فاذا فرغت فانصب . اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ نصب کا معنی ہے تھکان۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم دعوت خلق سے فارغ ہو تو عبادت کی محنت کرو تاکہ مذکورۂ سابق نعمتیں جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں اور آئندہ جن نعمتوں کا وعدہ کیا ہے ‘ ان سب کا شکر ادا ہو یا یہ مطلب ہے کہ جب ایک عبادت سے فارغ ہو تو دوسری عبادت کی محنت کرو ‘ کوئی وقت عبادت سے خالی نہ چھوڑو۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اہل جنت کو بس اس وقت کا افسوس ہوگا جو یاد خدا کے بغیر (دنیا میں) ان کا گزرا ہوگا۔
حضرت ابن عباس ‘ قتادہ ‘ ضحاک ‘ مقاتل اور کلبی نے یہ معنی بیان کیے کہ جب فرض نماز یا مطلق نماز سے فارغ ہو تو دعا کرنے کے لیے محنت کرو اور رب سے مانگنے کی طرف راغب ہو ‘ یعنی تشہد کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے یا سلام کے بعد۔ شعبی نے کہا : جب تشہد سے فارغ ہو تو اپنی دنیا اور آخرت کے لیے دعا کرو۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : جب فرائض کی ادائیگی سے فارغ ہو تو نماز شب میں محنت کرو۔ حسن اور زید بن اسلم نے کہا : جب دشمن سے جہاد کرنے سے فارغ ہو تو عبادت کے لیے محنت کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : ہم جہاد اصغر سے لوٹ آئے اور جہاد اکبر کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے۔
منصور کی روایت سے مجاہد کا قول آیا ہے کہ جب امور دنیا سے فارغ ہو تو عبادتِ رب میں محنت کرو۔ ابن حبان کی روایت سے کلبی کا قول آیا ہے ‘ جب تبلیغ رسالت سے فارغ ہو تو اپنے لیے اور اہل ایمان کے لیے استغفار کرو ‘ ان صورتوں میں گزشتہ آیت سے اس آیت کا ربط اس طرح ہوگا کہ (گزشتہ آیات میں عطاء نعمت کا اظہار تھا اور) نعمت موجب شکر ہے (لہٰذا نعمت کے شکریہ میں عبادت کرو) ہماری تفسیر کے مطابق اس آیت کا مطلب اس طرح ہوگا کہ جب دعوت خلق سے فارغ ہو اور مرتبۂ نزول کامل کا یہی مقصد ہے تو مراتب عروج و مقام شہود کی طرف اٹھو۔
اس وقت انصب کا معنی ہوگا : انتَصِب اور انتصب کا معنی ہے ارتفع۔ صحاح میں ہے کہ نصب الشئی کا معنی ہے کسی چیز کو رکھنا جیسے غلّہ یا مکان یا پتھر کو (ایک خاص وضع پر) رکھنا۔ قاموس میں ہے کہ نصب اضداد میں سے ہے۔ نصب الشئی کسی چیز کو نیچے رکھا یا اوپر اٹھایا۔ نصب (متعدی) سے انتصب (لازم) اور تنصَّب آتا ہے۔ ناقۃٌ نصباء اٹھے ہوء سینے والی اونٹنی۔ تنصب العذابُ ۔ کوّ ا اٹھا۔ اس تفسیر کے بموجب رسول اللہ ﷺ کو ویسا ہی پیام تسلی ہوگا جیسے آیت : ان مع العسر یسرًا میں ہے۔