Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 61
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَمِنْهُمُ
: اور ان میں سے
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُؤْذُوْنَ
: ایذا دیتے (ستاتے) ہیں
النَّبِيَّ
: نبی
وَيَقُوْلُوْنَ
: اور کہتے ہیں
هُوَ
: وہ (یہ)
اُذُنٌ
: کان
قُلْ
: آپ کہ دیں
اُذُنُ
: کان
خَيْرٍ
: بھلائی
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
يُؤْمِنُ
: وہ ایمان لاتے ہیں
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَيُؤْمِنُ
: اور یقین رکھتے ہیں
لِلْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں پر
وَرَحْمَةٌ
: اور رحمت
لِّلَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے لیے جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
مِنْكُمْ
: تم میں
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
يُؤْذُوْنَ
: ستاتے ہیں
رَسُوْلَ اللّٰهِ
: اللہ کا رسول
لَهُمْ
: ان کے لیے
عَذَابٌ
: عذاب
اَلِيْمٌ
: دردناک
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے۔ (ان سے) کہہ دو کہ (وہ) کان (ہے تو) تمہاری بھلائی کے لیے۔ وہ خدا کا اور مومنوں (کی بات) کا یقین رکھتا ہے اور جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں ان کے لیے رحمت ہے۔ اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لیے عذاب الیم (تیار) ہے
(بقیہ حاشیہ سابقہ آیت) ایک شبہ : رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ حضرت عمر کو عطا فرمایا تھا ‘ وہ تو کام کی اجرت تھی ‘ فقر کی وجہ سے نہیں عطا فرمایا تھا ‘ اسی لئے فرمایا تھا کہ اس کو لے لو ‘ اس سے تمول حاصل کرو اور خیرات کرو۔ عمل کی اجرت کا ثبوت مسلم کی اس روایت سے ہوتا ہے جس میں ابو حمید ساعدی نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب نے مجھے صدقہ (زکوٰۃ) کے کام پر مامور کیا۔ کام تمام کرنے کے بعد جب میں نے رقم زکوٰۃ ادا کردی تو آپ نے اجرت عمل مجھے دینے کا حکم دیا۔ میں نے عرض کیا : (امیر المؤمنین ! ) میں نے تو اللہ کے واسطے کام کیا ہے ‘ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے (اس سے لے لوں گا) فرمایا : جو کچھ تم کو دیا گیا ہے وہ لے لو ‘ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں میں نے بھی (تحصیل زکوٰۃ کا) کام کیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے کام کی اجرت دی تو میں نے بھی تمہاری طرح کہا تھا ‘ لیکن حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تم کو بغیر سوال کے دیا جائے تو کھاؤ اور خیرات کرو۔ میں کہتا ہوں : الفاظ عام ہیں اور عموم الفاظ ہی معتبر ہے۔ واقعہ کی خصوصیت ناقابل اعتبار ہے۔ الفاظ کا عموم یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جب تم کو اس مال میں سے کچھ مل جائے اور تم ازخود نہ حریص ہو نہ سائل تو اس کو لے لو۔ ان الفاظ میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ جو شخص احادیث کی تلاش کرے گا ‘ اس کو احادیث میں صراحت کے ساتھ یا دلالۃً یہ بات ملے گی کہ رسول اللہ ﷺ نے صحیح و تندرست سائل کو زکوٰۃ کا مال عطا فرمایا۔ مسلم نے بیان کیا ہے کہ حضرت انس نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا۔ آپ موٹی کناری کی نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ ایک دیہاتی نے چادر پکڑ کر اتنی زور سے کھینچی کہ چادر کی کناری کا نشان گردن مبارک کے ایک طرف پڑگیا۔ پھر کہنے لگا : محمد ! جو مال تمہارے پاس ہے ‘ اس میں سے کچھ مجھے بھی دو ۔ حضور ﷺ نے اس کی طرف گردن موڑی اور ہنس دئیے ‘ پھر اس کو کچھ دینے کا حکم دیا۔ حافظ ابن حجر نے کہا : اس باب کی اکثر احادیث اس کی شاہد ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ میں نے جو احادیث ذکر کردیں ‘ بالاجمال ان سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ طاقتور محتاج کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ‘ اس نے سوال کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ ہاں سائل قوی کو دینا تو جائز ہے مگر اس کا سوال کرنا اور سوال کر کے لینا مکروہ ہے۔ اس صورت میں وہ حدیث جس میں طاقتور تندرست آدمی کیلئے زکوٰۃ حلال نہ ہونے کی صر 1 حت کی گئی ہے ‘ دو ہی معنی کی حامل ہے : ایک یہ کہ اس کیلئے سوال کرنا حلال نہیں۔ دوسرا یہ کہ سوال کے بعد زکوٰۃ کا جو مال اس کو دیا جائے ‘ وہ اس کیلئے حلال نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ نفی حلت والی احادیث کا سوال ہی کے واقعہ سے تعلق ہے (لہٰذا قوی و تندرست محتاج کیلئے سوال کرنا حرام ہے لیکن جو مال بغیر سوال کے اس کو مل جائے یا سوال کے بعد ملے ‘ اس کی حرمت ثابت نہیں ہوتی) ۔ مسئلہ : اکثر ائمہ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کیلئے نہ واجب صدقہ (یعنی فرض زکوٰۃ کا مال) لینا حلال تھا نہ نفل صدقہ (خیرات) لینا۔ امام شافعی اور امام احمد کے دو مختلف قول خیرات لینے کے جواز و عدم جواز کے متعلق آئے ہیں۔ جمہور کے قول کی دلیل حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک راستہ پر گذرے ‘ وہاں چھوارہ پڑا تھا۔ فرمایا : اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کا ہوگا تو میں اس کو کھا لیتا۔ متفق علیہ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جب کوئی کھانا پیش کیا جاتا تو آپ دریافت فرماتے : یہ ہدیہ ہے یا صدقہ ؟ اگر صدقہ کہا جاتا تو آپ ساتھیوں سے فرماتے کہ تم کھالو ‘ خود نہ کھاتے اور اگر ہدیہ کہا جاتا تو آپ ہاتھ بڑھا دیتے اور ساتھیوں کے ساتھ خود بھی کھاتے۔ متفق علیہ۔ طحاوی نے بھی بہزاد بن حکیم کے دادا کی روایت سے اسی طرح بیان کیا ہے۔ آل رسول کیلئے بھی صدقہ حلال نہ تھا۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضرت حسن بن حضرت علی نے صدقہ کا ایک چھوارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ حضور ﷺ نے منہ سے پھینک دینے کیلئے فرمایا آخ آخ۔ پھر فرمایا : ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے۔ متفق علیہ مسئلہ : رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضور ﷺ کے قرابت داروں کیلئے زکوٰۃ و خیرات کھانے کی حرمت و حلت میں علماء کا اختلاف ہے اور چار مختلف اقوال ہیں : (1) مطلقاً جائز ہے۔ زکوٰۃ ہو یا خیرات ‘ اب آل رسول کیلئے ہر قسم کا صدقہ کھانا درست ہے۔ ایک روایت میں اس قول کی نسبت امام ابوحنیفہ کی طرف کی گئی ہے۔ اس قول کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے ‘ فقط ایک قیاسی استنباط ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اقارب کو زکوٰۃ کے مال میں سے حصہ دینے کے بجائے مال غنیمت کے خمس (جو رسول اللہ ﷺ کا حصہ تھا) کا خمس (یعنی کل مال غنیمت کا پچیسواں حصہ) دے دیا کرتے تھے۔ جب حضور ﷺ کی وفات کے بعد آل رسول کا پچیسواں حصہ ساقط ہوگیا تو صدقہ کی حرمت بھی ان کیلئے ساقط ہوگئی۔ مطلقاً ناجائز ہے۔ نہ زکوٰۃ لینی جائز ہے نہ خیرات۔ یہ قول صاحبین کا ہے ‘ طحاوی اور ابن ہمام نے اسی کو اختیار کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہم آل محمد صدقہ نہیں کھاتے ‘ عام ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے : ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں۔ رواہ مسلم والطبرانی وا لطحاوی من حدیث عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ومن حدیث رشد بن مالک۔ امام احمد اور طحاوی نے حضرت حسن کے قصہ میں بھی یہی الفاظ نقل کئے ہیں۔ (3) زکوٰۃ لینی جائز ہے ‘ خیرات لینی درست نہیں۔ یہ صرف امام مالک کا قول ہے۔ اس کی دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ فرض تو ایک لازمی حق ہوتا ہے ‘ اس کو لینے میں آل رسول ﷺ کی کوئی توہین نہیں ہوتی اور خیرات لینے میں حقارت و ذلت ہوتی ہے۔ اس قول کی تردید کیلئے مذکورۂ بالا احادیث کافی ہیں۔ (4) خیرات جائز ہے ‘ زکوٰۃ جائز نہیں۔ امام ابوحنیفہ کا مشہور مسلک اور امام شافعی و امام حنبل کا صحیح قول یہی ہے۔ امام مالک کی طرف بھی ایک روایت میں اس قول کی نسبت کی گئی ہے ‘ بلکہ امام مالک سے تو چاروں اقوال مروی ہیں اور چاروں روایات مشہور ہیں۔ اس قول کی دلیل یہ ہے کہ مندرجۂ بالا احادیث میں آل محمد ﷺ کیلئے جس صدقہ کی ممانعت آئی ہے ‘ اس سے مراد فرض صدقہ (زکوٰۃ) ہے اور فرض زکوٰۃ کی حرمت ہی حضرت مطلب بن ربیعہ بن حارث کی حدیث میں مراد ہے۔ حضرت ربیعہ بن حارث اور حضرت عباس بن عبدالمطلب ایک بار جمع ہوئے اور بولے : اگر ہم ان دونوں لڑکوں یعنی مجھے اور فضل بن عباس کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس غرض کیلئے بھیج دیں کہ آپ تحصیل زکوٰۃ کی خدمت پر ان دونوں کو مقرر کردیں تاکہ دوسرے لوگوں کو جو اجرت ملتی ہے ‘ وہ ان کو بھی مل جایا کرے تو مناسب معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی نے فرمایا : ان کو نہ بھیجو (مگر حضرت علی کا مشورہ کسی نے نہ مانا) چناچہ ہم خدمت گرامی میں حاضر ہوئے۔ حضور ﷺ اس روز حضرت زینب بنت حجش کے گھر تھے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم اب نکاح کے قابل ہوگئے اور آپ (اقارب کے ساتھ) سب سے زیادہ اچھا سلوک کرنے والے اور بڑے کنبہ پرور ہیں۔ ہم اسلئے خدمت گرامی میں حاضر ہوئے ہیں کہ آپ وصول زکوٰۃ کی خدمت پر ہم کو بھی مامور فرما دیں۔ جس طرح اور لوگ وصول کر کے داخل کرتے ہیں اور اجرت پاتے ہیں ‘ ہم بھی وصول کر کے داخل کردیں گے اور ہم کو بھی دوسروں کی طرح اجرت مل جائے گی (اس طرح ہم نکاح کرسکیں گے اور ہمارا گذارا ہوجائے گا) یہ سن کر حضور ﷺ دیر تک خاموش رہے ‘ پھر فرمایا : آل محمد کیلئے صدقہ مناسب نہیں ‘ یہ لوگوں کا میل کچیل ہے۔ تم محمیہ بن جزء اسدی اور نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو بلا لاؤ۔ محمیہ کو حضور ﷺ نے مال خمس کی نگرانی پر مامور فرما دیا تھا۔ جب دونوں آگئے تو محمیہ سے فرمایا : اس لڑکے فضل بن عباس سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دو ۔ محمیہ نے نکاح کردیا اور نوفل بن حارث سے فرمایا : تم اس لڑکے سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دو ۔ انہوں نے بھی اپنی لڑکی کا نکاح حسب الحکم کردیا۔ پھر محمیہ سے فرمایا : خمس میں سے ان دونوں کا مہر اتنا اتنا دے دو ۔ رواہ مسلم۔ یہ حدیث بتارہی ہے کہ وصول زکوٰۃ پر اگر کوئی ہاشمی مامور ہو تب بھی مال زکوٰۃ میں سے اجرت لینی اس کیلئے جائز نہیں اور مامور نہ ہو تو جواز کی کوئی وجہ نہیں۔ لیکن اس حدیث میں صدقہ سے مراد زکوٰۃ ہے جس کو وصول کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ لوگوں کو مقرر فرماتے تھے۔ خاندان رسول کے صدقہ لینے کا جواز مندرجۂ ذیل واقعہ سے ظاہر ہو رہا ہے ‘ اس کے راوی حضرت ابن عباس ہیں۔ واقعہ یہ ہوا کہ مدینہ کا قافلہ (کہیں سے تجارتی سامان لے کر) آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کچھ سامان خریدا اور چند اوقیہ نقرئی کے نفع سے اس کو بیچ ڈالا ‘ پھر وہ روپیہ خاندان عبدالمطلب کی بیواؤں کو بطور صدقہ دے دیا ‘ پھر فرمایا : آئندہ جس چیز کی قیمت میرے پاس نہ ہوگی ‘ میں اس کو نہیں خریدوں گا۔ امام شافعی نے بیان کیا ہے کہ حضرت امام جعفر مکہ اور مدینہ کے درمیان میں پانی کی جو سبیلیں تھیں ‘ ان سے پانی پی لیا کرتے تھے۔ اس پر حضرت ابراہیم بن محمد نے فرمایا : آپ صدقہ کا پانی پی لیتے ہیں ؟ فرمایا : ہمارے لئے صرف صدقۂ مفروضہ حرام کیا گیا ہے (اور یہ سبیل کا پانی خیراتی پانی ہوتا ہے) اگر کوئی یہ کہے کہ اوقاف کا حکم دوسرے صدقات سے الگ ہے (اوقاف سے فائدہ اٹھانا تمام مسلمانوں کیلئے جائز ہے ‘ خاندان رسول بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے) تو یہ بےدلیل دعویٰ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو امام جعفر یوں فرماتے کہ اوقاف کا حکم دوسرے صدقات سے جدا ہے ‘ یہ نہ فرماتے کہ ہمارے لئے صرف فرض صدقہ (زکوٰۃ) حرام کیا گیا ہے۔ بخاری وغیرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم کسی کو اپنا وارث نہیں چھوڑتے ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ زندگی میں رسول اللہ ﷺ سال بھر کا خرچ گھر والوں کو دے دیا کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا ‘ اس کو اللہ کے مال کی طرح اللہ کے راستہ میں (یعنی جہاد کی تیاری ‘ گھوڑوں کی خریداری ‘ ہتھیاروں کی فراہمی وغیرہ) صرف کرتے تھے۔ حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت علی اور حضرت عباس بھی رسول اللہ ﷺ کے عمل کی طرح کیا کرتے تھے (یعنی ترکۂ رسول میں سے جو حقیقت میں ترکہ نہ تھا بلکہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد اس کا حکم خیرات یا صدقہ کا حکم تھا ‘ اقارب رسول اللہ کو حضور ﷺ کی تقسیم کے مطابق دیا کرتے تھے) اس سے ظاہر ہوگیا کہ بنی ہاشم کیلئے ہر صدقہ (خواہ خیرات ہی ہو) حرام نہ تھا (بلکہ صرف زکوٰۃ حرام تھی) ۔ مسئلہ : اکثر ائمہ کے نزدیک ہاشمی ‘ ہاشمی کی بھی زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ امام ابو یوسف اس کو جائز کہتے ہیں۔ کیونکہ صدقہ چونکہ لوگوں کا میل کچیل ہوتا ہے ‘ اسلئے بنی ہاشم کیلئے حرام کیا گیا تھا مگر اپنا صدقہ خود کھانے میں کوئی حرج نہیں (کسی طرح کی توہین نہیں) ہم کہتے ہیں : بنی ہاشم کے شرف کا تقاضا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے (خواہ وہ ہاشمی ہی ہو) میل کچیل سے اپنے کو محفوظ رکھیں ‘ اسلئے ہاشمی ‘ ہاشمی کی بھی زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ مسئلہ : بنی ہاشم کیلئے زکوٰۃ حرام ہے ‘ ان میں پانچ بطن شامل ہیں : آل علی ‘ آل عباس ‘ آل جعفر ‘ آل عقیل ‘ آل حارث بن عبدالمطلب۔ یہ امام اعظم اور امام مالک کا قول ہے۔ امام شافعی کے نزدیک بنی مطلب بھی ان میں شامل ہیں ‘ کیونکہ خمس میں سے رسول اللہ ﷺ جو ذوی القربیٰ کو دیتے تھے تو بنی مطلب کو بھی اس کا حصہ دار بناتے تھے ‘ ان کو بھی دیتے تھے۔ مسائل خمس میں حضرت جبیر بن مطعم کی روایت ہم ذکر کرچکے ہیں۔ مسئلہ : امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک بنی ہاشم کے غلاموں کیلئے بھی زکوٰۃ حرام ہے۔ امام شافعی اور امام مالک کا بھی صحیح ترین قول یہی ہے۔ بعض کے نزدیک بنی ہاشم کے موالی کیلئے زکوٰۃ حرام نہیں۔ امام ابو یوسف نے فرمایا : موالی کی طرف بنی ہاشم کے سوا اور کسی کو نہیں پھیرا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی مخزومی شخص کو تحصیل زکوٰۃ پر مقرر فرمایا۔ اس شخص نے ابو رافع سے کہا : تم بھی میرے ساتھ چلو ‘ تم کو بھی کچھ مل جائے گا۔ ابو رافع نے کہا : رسول اللہ ﷺ سے پوچھے بغیر میں نہیں جاسکتا۔ چناچہ ابو رافع نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : ہمارے آل محمد کیلئے صدقہ حلال نہیں اور کسی قوم کا غلام بھی انہی میں سے ہوتا ہے (یعنی اس کا حکم بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسے اس کے آقا کا) یہ حدیث حضرت ابورافع کی روایت سے امام احمد ‘ ابو داؤد ‘ ترمذی ‘ نسائی ‘ ابن حبان اور حاکم نے بیان کی ہے اور طبرانی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے ابورافع کا نام ارقم بن ابی الارقم تھا۔ مسئلہ : مال زکوٰۃ کو ایک شہر سے دوسرے شہر کو لے جانا مکروہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ سے فرمایا تھا : ان کے مالداروں سے لیا جائے اور ان کے حاجت مندوں کو لوٹا دیا جائے۔ منقول ہے کہ زکوٰۃ کا جو مال خراسان سے شام لایا گیا تھا ‘ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے پھر شام سے خراسان کو لوٹا دیا۔ فریضۃ من اللہ یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔ فریضۃً یا مصدر (مفعول مطلق) ہے جو تاکید فعل کیلئے ذکر کیا گیا ہے یعنی اللہ کی طرف سے بلاشبہ یہ فرض کیا گیا ہے ‘ یا حال ہے۔ وا اللہ علیم حکیم۔ اور اللہ بڑے علم والا ‘ بڑی حکمت والا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ مصلحت سے خوب واقف ہے اور حکمت کے ساتھ تقسیم کرنے والا ہے۔ کوئی فیصلہ بےمحل نہیں کرتا ‘ ہر چیز کو اس کے مقام پر قائم کرتا ہے۔ ابن ابی شیبہ ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد کا بیان اور ابن ابی حاتم نے سدی کا قول نقل کیا ہے کہ کچھ منافق جمع ہوئے ‘ ان میں حلاس بن سوید بن صامت مخشی بن حمیر اور ودیعہ بن ثابت بھی تھے۔ ان کا ارادہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی کچھ ہجو اور آپ پر کچھ نکتہ چینی کریں۔ ان میں سے ایک نے اس فعل سے سب کو روکا اور کہنے لگا : ہم کو ڈر ہے کہ یہ خبر محمد ﷺ کو پہنچ جائے گی اور پھر (ان کی نظر میں) یہ تمہارا جرم بن جائے گا۔ ایک شخص نے کہا : محمد ﷺ تو صرف کان ہیں (ہر ایک کا عذر سن لیتے ہیں) ہم قسمیں کھا لیں گے تو وہ ہم کو سچا مان لیں گے۔ حلاس بولا : ہم تو جو کچھ چاہیں گے کہیں گے ‘ پھر محمد ﷺ کے پاس جا کر اپنے قول کے منکر ہوجائیں گے اور قسم کھا لیں گے تو وہ ہماری بات سچ مان لیں گے۔ محمد ﷺ تو صرف کان ہیں۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی : ومنھم الذی یؤدون النبي ویقولون ھو اذن ان (منافقوں) میں کچھ ایسے ہیں کہ نبی کو ایذائیں پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں : آپ تو سراسر کان ہیں (ہر بات کان دے کر سن لیتے ہیں) ایذائیں دیتے ہیں ‘ یعنی غیبت کرتے ہیں ‘ آپ کی باتیں بچلاتے ہیں اور نازیبا الفاظ کہتے ہیں۔ اور اس اندیشہ سے کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو ان کی باتوں کی خبر نہ پہنچ جائے ‘ ان کو روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ تو ہر بات کان دے کر سن لیتے اور سچا جان لیتے ہیں۔ جس طرح (دیدبانی کرنے والے) جاسوس کو مبالغۃً آنکھ کہا جاتا ہے ‘ اسی طرح ہر بات کو کان رکھ کر سن لینے کی وجہ سے منافقوں نے آپ کو کان کہا۔ یا مضاف محذوف ہے ‘ اصل میں ذواُذُنٍ (کان والا) تھا یا اُذُنٌ مشتق ہے اَذِنَ اُذُنًا سے۔ اَذِن کا معنی ہے : کان رکھ کر سن لیا۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ منبتل بن حارث رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیٹھ کر آپ کی باتیں سنتا اور جا کر منافقوں سے نقل کرتا تھا ‘ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ محمد بن اسحاق نے لکھا ہے کہ منبتل کالا ‘ لمبا ‘ پراگندہ مو ‘ سرخ چشم ‘ چپکے گالوں والا بدرو آدمی تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا : جو شیطان کو دیکھنا چاہتا ہو تو اس کو دیکھ لے۔ یہ شخص رسول اللہ ﷺ کی باتیں جا کر منافقوں سے چپکے چپکے کہتا تھا۔ اس سے کہا گیا : ایسا نہ کر۔ کہنے لگا : محمد ﷺ تو سراسر کان ہیں۔ جو ان سے کچھ جا کر کہہ دیتا ہے ‘ اس کو مان لیتے ہیں۔ ہم جو کچھ چاہیں گے کہیں گے ‘ پھر جا کر جھوٹی قسمیں کھا لیں گے (اور کہے ہوئے سے منکر ہوجائیں گے) تو وہ ہم کو سچا جان لیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا : قل اذن خیر لکم آپ کہہ دیجئے کہ وہ کان دے کر وہی بات سنتے ہیں جو تمہارے حق میں سراسر خیر ہے۔ اذُن کی خیر کی طرف اضافت ہے ‘ جیسے رجل صدقٍ (بھلائی کے کان ‘ سچائی کا آدمی) گویا یوں کہا گیا کہ وہ بیشک کان ہیں مگر ان کا کان ہونا تمہارے لئے بہتر ہے۔ یا یہ معنی ہے کہ وہ تمہاری بھلائی اور بہتری کی بات کان لگا کر سنتے ہیں ‘ شر اور بگاڑ کی بات نہیں سنتے ‘ غیبت اور چغلی کی بات نہیں سنتے ‘ عذر کرنے والے کی معذرت سن لیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مؤمن بھولا ‘ شریف ہوتا ہے اور کافر خبیث ‘ کمینہ۔ رواہ ابو داؤد والترمذی والحاکم عن ابی ہریرۃ۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ وہ خیر ‘ حق اور ہر واجب القبول بات کو سنتے ہیں اور ان کے خلاف باتوں کو نہیں سنتے۔ یؤمن باللہ ویؤمن للمؤمنین وہ اللہ کو مانتے ہیں اور مؤمنوں کا یقین کرتے ہیں۔ یعنی ہر مؤمن سے ان کو حسن ظن ہے ‘ اسلئے جو شخص بھی ایمان ظاہر کرتا ہے ‘ اس کو سچا مان لیتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ مخلص مؤمنوں کو سچا جانتے ہیں ‘ منافقوں کو سچا نہیں جانتے مگر ان کے عذر کو قبول کرلیتے ہیں۔ چونکہ ایمان باللہ سے مراد ہے کفر کی ضد ‘ اسلئے اوّل یؤمن کے بعد باللہ بَ کے ساتھ فرمایا اور دوسرے یؤمن سے مراد ہے تصدیق جو تکذیب کی ضد ہے ‘ اسلئے للمؤمنین لام کے ساتھ فرمایا (اوّل کا معنی ہوا اللہ کو مانتے ہیں اور دوسرے یؤمنکا معنی ہوا مؤمنوں کی بات کو سچا جانتے ہیں) ۔ ورحمۃ للذین امنوا منکم اور ان لوگوں کیلئے رحمت ہیں جو تم میں سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ یعنی جو لوگ ایمان کا زبان سے اظہار کرتے ہیں ‘ ان کی بات کو قبول کرلیتے ہیں ‘ ان کا اندرونی راز فاش نہیں کرتے (اور ان کے منافق ہونے کا اعلان نہیں فرماتے) اس جملہ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ نادانی یا تمہارے حال کو نہ جاننے کی وجہ سے وہ تمہارے قول کو قبول نہیں کرتے ‘ بلکہ تم پر چونکہ مہربان ہیں اور تم سے نرمی کرنی چاہتے ہیں ‘ اسلئے پردہ فاش نہیں کرتے اور عذر کو مان لیتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم میں سے جو مخلص مؤمن ہیں ‘ ان کیلئے رسول ﷺ سراسر رحمت ہیں ‘ کفر سے نکال کر ایمان کی طرف لانے والے ہیں۔ قیامت کے دن ان کی شفاعت کریں گے اور دوزخ سے رہا کرا کے جنت میں لے جائیں گے۔ والذین یؤذون رسول اللہ لھم عذاب الیم۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول ﷺ کو دکھ دیتے ہیں ‘ انہی کیلئے دردناک عذاب ہے۔ اس بات سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ اللہ کے رسول نے ان کی بات مان لی اور عذر قبول کرلیا۔ مقاتل اور کلبی کا بیان ہے کہ اس آیت کا نزول منافقوں کی ایک جماعت کے متعلق ہوا جو غزوۂ تبوک کو نہیں گئے تھے اور جب رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لے آئے تو حاضر ہو کر (طرح طرح کے) عذر پیش کرنے اور قسمیں کھانے لگے۔ انہی کے متعلق اللہ نے نازل فرمایا :
Top