Mazhar-ul-Quran - Al-Muminoon : 108
قَالَ اخْسَئُوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ
قَالَ : فرمائے گا اخْسَئُوْا : پھٹکارے ہوئے پڑے رہو فِيْهَا : اس میں وَلَا تُكَلِّمُوْنِ : اور کلام نہ کرو مجھ سے
) (ف 1) خدا فرمائے گا کہ اسی (جہنم) میں پھٹکارے پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو
دنیا کی عمر۔ (ف 1) ان آیتوں میں اوپر کا جواب یہ ملا کہ جس وقت یہ لوگ دنیا میں پھر آنے اور نیک عمل کرنے کی خواہش اللہ کے روبرو پیش کریں گے اس وقت یہ جواب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دیوے گا جو اس آیت میں ہے معتبر سند سے ترمذی، ابوداؤد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل مطلب یہ ہے کہ دوزخی لوگ دوزخ کے عذاب سے تنگ آکر پہلے تو داروغہ دوزخ سے اپنی موت کی دعا کرنے کی خواہش کریں گے، ہزار برس تک تو مالک داروغہ دوزخ سے اپنی موت کی دعا کرنے کی خواہش کریں گے ہزار برس تک تو مالک داروغہ دوزخ کی طرف سے ان کو کچھ جواب نہ ملے گا، ہزار برس کے بعد یہ جواب ملے گا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی فریاد رس تمہارا نہیں ہے پھر یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے التجا کریں گے یا اللہ اب ہم کو دوزخ سے نکال، دوبارہ ہم تیری مرضی کے مخالف عمل نہیں کریں گے دنیا کی جتنی عمر ہے اس سے دوچند مدت تک تو کچھ جواب ان کو نہ ملے گا یعنی بارہ ہزار برس تک یا بعض کے قول کے مطابق دوچند مدت تین لاکھ ساٹھ ہزار برس ہے پھر اس قدرت مدت کے بعد یہ جواب ملے گا کہ اسی جہنم میں ذلیل ہوکر پڑے رہو اور مجھ سے بات بھی نہ کرو، اب ان کی امیدیں منقطع ہوجائیں گی اور یہ اہل جہنم کا آخر کلام ہوگا، پھر اس کے بعد انہیں کلام کرنا نصیب نہ ہوگا روتے چیختے رہیں گے۔
Top