Mazhar-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 102
فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
فَلَوْ : پس کاش اَنَّ لَنَا : کہ ہمارے لیے كَرَّةً : لوٹنا فَنَكُوْنَ : تو ہم ہوتے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
پس1 کسی طرح ہمیں (دنیا میں) پھرجانا ہوتا تاکہ ہم مسلمان ہوتے۔
(ف 1) ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں توعاقبت کے منکر لوگ دوزخ کے عذاب سے بےخوف ہیں میدان حشر میں جب وہ عذاب دیکھیں گے تو یہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ پھر دنیا میں پیدا کیے جائیں اور نیک کام کرکے جس طرح نیک کام کرنے والوں کو اس عذاب سے نجات مل گئی ہے اسی طرح ان کو بھی اس عذاب سے نجات مل جائے مگر یہ خواہش ان کی اللہ کے علم میں ہے کہ اگر ان لوگوں کو دوبارہ دنیا میں پیدا کیا گیا تو پھر یہ ایسے ہی گمراہی کے کام کریں گے فرمایا کہ جب دوزخ میں منہ کے بل ڈالے جایں گے اس وقت یہ بدلوگ قسمیں کھاکھا کر اپنی گمراہی پر افسوس کریں گے اور کبھی بدل لوگ شیطان یا گمراہ کرنے والے دوست جنہوں نے بہکایا تھا ان کو برا بھلا کہیں گے نیک لوگوں کی شفاعت سے نجات پاتے دیکھ کر یہ آرزوکریں گے کہ کوئی دوست ان کا بھی ایسا پیدا ہوجائے کہ ان کی شفاعت کرے اور ان کو اس عذاب سے نجات دلوادے مگر آخرت تو ایسا مقام ہے کہ سوا توحید کے اور کوئی چیز وہاں کام نہیں آسکتی۔ اس وسطے ان مشرکوں کی کوئی آرزو کام نہ آئے گی آخر فرمایا کہ دنیا میں عقبی کا انجام جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بتلادیا ہے یہ اس کی عبرت کی نشانی ہے لیکن جو لوگ گمراہ ہیں وہ کسی نشانی سے راہ راست پر نہیں آنے والے، یہ اللہ کی ایک رحمت ہے جو اس نے ایسے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے۔
Top