ووضعنا عنک وزوک . اس کا عطف الم نشرح پر ہے کیونکہ (الم نشرح میں استفہام انکاری ہے اور
انکار نفی کے لیے ثبوت لازم ہے اس لیے) الم نشرح کا معنی ہوگیا شرحنا لک صدرک وزرٌ کا اصلی لغوی معنی ہے ‘ پہاڑ۔ اللہ نے فرمایا : کلا لاوزر۔ یعنی کوئی پہاڑ نہ ہوگا کہ اس پر پناہ لی جاسکے۔ یہاں مجازی معنی مراد ہے یعنی بڑا بار۔ بار یا تو غم فرق اور تو ہم انقطاع کامل تھا جس نے غمگین بنا دیا تھا اور آپ کی قوت (صبر) توڑ دی تھی۔ پھر اللہ نے سورة الضحیٰ اور الم نشرح کو نازل فرما کر اس رنج و غم کو دور کردیا اور آپ ﷺ کے دل کو قرار اور طبیعت کو سکون حاصل ہوگیا اور معلوم ہوگیا کہ وہ فراق (وحی کی بندش) انقطاع کلی اور ناراضگی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ حکمت اور منفعت کے زیر اثر تھا۔ پس ازالہ غم کو ہی اللہ نے اپنا انعام قرار دیا۔ یا بار سے مراد ہے شرعی احکام کا بار۔ دعوت حق ‘ تبلیغ احکام ‘ ادائے اوامر اور ممنوعات سے بازداشت کیونکہ تکالیف شرعیہ کی پابندی بڑی دشوار ہے۔ دیکھو آسمانوں ‘ زمینوں اور پہاڑوں نے اس بار کو اٹھانے پر رضامندی ظاہر نہ کی اور اس کو اٹھانے سے ڈر گئے۔
اللہ نے فرمایا ہے : وانھا لکبیرۃ الاعلٰی الخاشعین۔ پس جب اللہ نے ایمان و عمل سے رسول اللہ ﷺ کا سینہ کھول دیا اور دل کے اندر جو شیطانی حصہ تھا اس کو دور کردیا اور نفسانی خبائث جو فطرت نفوس میں داخل ہیں ‘ دور کردیں تو شرعی تکالیف آپ کے لیے مرغوب ‘ محبوب اور فطری ہوگئیں۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ نے فرما دیا : میری آنکھ کی خنکی (یعنی دل کا سکھ اور راحت) نماز میں کردی گئی ہے۔
یہی مرتبہ جس کو اللہ نے ازالہ بار سے تعبیر فرمایا ہے۔ صو فیہ کے نزدیک ایمان حقیقی ہے اور صوفی جو کہتا ہے کہ صوفیہ سے تکالیف شرعیہ ساقط ہوجاتی ہیں ‘ اس قول کی مراد بھی یہی ہے (کہ تکالیف شرعیہ تکالیف نہیں رہتیں بلکہ مرغوب اور محبوب اور راحت آفریں ہوجاتی ہیں) یہ اونچا مرتبہ یعنی شرح صدر اور ازالہ بار کا درجہ رسول اللہ ﷺ کو ظاہری طور پر اور علی الاعلان حاصل ہوا تھا۔ مگر اولیاء امت کو آپ کے وسیلہ سے باطنی طور پر حاصل ہوجاتا ہے یعنی عالم مثال میں اس مرتبہ کا ظہور ہوتا ہے مگر یہ بات نفس اور نفسانیات کی مکمل فناء کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ نفس کی نام و نمود مٹ جانے کے بعد ہی صوفیہ کو شرح صدر اور ایمان حقیقی کی بشارت دی جاتی ہے۔ حضرت مجدد (رح) نے یہی فرمایا ہے اور دوسرے مشائخ کرام کے ملفوظات سے بھی ہم نے یہی استفادہ کیا ہے۔
عبداللہ بن یحییٰ اور ابو عبیدہ (رح) نے (تفسیر آیت کے متعلق) کہا ‘ ہم نے تم پر نبوت کا بار ہلکا کردیا اور فریضہ نبوت کی ادائیگی کو خفیف بنا دیا ‘ یہ مطلب بھی تفسیر دوئم کے مناسب ہے۔
بعض لوگوں نے کہا : آیت کی مراد یہ ہے کہ دور جاہلیت میں جو لغزشیں تم سے ہوگئی تھیں ‘ ہم نے ان کو ساقط کردیا (یعنی معاف کردیا) مگر یہ مطلب غلط ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی شان صدور لغزش سے بلندو برتر تھی۔ بعض علماء نے کہا : وزر سے مراد یہ ہے کہ فاضل کو کیا جائے اور افضل کو ترک کردیا جائے۔ یہ محض تکلف ہے۔