائے ‘ سوائے اس شخص کے جو میرے گھر والوں میں سے ہو (کیونکہ کسی دوسرے کے اعلان کا لوگوں کو یقین نہیں آئے گا) ابوبکر ! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو (یعنی تمہاری خوشی کیلئے یہ بات کافی نہیں ہے) کہ تم میرے ساتھ غار میں تھے اور (قیامت کے دن) میرے حوض پر میرے ساتھی ہو گے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! بلاشبہ میں اس پر راضی ہوں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر امیر حج ہو کر اور حضرت علی سورة برأت کا اعلان کرنے کیلئے چل دئیے۔ سات تاریخ ہوئی تو حضرت ابوبکر نے لوگوں کو خطاب کیا اور مناسک حج سمجھائے اور حج کرایا۔ عرب اس سال تک حج کے معاملہ میں اپنے جاہلی دستور کے پابند تھے۔ جب قربانی کا دن ہوا تو حضرت علی نے کھڑے ہو کر وہی اعلان کیا جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور سورت برأت سب کو پڑھ کر سنائی۔ زید بن تیغ کا بیان ہے کہ ہم نے حضرت علی سے دریافت کیا : آپ کو کیا پیام دے کر بھیجا گیا تھا ؟ فرمایا : چار باتوں (کا اعلان کرنے) کیلئے مجھے بھیجا گیا : (1) آئندہ ننگا ہو کر کوئی شخض کعبہ کا طواف نہ کرے۔ (2) جس کا رسول اللہ ﷺ سے کوئی میعادی معاہدۂ (صلح) ہو ‘ وہ اپنی مقررہ میعاد تک معاہدہ پر رہے گا اور جس کا کوئی معاہدہ نہ ہو ‘ اس کیلئے چار ماہ کی میعاد دی جاتی ہے۔ (3) جنت میں سوائے مؤمن کے اور کوئی داخل نہ ہوگا۔ (4) اس سال کے بعد مؤمنوں کے ساتھ مشرکوں کا اجتماع نہ ہوگا (یعنی مشرک حج نہ کرسکیں گے) ۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر نے مجھے دوسرے اعلان کرنے والوں کے ساتھ قربانی کے دن منٰی میں یہ اعلان کرنے کیلئے بھیجا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور کوئی برہنہ آدمی کعبہ کا طواف نہیں کرے گا۔ حمید بن عبدالرحمن نے حضرت ابوہریرہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔ حمید کی یہ بھی روایت ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو اپنے ساتھ اونٹ پر بٹھا کر حکم دیا کہ وہ برأت کا اعلان کردیں۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا : پھر حضرت علی نے بھی ہمارے ساتھ منٰی کے اجتماع میں قربانی کے دن اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے گا اور نہ کوئی برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرے گا۔ نتیجہ : اس قصہ سے صراحت کے ساتھ ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو امارت حج سے معزول نہیں کیا تھا اور حضرت علی کو صرف ان آیات کا اعلان کرنے کیلئے بھیجا تھا۔ حضرت علی کو اس خدمت پر مامور کرنے کی وجہ یہ تھی کہ عرب کے دستور کے مطابق معاہدات کا انعقاد یا شکست قوم کا سردار یا سردار کے خاندان کا کوئی فرد ہی کرسکتا تھا (دوسرا کوئی نہیں کرسکتا تھا) رسول اللہ ﷺ نے اسی عذر کو ساقط کرنے کیلئے حضرت علی کا اس خدمت پر تقرر کیا تاکہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ معاہدہ کی یہ شکست تو ہمارے رواج کے خلاف ہے (ہم اس کو تسلیم نہیں کرسکتے) رسول اللہ ﷺ کے فرمان لا ینبغی لاحد ان یبلغ ھذا الارجل من اھلی کا یہی مطلب ہے (اس سے حضرت ابوبکر کی تنقیص لازم نہیں آتی) حضرت انس کی روایت سے امام احمد اور ترمذی نے حدیث مذکور انہی الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے اور ترمذی نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ ہم نے جو قصہ نقل کیا ہے ‘ اس کا کچھ حصہ مسند احمد سے اور کچھ حصہ دلائل بیہقی سے لیا ہے جو حضرت ابن عباس کی روایت سے آیا ہے اور کچھ حصہ تفسیر ابن مردویہ سے اخذ کیا ہے جو حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے منقول ہے۔ فان تبتم فھو خیر لکمج پس اگر تم (کفر سے اسلام کی طرف) لوٹ آؤ گے تو (دنیا و آخرت میں) تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ وان لولیتم اور اگر (توبہ اور اسلام سے) پشت موڑ لو گے۔ فاعلموا انکم غیر معجزی اللہ ط تو سمجھ رکھو کہ تم اللہ کو ہرانے والے نہیں۔ اس کی گرفت سے نہیں بچ سکتے ‘ نہ اس سے بھاگ سکتے ہو۔ کلام کا کچھ حصہ حذف کردیا گیا ہے ( پورا کلام اس طرح تھا : اگر تم پشت موڑ لو گے تو جان رکھو کہ اللہ تم کو دنیا اور آخرت میں عذاب دے گا کیونکہ تم اللہ کو مغلوب نہیں کرسکتے) ۔ وبشر الذین کفروا بعذاب الیم۔ اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔ دنیا میں قتل و قید کی شکل میں اور آخرت میں دوزخ کی صورت میں۔
Top