Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 62
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی لَكُمْ : تمہارے لیے لِيُرْضُوْكُمْ : تاکہ تمہیں خوش کریں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَحَقُّ : زیادہ حق اَنْ : کہ يُّرْضُوْهُ : وہ ان کو خوش کریں اِنْ : اگر كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے ہیں
مومنو! یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کر دیں۔ حالانکہ اگر یہ (دل سے) مومن ہوتے تو خدا اور اس کے پیغمبر خوش کرنے کے زیادہ مستحق ہیں
یحلفون باللہ لکم لیرضوکم (اے مسلمانو ! ) وہ تم کو راضی کرنے کیلئے تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں (اور قسمیں کھا کھا کر عذر پیش کرتے ہیں) ۔ وا اللہ ورسولہ احق ان یرضوہ ان کانوا مؤمنین۔ حالانکہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ حق رکھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ سچے مسلمان ہیں تو اس کو (طاعت اور خلوص قلبی کے ذریعہ سے) راضی کریں۔ یُرْضُوْہُکی ضمیر ان کی طرف راجع ہے ‘ کیونکہ جھوٹی قسمیں کھا کر اللہ کو راضی نہیں کیا جاسکتا بلکہ خلوص قلبی اور طاعت سے ہی اس کی رضامندی حاصل ہوسکتی ہے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک اللہ اور رسول میں سے ہر ایک کی طرف ضمیر راجع ہے۔ چونکہ اللہ کی اور اس کے رسول کی رضامندی ایک ہی ہے ‘ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ‘ اسلئے ضمیر واحد کی استعمال کی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رسول کی طرف ضمیر راجع ہے ‘ کیونکہ رسول کو ایذا دینے اور راضی کرنے ہی کے سلسلے میں کلام کا نزول ہوا۔ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ شرط مؤخر ہے۔ یعنی اگر وہ مؤمن ہیں تو طاعت اور اخلاص کے ذریعے سے اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا چاہئے۔ مگر انہوں نے نہ اللہ کو راضی کیا ‘ نہ اللہ کے رسول کو ‘ نہ خلوص کے ساتھ ایمان لائے۔
Top