Mazhar-ul-Quran - Al-Furqaan : 3
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ وَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَیٰوةً وَّ لَا نُشُوْرًا
وَاتَّخَذُوْا : اور انہوں نے بنا لیے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے علاوہ اٰلِهَةً : اور معبود لَّا يَخْلُقُوْنَ : وہ نہیں پیدا کرتے شَيْئًا : کچھ وَّهُمْ : بلکہ وہ يُخْلَقُوْنَ : پیدا کیے گئے ہیں وَلَا يَمْلِكُوْنَ : اور وہ اختیار نہیں رکھتے لِاَنْفُسِهِمْ : اپنے لیے ضَرًّا : کسی نقصان کا وَّلَا نَفْعًا : اور نہ کسی نفع کا وَّلَا يَمْلِكُوْنَ : اور نہ وہ اختیار رکھتے ہیں مَوْتًا : کسی موت کا وَّلَا حَيٰوةً : اور نہ کسی زندگی کا وَّلَا نُشُوْرًا : اور نہ پھر اٹھنے کا
اور (مشرک) لوگوں نے اس کے سوا اور خدا مقرر کرلیے ہیں کہ وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور خود اپنی جانوں کے برے بھلے کے مالک نہیں، اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور (مرکر) نہ اٹھ کھڑے ہونا۔1
قرآن شریف کی تصدیق۔ (ف 1) ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ یہ کافر لوگ نبوت سے پہلے چالیس سال تک جب یہ آزماچکے کہ رسول اللہ کی عادت ہرگز جھوٹ بولنے کی نہیں ہے تو اب نبوت کے بعد ان لوگوں کا اللہ کے رسول کو جھٹلانا، اور یہ کہنا بڑی ناانصافی اور بالکل جھوت ہے کہ مکہ میں چند یہودی رہتے ہیں وہ صبح وشام پچھلی قوموں کے کچھ قصے رسول اللہ کو لکھ دیتے ہیں رسول اللہ زبردستی ان باتوں کو اللہ کا کلام بتاتے ہیں آگے فرمایا، اے محبوب تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ قرآن میں جو آسمان و زمین کی غیب کی خبریں ہیں ان سے تم لوگ سمجھو تو یہ بات تمہاری سمجھ میں اچھی طرح آسکتی ہے کہ یہ قرآن اس اللہ کا کلام ہے جس کو آسمان و زمین کی سب بھید کی باتیں معلوم ہیں اور باوجود اللہ کے کلام کو جھٹلانے کے تم لوگوں پر جلدی سے کوئی آفت جو نہیں آتی اس کا سبب یہی ہے کہ ہمیشہ سے ایک عادت الٰہی ہے کہ نافرمان لوگوں کو پہلے اللہ تعالیٰ اپنی درگزر اور مہربانی سے مہلت دیتا ہے پھر اگر مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو اس کو کسی سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے۔
Top