Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 77
فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فَاَعْقَبَهُمْ : تو اس نے ان کا انجام کار کیا نِفَاقًا : نفاق فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِلٰى : تک يَوْمِ : اس روز يَلْقَوْنَهٗ : وہ اسے ملیں گے بِمَآ : کیونکہ اَخْلَفُوا : انہوں نے خلاف کیا اللّٰهَ : اللہ مَا : جو وَعَدُوْهُ : اس سے انہوں نے وعدہ کیا وَبِمَا : اور کیونکہ كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ : وہ جھوٹ بولتے تھے
تو خدا نے اس کا انجام یہ کیا کہ اس روز تک کے لیے جس میں وہ خدا کے روبرو حاضر ہوں گے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اس لیے کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے
فاعقبھم نفاقًا فی قلوبھم الی یوم یلقونہ سو اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا میں ان کے دلوں کے اندر نفاق قائم کردیا جو اللہ کے پاس جانے کے دن تک رہے گا۔ یعنی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے یا بخل نے ان کے دلوں میں بداعتقادی پیدا کردی۔ انہوں نے اللہ کے ادائے زکوٰۃ کے حکم کی تعمیل واجب نہ سمجھی اور وجوب زکوٰۃ کا انکار کردیا اور اس کو جزیہ کی طرح قرار دیا اور یہ بداعتقادی ان کے دلوں میں مرتے دم تک رہے گی ‘ یا قیامت کے دن تک رہے گی جبکہ کرتوت کی سزا ان کے سامنے آئے گی ‘ یا قبر میں (عذاب سامنے) آنے تک رہے گی۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ نے توبہ سے ان کو محروم کردیا ‘ ان کی موت نفاق پر ہوگی۔ بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ وبما کانوا یکذبون۔ کیونکہ انہوں نے اللہ سے جو (زکوٰۃ ادا کرنے اور نیک ہونے کا) وعدہ کیا تھا ‘ اس کی خلاف ورزی کی اور اسلئے بھی کہ وہ جھوٹے تھے۔ وعدہ خلافی جھوٹ پر مشتمل ہوتی ہے (ایک تو وعدہ کے خلاف کرنا بجائے خود برا ہے ‘ دوسرے وعدہ خلافی کے اندر جو جھوٹ ہوتا ہے ‘ وہ بھی قبیح ہوتا ہے اسلئے) وعدہ خلافی میں دوہری برائی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (عملی) منافق کی تین نشانیاں ہیں : بات کرے تو جھوٹ بولے ‘ وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ‘ اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ متفق علیہ من حدیث ابی ہریرۃ مسلم کی روایت میں حدیث کے الفاظ اتنے زائد ہیں : خواہ وہ روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعویدار ہو۔ بغوی اور ابن جریر نے حضرت ابو امامہ کی روایت سے جو مذکورۂ بالا حدیث بیان کی ہے ‘ اس میں یہ بھی ہے کہ جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس ثعلبہ کا کوئی رشتہ دار موجود تھا ‘ وہ آیت سن کر فوراً ثعلبہ کے پاس پہنچا اور کہا : ارے ثعلبہ ! تیرے بارے میں اللہ نے ایسا ایسا نازل فرمایا ہے۔ ثعلبہ سنتے ہی خدمت گرامی میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ میرا مال زکوٰۃ قبول فرما لیا جائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مجھے تیری زکوٰۃ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ ثعلبہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : یہ تیرا کرتوت ہے۔ میں نے تجھے حکم دیا تھا مگر تو نے نہیں مانا۔ غرض رسول اللہ ﷺ نے جب ثعلبہ کی زکوٰۃ قبول کرنے سے انکار کردیا تو وہ اپنے گھر لوٹ گیا۔ پھر حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہو کر مال زکوٰۃ قبول کرنے کی استدعا کی۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے قبول نہیں فرمائی اور میں قبول کرلوں (ایسا نہیں ہوسکتا) حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت عمر والی بنائے گئے تو ثعلبہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مال زکوٰۃ کو قبول کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے اور ابوبکر نے تیری زکوٰۃ قبول نہیں کی اور میں قبول کرلوں (ایسا نہیں ہوسکتا) چناچہ آپ نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر جب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو ثعلبہ ان کے پاس بھی آیا مگر آپ نے بھی اس کی زکوٰۃ قبول نہیں کی۔ آپ ہی کی خلافت میں ثعلبہ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ‘ حضرت سعید بن جبیر اور قتادہ کا بیان ہے کہ ثعلبہ انصار کی ایک مجلس میں آیا اور ان کو گواہ کر کے کہا کہ اگر اللہ مجھے اپنے فضل سے نوازے گا تو میں اس میں سے ہر حقدار کا حق ادا کروں گا ‘ خیرات دوں گا اوراقرباء پروری کروں گا (اتفاقاً ) اس کے چچا کے بیٹے کا انتقال ہوگیا اور ثعلبہ اس کے مال کا وارث ہوا مگر اس نے اپنا قول پورا نہیں کیا۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حسن بصری اور مجاہد کا قول ہے کہ اس آیت کا نزول ثعلبہ بن حاطب اور معتب بن قشیر کے حق میں ہوا ‘ یہ دونوں بنی عمرو بن عوف کے خاندان میں سے تھے۔ قبیلہ کے سرداروں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی ‘ یہ دونوں ادھر سے گذرے اور ان کے سامنے کہا : خدا کی قسم ! اللہ اگر ہم کو اپنے فضل سے (مال) عطا فرمائے گا تو ہم (فرض و مستحب) خیرات کریں گے۔ لیکن جب اللہ نے ان کو عطا فرمایا تو یہ کنجوس ہوگئے (اور زکوٰۃ بھی نہیں دی) ۔
Top