ان مع العسر یسرا . قرینہ دلالت کر رہا ہے کہ یہ استینافی کلام ہے (سابق کی تاکید محض نہیں) کیونکہ یہاں نہ فاء عاطفہ ہے نہ واؤ۔
اس میں تمام مؤمنوں سے وعدۂ جزا ہے اور رسول اللہ ﷺ سے بھی وعدہ ہے۔ مگر مؤمنوں سے وعدہ ہے کہ عسر دنیوی کے بعد یسر اخروی ملے گا اور رسول اللہ ﷺ سے وعدہ ہے کہ ایک عسر کا ایک یسر دنیا میں اور ایک یسر آخرت میں حاصل ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا تھا کہ ایک عسر دو یسر پر ہرگز غالب نہ ہوگا ‘ اسکا مطلب یہ ہے کہ دنیوی عسر اگر ایک یسر یعنی دنیوی یسر پر غالب آ بھی جائے (اور مؤمن دنیا کے اندر مدۃ العمر تنگی میں رہے) تو آجائے مگر آخرت کے یسر پر غالب نہیں آسکتا اور آخرت کا یسر ہی عظیم الشان اور لازوال ہے۔
بغوی نے لکھا ہے کہ العسر میں الف لام عہدی ہے اور دوسرے العسر میں جنسی ‘ واللہ اعلم۔
بعض اہل تفسیر نے اسکی تشریح میں کہا ہے کہ العسر سے مراد وہ ناداری اور شدت و مصیبت ہے جو مشرکوں کے ہاتھوں سے رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تھی اور آپ ﷺ نے اس کا شکوہ اللہ سے کیا تھا اور پہلے یسر سے مراد ہے اس حالت کا زوال اور فقر کی بجائے غنا۔
بیضاوی نے لکھا ہے کہ العسر سے مراد ہے سینہ کی تنگی ‘ پشت شکن بار ‘ قوم کی گمراہی اور ان کی طرف سے اذیت یابی اور پہلے یسر سے مراد ہے شرح صدر ‘ بوجھ دور کردینا ‘ قوم کا ہدایت کی توفیق پانا اور اطاعت کرنا اور دوسرے یسر سے سب کے نزدیک ثواب آخرت مراد ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ : ان مع العسر یسرًاکا معنی ہے ان بعد العسر یسرًا . بعد کی جگہ مع کا استعمال یہ بتانے کے لیے ہے کہ عسر کے بعد یسر کا حصول اتنا متصل ہے کہ گویا دونوں ساتھ ہی ساتھ ہیں۔
میرے نزدیک العسر سے مراد ہے مقام نزول میں مخلوق کی طرف توجہ کرنا (اور قلب کا مکمل ہر وقت رخ خالق کی طرف ہونا) جس کا رسول اللہ ﷺ کو ملال اور دکھ تھا اور یسر اوّل سے مراد ہے اسی مقام نزول میں خالق کی طرف رخ ہونا ‘ کیونکہ نزولی حالت میں بظاہر صوفی کا رخ خدا کی طرف نہیں ہوتا ‘ مخلوق کی طرف ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ خدا کی طرف سے رخ گرداں نہیں ہوتا بلکہ اسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دو نوں رخوں کی وجہ سے اس کو شرح صدر حاصل ہوتا ہے بلکہ مخلوق کی طرف توجہ چونکہ اللہ کے حکم سے اور اس کی مرضی کے موافق ہوتی ہے اس لیے وہ بھی اللہ ہی کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی اس یسر کو سیر من اللہ باللہ کہتا ہے (یعنی اللہ کی طرف سے رخ کو موڑ کر مخلوق کی طرف کرنا۔ مگر اللہ کے حکم سے اور اس کی رضا کے موافق) اس صورت میں لفظ مَعَ اپنے حقیقی معنی پر ہے یعنی پہلے جملہ میں مَعَ مقارنت کے لیے ہی ہے لیکن دوسرے جملہ میں بیشک مَعَ کا استعمال مجازی ہے (اور مَعَ بجائے بَعْدَ کے لایا گیا ہے) ۔
اس توجیہ پر مطلب یہ ہوگا کہ تم رنجیدہ نہ ہو۔ یہ عسر اور مخلوق کی طرف توجہ جو تمہارے لیے موجب حزن ہے اسی کے ساتھ یسر اور خالق کی طرف توجہ بھی ہے ‘ آخرت میں تمہاے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہ رہے گا اور خلوص توجہ سے کوئی مانع نہ ہوگا۔